اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز شاعر جناب حفیظ ہوشیار پوری کا یوم وفات ہے

حفیظ ہوشیار پوری(پیدائش: 5 جنوری، 1912ء- وفات: 10 جنوری، 1973ء)
——
حفیظ ہوشیار پوری کی مختصر سوانح
——
۵ جنوری ۱۹۱۲ء
ولادت، بمطابق ۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ بروز جمعہ، دیوان پور، ضلع جھنگ
۲۰ جون ۱۹۲۱ء
والد شیخ فضل محمد کا انتقال۔
۱۹۲۸ ء
میٹرک، اسلامیہ ہائی اسکول، ہوشیار پور۔
نومبر۱۹۳۰ء
پہلا منظوم ترجمہ شیلے کی نظم "A Widow Bird”جوطائرمہجور کے نام سے ہمایوں میں شائع ہوا۔
۱۹۳۰ء
سرپرست نانا شیخ غلام محمد سندا کا انتقال۔
۱۹۳۱ء
انٹر میڈیٹ کالج ہوشیار پور۔ پہلی طبع زاد نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ اخترشیرانی کے رسالے خیالستان میں شائع ہوئی۔
مارچ۱۹۳۲ء
پہلی غزل نیرنگ خیال میں شائع ہوئی۔
۱۹۳۳ء
بی۔ اے گورنمنٹ کالج لاہور۔
۱۹۳۶ء
ایم۔ اے فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور۔
۱۹۳۶۔ ۱۹۳۷ء
انجمن اردو پنجاب سے وابستگی، صلاح الدین مرحوم کے رسالے ادبی دنیا اور مولانا چراغ حسن حسرت کے ہفت روزہ شیرازہ کے عملہ ادارت میں شمولیت۔
۱۹۳۷ء
سردار دیوان سنگھ مفتون کی دعوت پر دہلی روانگی، اخبار ریاست کی ادارت
——
یہ بھی پڑھیں : اختر ہوشیار پوری کا یومِ پیدائش
——
۱۹۳۸ء
دارالاشاعت پنجاب سے وابستگی۔
پھول و تہذیبِ نسواں کی ادارت…
۲۶ سال کی عمر میں شادی۔
۲۹ اپریل۱۹۳۹ء
حفیظؔ کی صدارت میں ’’بزم داستاں گویاں ‘‘ کا قیام۔
یکم اکتوبر۱۹۳۹ء
آپ کی صدارت میں بزم داستاں گویاں کا نام تبدیل کر کے حلقۂ اربابِ ذوق رکھا گیا۔
۳۱ اکتوبر۱۹۳۹ء
پروگرام اسسٹنٹ آل انڈیا ریڈیو، لاہور۔
۱۹۴۲۔ ۱۹۴۳ء
آل انڈیا ریڈیو بمبئی۔
۱۹۴۳ء
لاہور آمد
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء
ریڈیو سے نشر ہونے والا قیامِ پاکستان سے متعلق اعلان آپ ہی کا لکھا ہوا تھا۔
۱۹۴۸ء
کراچی ریڈیو سے وابستگی۔
۱۹۵۰ء
لاہور ریڈیو سے وابستگی۔
۱۹۵۱ء
نشریات کے لسانی لوازمات خصوص اً خبروں کے ترجمے کے متعلق خصوصی مقالے کی اشاعت۔
جون۱۹۵۳ء
کراچی واپسی۔
جون، جولائی۱۹۵۳ء
ثقافتی وفد کے رکن کی حیثیت سے تین ہفتے کا دورۂ ایران۔
اپریل۱۹۵۴۔ ۱۹۵۶ء اقبال اکیڈمی کونسل کے رکن۔
۱۹۵۶۔ ۱۹۵۷ء
بی۔ بی۔ سی جنرل اوورسیزکورس میں شمولیت کے لیے انگلستان کا سفر۔
۱۹۵۷ء آپ کے مرتّب کردہ مجموعہ ’’مثنویات ہیر رانجھا‘‘ کی سندھی ادبی بورڈ سے اشاعت۔
۱۹۵۸۔ ۱۹۵۹ء
ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے بحیثیت ریجنل ڈائریکٹر وابستگی۔
۱۹۶۲ء
حکومت پاکستان کی قائم کردہ کاپی رائٹ آرڈینینس کمیٹی کے رکن بنے۔
اگست ستمبر ۱۹۶۴ء
آر سی ڈی کی اطلاعاتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے ترکی کا دورہ۔
۱۹۶۵ء
This is the house that Jack built کا مصورترجمہ، مکتبہ کامران کراچی سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ واضح ہو کہ یہ کتاب حفیظؔ صاحب کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی واحدکتاب ہے۔
۴ جنوری ۱۹۶۸ء
اٹھائیس برس کی ملازمت کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیوپاکستان کے عہدے سے ریٹائرمنٹ۔
فروری۱۹۷۰ء
اقبال اکیڈمی گورننگ باڈی کے رکن۔
اپریل۱۹۷۰ء
ترقّی اُردو بورڈ کراچی کے رکن۔
——
یہ بھی پڑھیں : حفیظ جونپوری کا یوم وفات
——
۱۰ جنوری۱۹۷۳ء
صبح گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر بروز بدھ انتقال۔ پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ کتبہ، سراغِ رفتگاں۔
اکتوبر۱۹۷۳ء
’’مقام غزل‘‘ کی اشاعت۔
۲۰۱۲ء
حفیظ کے صدسالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیا سال
——
حیات نامہ
——
حفیظ ہوشیار پوری ۵ جنوری ۱۹۱۲ء بمطابق۱۵ محرّم ۱۳۳۰ھ کو جمعہ کے روز لائل پور (فیصل آباد) سے بارہ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں دیوان پور ضلع جھنگ میں شیخ فضل محمد کے گھر ایک بچّہ جنم لیتا ہے، جس کا نام عبد الحفیظ سلیم رکھا گیا۔ ہوشیار پور سے تعلق رکھنے والے شیخ فضل محمد ان دنوں بسلسلۂ روز گار جھنگ میں رہائش پذیر تھے۔
حفیظ ہوشیار پوری صرف نو سال کے تھے کہ والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے نانا شیخ غلام محمد سندا نے اٹھائی۔ حفیظ کی والدہ کا نام فضل بی بی اور والد کا نام فضل محمد ہے تو پھر حفیظ پر کیوں نہ اللہ کا فضل تمام زندگی سایہ فگن ہوتا۔ شیخ غلام محمد علم و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ عربی اور فارسی زبانوں پر کامل دسترس تھی۔ شعر و ادب سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ہر دو زبانوں کے کئی دیوان حفظ اور نثر کی بے شمار کتابیں ازبر تھیں۔ ان کی علمی و ادبی تربیت نے حفیظؔ کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ وہ فرصت کے تمام اوقات اپنے نانا کی معیّت میں گزارتے۔
حفیظ ہوشیار پوری تین بھائی تھے۔ راحل، حفیظؔ سے بڑے اور عبد المجید، حفیظؔ سے چھوٹے۔ راحل نے تمام عمر شادی نہیں کی۔ مجید ہوشیارپوری بھی شاعر تھے۔ ان کا مطبوعہ کلام موجود ہے۔ جوانی ہی میں انتقال کیا۔ راحل ہوشیار پوری بھی بطور ایک شاعر اور تاریخ گو کے، قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،ا ردو لسانیات میں مستند تسلیم کیے جاتے تھے۔ واضح رہے کہ راحل صاحب کی تربیت میں بھی ان کے نانا کی محنت و محبت شامل تھی۔ حفیظؔ دس گیارہ برس کی عمرسے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔ تاریخ گوئی میں بھی اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ پہلا اُردو شعرجو غالباً ۱۹۲۹ء کا ہے۔
——
پھر نہ دینا مجھے الزامِ محبت دیکھو
تم چلے جاؤ تمھیں دیکھ کے پیار آتا ہے
——
اسی اثنا میں حفیظ ہوشیار پوری لاہور آ گئے اور یہاں آ کر گورنمنٹ کالج میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔ حفیظؔ کی لاہور آمد ان کے ذوقِ شعر و سخن کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ یہاں کی علمی فضا شعر و ادب کے بڑے بڑے ناموں سے گونج رہی تھی۔ گورنمنٹ کالج کے اساتذہ، صوفی تبسّم، پطرس بخاری اور پروفیسر ڈکسن، حفیظ ہوشیار پوری کے شعری ذوق کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں تو طالب علم ساتھیوں میں فیض اور ن۔ م۔ راشد، اردو شاعری کی ایک نئی فضا کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ یہ حفیظؔ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے بزرگوں، معاصرین اور متاخرین میں علّامہ اقبال، غلام قادر گرامی، شیخ عبدالقادر، سیّد نذیر نیازی، عبدالرحمن چغتائی، خضر تمیمی، عطا اللہ شاہ بخاری، سراج نظامی، عابد علی عابد، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، جگر، سید سلیمان ندوی، جوش، فراق، اخترشیرانی، تاثیر، شوکت تھانوی، منٹو، شہرت بخاری، مختار صدیقی، سراج الدین ظفر، ساحر لدھیانوی، ایوب رومانی، یوسف ظفر اور ناصر کاظمی جیسے شاعر و ادیب، تخلیق ادب میں مصروف تھے۔ اس سازگار شعری ماحول میں حفیظؔ کی سب سے پہلی نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ تھی۔ جو اختر شیرانی کے رسالے ’’خیالستان‘‘ میں ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئی۔ سب سے پہلی غزل مارچ ۱۹۳۲ء کے ’’نیرنگ خیال‘‘ میں چھپی۔ پہلی غزل ’’کوئی ستم آشنا نہیں ہے …اب جینے کا کچھ مزا نہیں ہے۔‘‘ نے اکابرین ادب سے داد وتحسین سمیٹی۔
——
یہ بھی پڑھیں : اختر ہوشیار پوری کا یومِ وفات
——
ملکہ پکھراج نے حفیظ ہوشیار پوری کی غزل ’’بے زبانی زباں نہ ہو جائے:: رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے ‘‘ گائی اور غزل گائیکی کاحق ادا کر دیا۔ ’’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے ‘‘ پاکستان کے ہر بڑے گلوکار نے گائی، مہدی حسن، نسیم بیگم، فریدہ خانم، اقبال بانو حتیٰ کہ منّی بیگم نے بھی… اور خوب داد سمیٹی۔
مولانا چراغ حسن حسرت، حفیظؔ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔ ان کی صحافتی سوجھ بوجھ کا آئینہ دار ’’ شیرازہ‘‘ سنجیدہ طبقے میں بھی مقبول و پسندیدہ رہا۔ لاہور ہی سے نکلنے والے اس ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کے عملہ ادارت میں حفیظؔ بھی شامل رہے۔ حفیظؔ نے اس دوران خود بھی شیرازہ کے لیے دیگر تخلیقات کے علاوہ فکاہیہ نظمیں کہیں۔ جنوری ۱۹۷۳ء کے روزنامہ جنگ میں ان کی وفات کی اطلاع گہرے دُکھ کے ساتھ دی گئی۔
’’اردو غزل کے بزرگ اور محترم شاعر جناب حفیظؔ ہوشیارپوری آج صبح دس بجے جناح ہسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ اشکبار آنکھوں کے ساتھ رات کے دس بجے ان کو سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ ان کی فاتحہ سوم بعد نماز جمعہ انٹیلی جنس اسکول کی مسجد میں ہو گی۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات کیا ہو گی کہ ملک کے ممتاز شاعر کے جنازے میں تقریباً ۵۰ افراد شریک ہوئے، جن میں کوئی شاعر اور ادیب نہ تھا۔ جناب حفیظؔ ہوشیارپوری گذشتہ پانچ ماہ سے عارضۂ تنفس میں مبتلا تھے اور ان کو نالی کے ذریعے آکسیجن پہنچائی جا رہی تھی۔ ڈیڑھ مہینے پہلے ان کی قیام گاہ واقع انٹیلی جنس اسکول منتقل کر دیا گیا تھالیکن پرسوں اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ دوبارہ جناح ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے۔ جہاں آج صبح دس بجے ان کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘
——
معاصرین کی رائے
——
’’حفیظ ہوشیار پوری جیسا پختہ شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ کیا نہیں جانتا تھا۔ محقق تھا، عالم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ بحیثیت انسان واقعی عظیم تھا۔ میرا بہی خواہ تھا۔ دوست تھا اور دوست بھی وفادار۔ اللہ اس کو غریق رحمت کرے آمین‘‘(ذوالفقار علی بخاری )
’’حفیظؔ صاحب صحیح معنوں میں جامع کمالات تھے۔ ‘‘
(جمیل الدین عالی)
’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے مہربان کی شفقت سے محروم ہو گیا ہوں۔ جب تک اردو زندہ ہے حفیظؔ مرحوم کا کلام زندہ رہے گا۔ مجھے امید نہیں کہ اردو کو اب حفیظؔ ہوشیارپوری جیسا شاعر نصیب ہو گا۔ ‘‘
(تحسین سروری)
’’حضرت حفیظ ہوشیار پوری ایک عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ ان جیسے باکمال بزرگ ہماری ادبی دنیا میں بہت کم ہیں۔ ان کی موت سے شاعری کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پرُ ہونا نا ممکن ہے۔ ‘‘(سروربارہ بنکوی)
’’حفیظ ہوشیار پوری مرحوم، اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ایک بلند پایہ شاعر، محقق، تاریخ گو اور صاحب علم و آگہی کی حیثیت سے ان کی رنگارنگ شخصیت نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا جو انھیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ‘‘ (صہبا لکھنوی)
’’ان کی غزلیں سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج ہوتی ہیں۔ ان کی غزلیں مختصر بھی ہوتی ہیں اور ہموار بھی، ان کے یہاں اچھی غزلیں اور اچھے شعر بہت ہیں لیکن ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک شعر کافی ہے اور وہ یہ ہے۔
——
تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
نظیر صدیقی
——
’’حفیظ ہوشیار پوری بہترین استاد ہے۔ غالب ؔکو جب لوگوں نے بے استاد کہا تو ایک فرضی استاد ایجاد کر لیا گیا۔ مجھے قسمت سے اصلی استاد مل گیا۔ اس جیسے فی البدیہہ شعر کہنے والے کم ہی دیکھے ہیں۔ انگریزی تو اس نے بھی پڑھی ہے مگر ہیئت کے تجربے کرنے کا قائل نہیں۔ ‘‘
(ناصر کاظمی)
——
یہ بھی پڑھیں : حفیظ بنارسی کا یومِ پیدائش
——
’’تغزل سے رغبت ہو تو حضرت فراقؔ گورکھپوری، حفیظؔ ہوشیارپوری اور ناصرؔ کاظمی کا مطالعہ کیجیے۔ ‘‘ (مظفر علی سید)
’’حفیظ ہوشیار پوری نے غزل کی تنگنائے کو کافی کشادہ کیا ہے اور اس میں نئے مسائل اور نئے محسوسات کو اس خوبصورتی سے جگہ دی ہے کہ ان کی غزلوں کواگرفراقؔ، فیضؔ، جذبیؔ‘قاسمی، ناصرؔ کاظمی اور عزیزؔ حامد مدنی وغیرہ کی غزلوں کے ساتھ دیکھا جائے تو افق شاعری پر ایک عجیب قسم کی دھنک بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘ (محمد علی صدیقی)
’’شاعری کا جہاں تک تعلق ہے۔ میں ان کا بہت مداح ہوں اور ۳۶۔ ۱۹۳۵ ء ہی سے جب ان کا کلام مشہور ادبی رسائل میں چھپنا شروع ہوا۔ ان کی شاعری نے میرے ذہن پر ایک نقش قائم کر لیا تھا۔ ان کا کلام اردو ادب میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ غزل میں انھوں نے بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ‘‘ (شان الحق حقی)
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
ظہورِ نورِ ازل کو نیا بہانہ ملا
حرم کی تِیرہ شبی کو چراغِ خانہ ملا
تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو
دلوں کو سوزِ تب و تابِ جاودانہ ملا
خدا کے بعد جمال و جلال کا مظہر
اگر ملا بھی تو کوئی ترے سوا نہ ملا
وہ اَوجِ ہمّتِ عالی وہ شانِ فقرِ غیور
کہ سرکشوں سے بہ اندازِ خسروانہ ملا
وہ دُشمنوں سے مدارا وہ دوستوں پہ کرم
بقدرِ ظرف ترے در سے کس کو کیا نہ ملا
زمیں سے تابفلک جس کو جرأت پرواز
وہ میرِ قافلہ، وہ رہبرِ یگانہ ملا
بشر پہ جس کی نظر ہو بشر کو تیرے سوا
کوئی بھی محرمِ اسرارِ کبریا نہ ملا
خیالِ اہلِ جہاں تھا کہ انتہائے خودی
حریمِ قدس کو تجھ سا گریز پا نہ ملا
نیاز اُس کا جبیں اُس کی، اعتبار اُس کا
وہ خوش نصیب جسے تیرا آستانہ ملا
درِ حضور سے کیا کیا ملا نہ تجھ کو حفیظؔ
نوائے شوق ملی، جذبِ عاشقانہ ملا
دسمبر ۱۹۵۰ء
——
یہ اور بات ہے اب یاد تک نہیں آتا
کسی کے نام سے آرائشِ بیاں تھی کبھی
——
محبت کو دعائیں دے رہا ہوں
کہاں میں اور کہاں یہ دولتِ غم
——
محبت کی حقیقت اے حفیظؔ اس کے سوا کیا ہے
بہت مشکل تھا جینا اس کو آساں کر رہا ہوں میں
——
کوئی محروم ہے کوئی مجبور
پارسائی ہے، نارسائی ہے
——
نہیں ایک منزل بھی رہبر کے پاس
مری گمرہی کے ہزاروں مقام
——
کچھ غمِ عشق کے سوا بھی ہے
غمِ ہستی ترے خزینے میں
——
تیری صورت سے عیاں ہو کر رہا
ہم چھپاتے ہی رہے دل کا ملال
——
غمِ فراق بھی ہے اور سکونِ قلب بھی ہے
جُدا ہوا ہے کوئی جیسے عمر بھر کے لیے
——
یہ جان کر کہ محبت نہیں مروّت ہے
ہم التفاتِ دلِ دوستاں سے دور رہے
——
ہم ہُوئے آئینہ بردار اُن کے
اپنی نظروں سے نہاں تھا کوئی
——
اُسے دیکھے مری آنکھوں سے کوئی
اُسے چاہے کوئی میرے دل سے
——
من وتو کا حجاب اُٹھنے نہ دے اے جانِ یکتائی
کہیں ایسا نہ ہو بن جاؤں خود اپنا تمنائی
——
سزائے حرفِ تمنا زیانِ جاں ہی سہی
کوئی تو حرفِ تمنا زبان پر لائے
——
میرا مقدر میرے ساتھ
پائے طلب یا دستِ دعا
——
لفظ ابھی ایجاد ہوں گے ہر ضرورت کے لیے
شرحِ راحت کے لیے، غم کی صراحت کے لیے
اب مرا چُپ چاپ رہنا امرِ مجبوری سہی
میں نے کھولی ہی زباں کب تھی شکایت کے لیے
میرے چشم و گوش و لب سے پوچھ لو سب کچھ یہیں
مجھ کو میرے سامنے لاؤ شہادت کے لیے
سخت کوشی سخت جانی کی طرف لائی مجھے
مجھ کو یہ فرصت غنیمت ہے علالت کے لیے
آکسیجن سے شبستانِ عناصر تابناک
مضطرب ہر ذی نفس اس کی رفاقت کے لیے
مر گئے کچھ لوگ جینے کا مداوا سوچ کر
اور کچھ جیتے رہے جینے کی عادت کے لیے
آہ مرگِ آدمی پر آدمی روئے بہت
کوئی بھی رویا نہ مرگِ آدمیّت کے لیے
کوئی موقع زندگی کا آخری موقع نہیں
اس قدر تعجیل کیوں رفع کدورت کے لیے
استقامت! اے مرے دیر آشنا ماتم گُسار!
ایک آنسو ہے بہت حُسنِ ندامت کے لیے
کوئی ناصرؔ کی غزل کوئی ظفرؔ کی ’’لے ترنگ‘‘
چاہیے کچھ تو مری شامِ عیادت کے لیے
گلشن آبادِ جہاں میں صورتِ شبنم حفیظؔ
ہم اگر روئے بھی تو رونے کی فرصت کے لیے
——
آدمی کو زندگی بخشی گئی
خاک کو یوں آگہی بخشی گئی
نوعِ انساں کو ملا اعزازِ غم
ایک قدرِ دائمی بخشی گئی
جب یہ دیکھا بڑھ چلا غم کا غرور
اہلِ غم کو بھی خوشی بخشی گئی
دل پہ جب چھانے لگی افسردگی
اک خلش دل کو نئی بخشی گئی
جب کبھی مرجھا گئی دل کی کلی
آبِ غم سے تازگی بخشی گئی
دم بدم بڑھتا رہا سوز و گداز
اہلِ دل کوبے دلی بخشی گئی
میرے غم کی پردہ داری کے لئے
میرے ہونٹوں کو ہنسی بخشی گئی
ایک لمحے کی اطاعت کے عوض
عمر بھر کی گمرہی بخشی گئی
پہلے توفیقِ خطا بخشی مجھے
اور پھر شرمندگی بخشی گئی
اک گناہِ بے گناہی کے سوا
جو بھی تھی مجھ میں کمی، بخشی گئی
عقل والے حشر میں رسوا ہوئے
اور مری دیوانگی بخشی گئی
رہنماؤں کی خطائیں سب معاف!
رہزنوں کی رہزنی بخشی گئی
گمرہانِ منزلِ مقصود کو
روز اک منزل نئی بخشی گئی
نعمتوں سے بھر گیا دامن حفیظؔ
مجھ کو وہ طبعِ غنی بخشی گئی
——
وفا کی داستاں چھیڑی کبھی تم نے کبھی ہم نے
بطرزِ دلبری تم نے برنگِ عاشقی ہم نے
نگاہِ شوق سے بخشی جنہیں تابندگی ہم نے
تصور میں انہی جلووں سے مانگی روشنی ہم نے
وہی جلوے وہی آنکھیں مگر کیا ہو گیا دل کو
نجانے کیوں بدل ڈالا مذاقِ زندگی ہم نے
یہی ویران آنکھیں ہیں، یہی سنسان راہیں ہیں
یہیں اکثر جلائے ہیں چراغِ دلبری ہم نے
جدائی کا سماں ہے آج تک اپنی نگاہوں میں
نہ کوئی بات کی تم نے نہ کوئی بات کی ہم نے
یہی اک عالمِ وارفتگی تھا اُن سے مل کر بھی
جُدا رہ کر بھی اُن سے اپنی حالت دیکھ لی ہم نے
زمانہ ہو گیا لیکن یہی محسوس ہوتا ہے
تمہیں پہلے پہل جس طرح دیکھا ہو ابھی ہم نے
ملے جب بھی نئے جلوے نظر آئے نگاہوں کو
دیارِ حُسن میں دیکھا نہ تم سا اجنبی ہم نے
ہمیں معلوم ہے مجبوریوں کی انتہا کیا ہے
کہ دیکھی ہے نگاہِ حُسن کی بیچارگی ہم نے
وفا تم بھی کرو ہم بھی کریں انجام جو بھی ہو
کسی کے سامنے رکھ دی یہ شرطِ آخری ہم نے
کوئی دیکھے ہمارے احترامِ عہدِ رفتہ کو
وفا پر اب بھی قائم ہیں محبت چھوڑ دی ہم نے
بس اک ذوقِ نظر پر ناز تھا وہ بھی نہیں باقی
حفیظؔ اُن کے تغافل کو یہ دولت سونپ دی ہم نے
——
حوالہ جات
——
شعری انتخاب و سوانح :
منتخب کلام حفیظؔ ہوشیار پوری مرتبہ: قرۃ العین طاہرہ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ