اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر ، ادیب اور مترجم حبیب اشعر دہلوی کا یومِ وفات ہے

حبیب اشعر دہلوی(پیدائش: 1919ء – وفات: 14 جون 1971ء)
——
جناب حبیب اشعر ماہر مستند طبیب تھے۔1919 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ مسیح الملک حکیم اجمل خان صاحب کے خاندان سے قلبی رشتہ تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد لاہور آ گئے۔حکیم محمد اجمل صاحب کے پوتے اور اجمل لیبارٹریز کے مالک جناب حکیم نبی خان جمال سویدا سے گہرے مراسم تھے۔ (حکیم نبی خان جمال سویدا مسیح الملک حکیم محمد اجمل خان کی قائم کردہ حکماء کی قدیم نمائندہ طبی تنظیم طبی کانفرنس کےصدر بھی تھے )معروف نثر نگار انتظار حسین نے حکیم حبیب اشعر دہلوی کو درویش طبیب قرار دیا ہے۔حبیب اشعر اردو کے شدید دلدادہ تھے۔ان کے پاس آنے والے مریضوں کو دہلی کے مخصوص ذائقے کی یادگار چائے یا خالص شربت ضرور پیش کیا جاتا۔ اور ساتھ ہی اردو کے بہترین اشعار سے روح کی تواضع بھی کی جاتی۔شعراء کرام سے دواء کی قیمت لینا زیادتی اور خطاء قرار دیتے تھے۔۔ شاعری کی آمد کا عالم یہ تھا کہ نسخہ تحریر کرنے کے لئے قلَم اٹھاتے تو اشعار اترنے لگتے۔ مہمان نوازی کا جذبہ اتنا گہرا کہ شعراء کو چائے اپنے ہاتھ سے بنا کر پلاتے ماہنامہ "حاذق” لاہور کے مدیر اور لاہور سے چھپنے والے "فنون” کے شریک مدیر بھی رہے دو کتابیں۔۔۔ "راز و نیاز”، اور "اُردُو غزل کا مُستقبِل” بھی تحریر فرمائیں ۔
نسبی جانشین نہ ہونے کے باعث بہت سا کلام منظر عام پر نہ آسکا۔ البتہ یہ بھی ٹھیک ہی ہُوا ورنہ کسی ناشر کے ہاتھ لگ جاتا تو اس کی چاندی ہو جاتی کیونکہ ساغر ، اور اقبال ساجد کا کلام آج بھی ناشرین کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔
"زمیں کھا گئی آسماں کَیسے کَیسے”
(حکیم خلیق الرحمٰن)
——
یہ بھی پڑھیں : مسعود اشعر کا یومِ وفات
——
حکیم حبیب اشعر دہلوی نمود و نمائش کے بالکل بھی قائل نہ تھے ۔ اپنے مجموعے راز و نیاز میں ان کے خیالات سے بالکل واضح طور پہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے کلام کی تعریف و توصیف کے بھی قائل نہ تھے ۔
——
عرضِ مصنف از حبیب اشعر دہلوی
——
راز و نیاز کی طباعت و اشاعت پر قدرتاََ مجھے خوش ہونا چاہیے کہ فی زمانہ شاعر کے لیے اس کی تمام تر کوششوں اور دماغ سوزیوں کا ماحصل اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اس کا مجموعۂ کلام اس کی زندگی میں زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہو کر شائقینِ شعر و ادب کے ہاتھوں میں پہنچ جائے ۔
اس اظہارِ مسرت و شادمانی کے ساتھ ساتھ اُن تنقیص پسند حضرات کا بھی خیال آتا ہے جو صرف ” اعتراض کرنے کے لیے اعتراض کرتے ہیں ” ۔
اور جن کا مطمع نظر نقد و تبصرہ نہیں بلکہ اپنی دنأتِ طبع کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔
لیکن بحمد للہ میں ان کوتاہ نظر طبائع کے ایرادات و اعتراضات سے خائف ہوں ، نہ مدح و تحسین سے خوش ۔
——
تنقیص سے خفا نہ ستائش پسند ہوں
یہ دونوں پستیاں ہیں ، میں ان سے بلند ہوں
——
اس خیال سے مقدمہ بھی کتاب میں شامل نہیں کیا گیا کہ میرے نزدیک کسی ادیب یا شاعر سے مقدمہ لکھنے کی استدعا کرنے کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ تعلقات کا دباؤ ڈال کر اس کو اپنی اور اپنے کلام کی بیجا تعریف و توصیف پہ مجبور کیا جائے ۔
میری یہ ” بدعتِ حسنہ ” ہر چند موجودہ روش کے سر تا سر منافی ہے لیکن میں اپنے آپ کو اس کے لیے مجبور پاتا ہوں ۔
استادی اور شاگردی کے باب میں بھی میرا نظریۂ افراط و تفریط سے بالاتر ہے یعنی نہ میں دورِ حاضر کے روشن دماغ نوجوانوں کی طرح استاد کے وجود کو بیکار و لایعنی تصور کرتا ہوں اور نہ قدامت پسند پیرِ روشن ضمیر کی طرح صرف ایک استاد پہ قناعت کرنا طغرائے شرافت و وضع داری سمجھتا ہوں ۔
بلکہ اکتسابِ کمال کے لیے جو شئے اپنے مفید مطلب پاتا ہوں اس کے حصول میں مطلق تأمل نہیں کرتا ۔
اس ڈیڑھ جُز کے دیوان میں کیا کیا نقائص ہیں ، یا کیا کیا خصوصیات ہیں اس کا فیصلہ تو نقادِ فن ہی بخوبی کر سکتا ہے تاہم ایک خصوصیت جس کو قائم و برقرار رکھنے کے لیے میں نے امکان بھر کوشش کی ہے ، یہ ہے کہ تخیل پست ہو یا بلند ، لیکن الفاظ غیر مناسب نہ ہوں ۔
اس لیے کہ مناسب الفاظ فراہم نہ ہو سکنے کی وجہ سے تخیل کی ساری خوبیاں اور رعنائیاں ملیا میٹ ہو جاتی ہیں ۔
مذکورہ بالا خصوصیت کی علاوہ اگر کوئی معنوی خوبی میرے کلام میں نظر آئے تو اس کو میرے کمالِ فن پہ محمول نہ فرمائیے گا بلکہ کسی شباب سے بھر پور ہستی کی چشم سحر کار کی افسوں طرازی کا نتیجہ خیال کیجیے گا ۔
کہ میری یہ تمام رنگین بیانیاں اور نازک خیالیاں اسی کی رہین منت ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : اقبال اشہر کا یومِ پیدائش
——
آخر میں حضرت حکیم آزادؔ اںصاری ، حضرت مولانا سیمابؔ اکبر آبادی ، حضرت مولانا ظفر تاباںؔ ، پروفیسر رامجس کالج دہلی اور حضرت حیدرؔ دہلوی کی بزرگانہ عنایات کا بہ صمیمِ قلب شکر گذار ہوں کہ ان حضرات کے گرانقدر مشوروں نے میری معلوماتِ شعری میں واضح اور نمایاں اضافہ کیا ہے ۔
——
منتخب کلام
——
میرے دل سے کوئی نظارہ کی لذت پوچھے
یہ تو آنکھیں بھی نہیں جانتیں ، دیکھا کیا ہے ؟
——
آخرش دردِ محبت نے جگر دیکھ لیا
اب خدا خیر کرے ، موت نے گھر دیکھ لیا
——
جنہیں خود اپنی حقیقت سے آگہی نہ ہوئی
وہ کس نظر سے تمہیں بے حجاب دیکھیں گے ؟
——
تمہاری خوش خرامی کا تصور کر کے دیکھیں گے
تماشے دل ہی دل میں فتنۂ محشر کے دیکھیں گے
اگر مل جائیں ان کی چشمِ میگوں کے کہیں افسوں
تو دنیا میں ذرا ہم بھی خدائی کر کے دیکھیں گے
——
میں سیہ بخت کہاں اور کہاں عکسِ جمال
اک توجہ نے تمہاری ہمہ تن نور کیا
جب کوئی آپ کو چھپنے کا بہانہ نہ ملا
بیخودی پر دلِ بیتاب کو مجبور کیا
——
دل تو اشعرؔ نگہِ ناز پہ قربان ہوا
کاش مجموعۂ ہستی بھی پریشاں ہو جائے
——
کون وحشت سے ہماری نہ گریزاں نکلا
قیس بھی ہم سے بچائے ہوئے داماں نکلا
——
اب ہوا ذوقِ نظر میرا مکمل اشعرؔ
جس طرف آںکھ اُٹھی ، جلوۂ جانانہ ملا
——
سو سو بناؤ ہیں ترے اک اک بگاڑ میں
بس چھیڑ چھیڑ کر تجھے دیکھا کرے کوئی
——
روح فرسا کوئی نالہ دلِ ناشاد کریں
آ ! تجھے آج غمِ عشق سے آزاد کریں
محوِ ہنگامہ رہیں ، روئیں کہ فریاد کریں
کس طرح تم سے بیاں عشق کی روداد کریں
ظلم پر ظلم ، وہ بیداد پہ بے داد کریں
ہم مسلماں نہیں کافر ہیں جو فریاد کریں ؟
کیا یہی شانِ تغافل یہی انداز رہے
ہم اگر پوری توجہ سے تمہیں یاد کریں ؟
مطمئن خدشۂ محشر سے ہوئے خوگرِ غم
شکوہ کس منہ سے ترا اے ستم ایجاد کریں؟
شدتِ درد سے فرصت نہ لہو رونے سے
کہیے اب دل کو سنبھالیں کہ انہیں یاد کریں ؟
دل جب آفات و الم میں بھی ہے خندہ بلب
پھر کس امید پر آمادۂ فریاد کریں ؟
شوقِ نظارہ بھی ہے دید کی ہمت بھی نہیں
شاد کس طرح تجھے اے دلِ ناشاد کریں ؟
بندوبست انجمنِ ناز کا برہم ہو جائے
ہم اگر اب بھی جگر تھام کے فریاد کریں
اپنی ہستی تو کجا ، راہِ طلب میں اشعرؔ
خضر کی عمر بھی ہاتھ آئے تو برباد کریں
——
بلائے جاں تری زلفوں کے پیچ و خم بھی ہوتے ہیں
طبیعت بھی اُلجھتی ہے ، پریشاں ہم بھی ہوتے ہیں
حسیں اہلِ نظر سے شاد بھی برہم بھی ہوتے ہیں
یہ عالم آشنا بیگانۂ عالم بھی ہوتے ہیں
تحیر ، غنچۂ نو رس کے مرجھانے پہ ، کیا معنے؟
جو شیرازے بندھا کرتے ہیں وہ برہم بھی ہوتے ہیں
یہ جن دیوانوں سے ان کی توجہ بے تعلق ہے
یہی دیوانے اُن کی بزم کے محرم بھی ہوتے ہیں
جہاں ہے ان حسینوں کی دل آزاری کا چرچا ہے
کسی بے کس کے یہ کافر شریکِ غم بھی ہوتے ہیں ؟
رسائی ہے کہاں تک اہلِ دل کی ؟ تم نہیں واقف
تمہاری انجمن میں غائبانہ ہم بھی ہوتے ہیں
مجھے کیا حق ہے اشعرؔ کم نگاہی کی شکایت کا ؟
مُجھی پر ظلم اُس سفاک کے پیہم بھی ہوتے ہیں
——
دنیا کو دیکھ دیدۂ بینا لیے ہوئے
ہر ذرہ ہے جہانِ تماشا لیے ہوئے
تو اور میرے سایہ سے بھی تجھ کو احتراز
میں اور دل میں تیری تمنا لیے ہوئے
کوسوں حدودِ شوق سے آگے نکل گیا
ناکامیٔ نظر کا سہارا لیے ہوئے
اب تابِ انتظار نہیں شوقِ دید میں
آ جا ، مرے سکون کی دنیا لیے ہوئے
اشعرؔ تصورات کی رنگینیاں نہ پوچھ
وہ جلوہ بار ہیں رُخِ زیبا لیے ہوئے
——
آبادیٔ جنوں میں بھی ویرانہ چاہیے
دل پائمالِ جلوۂ جانانہ چاہیے
مستی میں رازِ ہر دو جہاں آشکار ہوں
اتنا تو ہوش اے دلِ دیوانہ چاہیے
آئے ہیں لے کے ناز ، حریمِ نیاز میں
اندازِ عشق سب سے جداگانہ چاہیے
ساقی! حواس و ہوش کا ہنگامہ گرم ہے
ایسے میں ایک گردشِ پیمانہ چاہیے
ہے ننگِ میکشی مئے و ساغر کا انتظار
ہر جُنبشِ نگاہ میں مے خانہ چاہیے
اشعرؔ یہ جُبہ سائیِ دِیر و حرم ، غلط
سجدہ کے واسطے درِ جانانہ چاہیے
——
حوالہ جات
——
تحریر : حبیب اشعر دہلوی از راز و نیاز
شائع شدہ 1939 ، صفحہ نمبر 4 تا 6
شعری انتخاب ، راز و نیاز ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ