اردوئے معلیٰ

Search

آج خوبصورت لب و لہجے کی نامور شاعرہ محترمہ فریحہ نقوی کا یوم پیدائش ہے

 فریحہ نقوی(پیدائش: 5 جنوری 1992ء )
——
لاہور سے تعلق رکھنے والی خوبصورت لہجے کی شاعرہ فریحہ نقوی 5 جنوری کو لاہور کے سادات گھرانے میں پیدا ہوئیں. شاعری کا آغاز اسکول کے زمانے سے کیا. سی-اے انٹر کے بعد اکاؤنٹس کے شعبے سے وابستہ ہیں.
حال ہی میں اردو میں ایم اے کیا ہے.
فریحہ نقوی چھوٹی بحروں میں سہل ممتنع کے اشعار کہنے پر گرفت رکھتی ہیں اور اپنی شاعرانہ صلاحیتیں لاہور اور دیگر شہروں میں منوا چکی ہیں. وہ بلاشبہ شہر لاہور کی نوجوان نسل کی نمائندہ شاعرہ ہیں.
——
جدیدیت اور فریحہ نقوی کی شاعری
——
صاحبو!! دو ہزار دس کی دہائی کے بعد بہت سے نوجوان شعرا سامنے آئے لیکن ان میں سے چند ایک ہی اپنا سفر صحیح سمت میں جاری رکھ سکے۔ اکثر شعرا منفرد ہونے کی دھن میں اصل راہ سے ہٹ گئے۔ جدیدیت کے نام پر ہونے والے تجربات نے شعرا کا ایسا دماغ خراب کیا ہے کہ اب جب تک وہ اپنے ہر شعر میں کوئی نہ کوئی انگریزی کا حرف استعمال نہ کر لیں انہیں لگتا ہے کہ ان کا شعر نامکمل ہے۔ روایت کی پاسداری کرنے والوں کا ایسا بائیکاٹ کیا گیا کہ اچھے اچھے شعرا بھی روایتی ڈگر سے ہٹ گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے نامور فلمی شاعر تنویر نقوی کا یومِ پیدائش
——
ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوا تھا کہ اب بس جدید شعر کہنے والے ہی اس دور میں سانس لے سکیں گے۔ لیکن ایسا بس ایک لمحہ کے لیے تھا۔ کیونکہ جدید شاعری کے پاس کوئی ایسی مضبوط بنیاد نہیں تھی جس کے بل پر وہ کھڑی ہو سکے۔ گو ظفر اقبال اور منصور آفاق جیسے لوگوں نے بہت سے تجربات کیے لیکن یہ تجربات اتنے پراثر نہیں نکلے جتنی توقع کی جا رہی تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ تجربات رائیگاں چلے گئے۔ ان تجربات نے اپنی ایک جگہ ضرور بنائی اور انہی تجربات کے زیر_ اثر اردو ادب میں حسب_ ضرورت جدت ضرور آ گئی لیکن یہ جدت ان تجربات کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھی جس کا آغاز منصور آفاق اور ظفر اقبال نے کیا تھا۔ ان تجربات کے بعد نئے شعرا کنفیوز ہو گئے کہ جدت کا اصل مطلب اور لیول کیا ہے؟ چند ایک نام جو کہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں بس وہی جدت کے درست مطلب اور لیول کو سمجھ پائے ۔اور انہی شعرا نے روایت اور جدت کا وہ حسین امتزاج پیش کیا کہ ان کے شعر پڑھنے والا ہر قاری بے اختیار عش عش کر اٹھتا ہے۔
انہی گنتی کے شعرا میں سے ایک کو زمانہ “ فریحہ نقوی ” کے نام سے جانتا ہے۔ بچپن کے زمانے سے شعر کہنے والی فریحہ نقوی 2015 میں باقاعدہ طور پر اردو ادب کے منظرنامے پر ابھری۔ فریحہ نقوی نے بہت کم عرصے میں وہ نام کمایا جس کی خواہش میں لوگ اپنی ساری زندگی صرف کر دیتے ہیں۔ آوارد اور آمد کے گھن چکر کو ایک طرف رکھتے ہوئے میں صرف شعر پہ بات کروں گا۔ فریحہ نقوی کی شاعری خالصتا” کیفیاتی شاعری ہے۔ ایک آدھ کیفیاتی شعر تو ہر ایک شاعر کی غزل میں موجود ہوتا ہے لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ پوری کی پوری غزل ہی کیفیاتی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شاعر ایک سیکنڈ میں کئی فیز بدلتا ہے اور ہر فیز کا اپنا مزاج اور اپنا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے مسلسل تبدیل ہونے والی ہر کیفیت کو فورا شعر کا روپ دینا کوئی آسان کام نہیں۔
اشعار دیکھیے
——
درد کی اس شدت میں شریانوں کی خیر
یادیں اور یادیں بھی ان شاموں کی، خیر
ڈھیر محبت کرنے والوں کے صدقے
مٹھی بھر نفرت کرنے والوں کی خیر
——
دونوں شعر مختلف فیز میں کہے گئے ہیں لیکن کیفیت کا لیول دونوں شعروں میں ایک جیسا ہی ہے اور یہی کسی بھی شاعر کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ وہ ہر فیز کی کیفیت کو من و عن ویسا بیان کرے جیسا وہ محسوس کر رہا ہے
ادبی منافقین نے بھی فریحہ نقوی کو اس کی راہ سے ہٹانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے لیکن وہ ان مشکلوں سے مایوس ہونے کی بجائے اور مضبوط ہوئی۔
شعر دیکھیے۔
——
آپ کو منہ نہیں لگایا
توآپ بہتان پر اتر آئے
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعرہ ڈاکٹر مینا نقوی کا یومِ وفات
——
فریحہ نقوی نے عام لوگوں کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عام لوگوں کے مسائل کو ان شعرا سے زیادہ بہتر انداز میں بیان کر سکتی ہے جو عالیشان بنگلوں میں رہتے ہوئے غربت پر شعر کہہ رہے ہوتے ہیں ، کیا خوبصورت شعر ہے۔۔۔
——
چھوڑو جاؤ کون کہاں کی شہزادی؟؟
شہزادی کے ہاتھ میں چھالے ہوتے ہیں؟؟
——
فریحہ نقوی کی شاعری میں جو اداسی اور کرب ہے وہی دراصل کا اسلوب ہے۔ شعر پڑھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فریحہ نقوی کا شعر ہے۔ جدید شعرا میں ایسا نہیں ہے۔ آپ کو اگر تین چار مختلف شعرا کے جدید شعر سنا دیے جائیں تو آپ یہ تو کہہ دیں گے کہ یہ جدید شعر ہیں لیکن یہ نہیں بتا پائیں گے کہ یہ کس کس شاعر کے شعر ہیں۔
اور یہی جدید شاعری کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ شاعر اپنا اسلوب نہیں پہچان پاتا۔نتیجتا” اس کے شعر دوسروں کے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں۔ فریحہ نقوی اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہے کہ وہ اپنے اسلوب کو نہ صرف پہچانتی ہے بلکہ اس میں مضبوط شعر کہنا بھی جانتی ہے۔ اس خوبصورت شاعرہ کے لیے بہت سی دعائیں۔ اللہ پاک اس کے رزق_ سخن میں مزید اضافہ فرمائیں۔ آمین۔ فریحہ نقوی کی کچھ شاعری آپ کے سامنے پیش ہے۔ پڑھئیے اور لطف اٹھائیے۔
——
منتخب کلام
——
آہ نہ بھر سکیں تو آپ واہ سے کام لیجیے
شعر پہ سیٹیاں نہیں! درد پہ تالیاں نہیں!
——
تمہارے بعد کسی کم سخن نے وحشت میں
بجھا کے سارے دیے ، آئنوں سے باتیں کیں
——
مرا دل یہ کہتا ہے وہ ان دنوں کچھ پریشان ہے
مگر یہ بھی طے ہے اسے میرا شانہ نہیں چاہیے
——
نہیں شاہزادے! حقیقت کی دنیا بڑی تلخ ہے
تجھے میرے خوابوں سے باہر نکلنا نہیں چاہیے
——
بہت سی خواہشوں میں سے(جو بے مراد رہ گئیں)
تمہارے ساتھ بارشوں میں بھیگنا بھی ایک تھی
——
کسی کے شہر کو بادل مبارک ہوں
ہمارے شہر میں آنکھیں برستی ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے نامور فلمی شاعر تنویر نقوی کا یومِ وفات
——
عید کے دن یہ سوگوار آنکھیں
بد شگونی کا استعارہ ہیں
——
خوابوں کی مٹی سے بنے دو کوزوں میں
دو دریا ہیں اور اکٹھے بہتے ہیں
——
نئی کہاں یہ روایت بہت پرانی ہے
یہ صبر تو مِرے اجداد کی نشانی ہے
تمھارے پاس تو سب کچھ ہے،یعنی ہم بھی ہیں
ہمارے پاس فقط رنج رائیگانی ہے
——
اس کی جانب سے بڑھا ایک قدم
میرے سو سال بڑھا دیتا ہے
——
بس یونہی رنج کا ابر شعروں کی بارش میں ڈھلتا گیا
وارثان سخن ! کوئی تمغہ نہیں ہے کمانا مجھے
——
سن مرے خواب میں آنے والے
تجھ سیجلتے ہیں زمانے والے
——
میں نے ان سے ہٹ کر راہ نکالی ہے
رستہ روکنے والی دیواروں کی خیر!
——
سرخ چناروں والا رستہ خواب میں آتا ہے
نیند میں چلتی جاتی ہوں ، کشمیر بلاتا ہے!
——
قت کی آندھی لے اڑتی ہے کیسے کیسے لوگ
سوچ کے دل کو خوف آتا ہے ، اچھا خاصا خوف
——
تمہارے رنگ پھیکے پڑگئے نا
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
——
دیکھ لے تیرے چاہنے والے
میری ہمت کی داد دیتے ہیں
——
یہ جو حق پر ڈٹی ہوئی ہوں میں
غاصبوں کو لڑی ہوئی ہوں میں
——
رد نہ کر پائے دلائل میرے
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
——
زمانے !!! اب ترے مد مقابل
کوئی کمزورسی عورت نہیں ہے
——
یہ بھی پڑھیں : عشق کو حسن کے انداز سکھا لوں تو چلوں
——
ترا مغرور ہوجانا بجا تھا
‘مجھے’ تجھ سے محبت ہوگئی تھی
——
ہم اداسی کے اس دبستاں کا
آخری ، مستند حوالہ ہیں
——
کیا کسی خواب کی تلافی ہے
آنکھ کا دھجیوں میں اڑ جانا
——
شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے
——
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ
جس کو دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
——
کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے
حق پرستوں کے لئے زندان ہونا چاہئے
اس وطن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے روپ میں شیطان ہونا چاہئے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہئے
نیم ملا خطرۂ ایمان ہوتا ہے اگر
پورا ملا غاصب ایمان ہونا چاہئے
دل سے شرمندہ ہوں یہ اشعار جو میں نے کہے
آپ کے اعزاز میں دیوان ہونا چاہئے
——
مرے لفظوں کو خیالوں سے جلا دیتا ہے
کون ہے وہ جو مجھے مجھ سے ملا دیتا ہے
جب بھی گزرے مرے آنگن سے وفا کا موسم
تیری چاہت کا نیا پھول کھلا دیتا ہے
اس سے خلوت میں ملاقات کا عالم کیا ہو
جو نگاہوں سے سر بزم پلا دیتا ہے
میں معافی تو اسے دے دوں مگر سچ یہ ہے
جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ہے
——
میناروں پر جیسے جیسے شام بکھرتی جاتی ہے
منظر اور دل دونوں میں ویرانی بھرتی ہے
شہر کے بارہ دروازے ہیں جانے کہاں سے آئے وہ
شہزادی یہ سوچ کے ہر در روشن کرتی جاتی ہے
مسجد کے دالان سے لے کر گھنگھرو کی جھنکار تلک
ایک گلی کئی صدیوں سے چپ چاپ گزرتی جاتی ہے
راوی تو اب بھی زندہ ہے لیکن اس کے سینے میں
دھڑکن دھڑکن بہتی ایک روایت مرتی جاتی ہے
زرد فصیلیں ڈھلتا سورج دیکھ کے ایسا لگتا ہے
قلعے پر اب دھیرے دھیرے رات اترتی جاتی ہے
——
بیتے خواب کی عادی آنکھیں کون انہیں سمجھائے
ہر آہٹ پر دل یوں دھڑکے جیسے تم ہو آئے
ضد میں آ کر چھوڑ رہی ہے ان بانہوں کے سائے
جل جائے گی موم کی گڑیا دنیا دھوپ سرائے
شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے
آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے
ہر اک دھڑکن درد کی گہری ٹیس میں ڈھل جاتی ہے
رات گئے جب یاد کا پنچھی اپنے پر پھیلائے
اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!
یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے
——
نظم : ایک سو بیس دن
ہم دسمبر میں شاید ملے تھے کہیں!!
جنوری، فروری، مارچ، اپریل
اور اب مئی آ گیا
ایک سو بیس دن
ایک سو بیس صدیاں ، گزر بھی گئیں
تم بھی جیتے رہے,
میں بھی جیتی رہی
خواہشوں کی سلگتی ہوئی ریت پر
زندگانی دبے پاؤں چلتی رہی
میں جھلستی رہی
میں ، جھلستی ، رہی
خیر،
چھوڑو یہ سب!
تم بتاؤ تمہیں کیا ہوا؟
کیوں پریشان ہو؟؟؟؟
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ