آج عظیم صحافی ، کالم نگار اور مزاح نگار حاجی لق لق کا یومِ وفات ہے ۔

——
حاجی لق لق پیٹی، امرتسر، بھارت میں 1898 میں پیدا ھوئے۔ اصل نام عطا محمد تھا انھوں نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔ حاجی لق لق نے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی، "لق لق” ان کا تخلص تھا۔ ان کی تحریں بچے بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ زمیندار’، ‘شہباز ‘ اور ‘احسان’ سمیت کئی اھم اخبارات اور جرائد میں لکھتے رھے۔ انہوں نے ادبی سرگرمیوں کے علارہ برطانوی ہند کی فوج میں خدمات بھی سر انجام دیں۔ شورش کاشمیری نے انھیں "نورتن” کہا اور حاجی لق لق کو خراج عقیدت پیش کیا اور وہ ان شخصیات میں شامل تھے جنھوں نے صحافت کو ادبی مہارت اور رچاؤ کے ساتھ اردو صحافت کو نیا رنگ دیا۔. تقسیم ھند کے بعد حاجی لق لق نے آغا شورش کاشمری کے ہفتہ وار "چٹان” کے ساتھ منسلک ھو گئے اور انھوں نے شورش کاشمیری کی سوانح عمری "سرگذشت” لکھنے میں حصہ لیا۔ حاجی لق لق ، مولانا نواب الدین رمدسی کے مرید بھی رھے۔ اور ایک عرصے تک اپنے نام کے ساتھ ” چشتی”بھی لکھتے رھے۔ حاجی لق لق کی وفات 28 ستمبر1961 میں لاھور، پاکستان میں ھوئی ۔
——
دیباچہ از سند باد جہازی
——
اردو کے نئے اور پرانے شاعروں کے کلام میں مزاح نگاری کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں ۔ اور تو اور میرؔ جیسے شاعر بھی جن کی شاعری کو سر تا سر گریۂ ماتم سمجھا جاتا ہے ، ظرافت کی طرف جھکتے ہیں تو شیخ و واعظ کو مارے پھبتیوں کے اُلو کر دیتے ہیں ۔
لیکن ایسے شاعر بہت کم ہیں جنہوں نے صرف مزاح کو موضع سخن بنایا ہے اور ان میں سے بھی میر جعفر زٹلی ، چرکین اور جان صاحب جیسے ہزل گو شاعروں کو الگ کر دیا جائے تو بہت تھوڑے ظریف شاعر ایسے رہ جاتے ہیں جن کا کلام قابلِ اعتنا ہے ۔
حاجی لق لق بھی انہی معدودے چند شاعروں میں سے ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : خواجہ دل محمد کا یوم پیدائش
——
حاجی لق لق کی مزاحیہ شاعری کا آغاز 1934 ء سے ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ ابوالعلا چشتی کے نام سے روشناس تھے اور عام طور پر سنجیدہ مضامین لکھا کرتے تھے ۔
1933 ء میں وہ زمیندار کے ادارۂ تحریر میں شامل ہوئے ، پھر ہمارے ساتھ ہی احسانؔ میں چلے گئے اور حاجی لق لق کے نام سے مزاحیہ مضامین لکھنے شروع کر دئیے ۔
ابتدا میں اس نام سے ان کے چند مضامینِ نثر شائع ہوئے ۔ پھر وہ شاعری کی طرف جھکے ۔
اور مزاحیہ شاعری میں ایسا نام پیدا کیا کہ آج پڑھے لکھے لوگوں میں بہت کم ایسے ہوں گے جو ان کے نام سے ناآشنا ہوں ۔
حاجی لق لق کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی بے تکلفی اور روانی ہے ۔
ان کی زبان بہت سبک ، لطیف اور عام پسند ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ اُن کلام ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں ۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی نظموں کا یہ مجموعہ قبولِ عام حاصل کرے گا اور ان کے کمال کے منکر بھی ان کی نظموں کو یکجا دیکھ کر اُن کی شاعری پہ ایمان لے آئیں گے ۔
( سند باد جہازی از لقلقہ ، 17 نومبر 1939 ء )
——
منتخب کلام
——
جاناں میرے گریہ کی ابھی کھینچ لو فوٹو
ہر لحظہ مجھے اشک بہانا نہیں آتا
——
پسند کیوں نہ کریں لوگ شعر لق لق کے
ظفر علی سے اسے نسبتِ مریداں ہے
——
میرے دل کی لگی نہیں بجھتی
برف میں دل لگا کے دیکھ لیا
——
میں ان کے فون پر ملنے کا احساں یاد کرتا ہوں
مجھے اکثر یہ لطفِ غائبانہ یاد آتا ہے
——
اک بے وفا کی چاہ کیے جا رہا ہوں میں
اور یونہی خواہ مخواہ کیے جا رہا ہوں میں
جھڑتی ہیں ان کے منہ سے جو منظوم گالیاں
سن سن کے واہ واہ کیے جا رہا ہوں میں
——
سُن کے حرفِ مدعا وہ چل دئیے جھٹکا کے ہاتھ
آہ ظالم نے مری اُلفت کا جھٹکا کر دیا
——
یہ بھی پڑھیں : دل کے نگر میں رہتے ہیں میرے خدا اور میں
——
نگاہِ دلربا اونچی سے اونچی ہوتی جاتی ہے
تنزل چاہتا ہوں میں ترقی ہوتی جاتی ہے
——
چشمِ تر چھڑکاؤ کرتی رہ گئی
یار کے دل میں غبار آ ہی گیا
——
ہر چند ہم نے یاد کیا چشمِ یار کو
لیکن پیالی چائے کی پھر بھی نہ مے ہوئی
——
مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے
لیمپ گویا جلا دیا تو نے
ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن
ریڈیو پر سنا دیا تو نے
میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا
بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے
گا کے محفل میں بے سرا گانا
مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے
کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر
ایک نلکہ بہا دیا تو نے
تیری الفت کی انتہا یہ ہے
رنج بے انتہا دیا تو نے
میں نے لیلیٰ بنا دیا تجھ کو
مجھ کو لق لقؔ بنا دیا تو نے
——
آنکھوں آنکھوں میں تلاشی ہو گئی
عاشقی بھی بدمعاشی ہو گئی
فائدہ رونے سے اتنا تو ہوا
کشتِ دل پر آبپاشی ہو گئی
یار کے نازک سلیپر کے طفیل
اپنے منہ کی مُوتراشی ہو گئی
ہر گھڑی کرتا ہے دل رشوت میں پیش
طبعِ عاشق کیا ہی راشی ہو گئی
میرے دل میں بس رہے ہیں بُت ہی بُت
آہ یہ بستی بھی کاشی ہو گئی
ہو گیا ہے وہ مسولینی صفت
پالسی دلبر کی فاشی ہو گئی
کر لیا قبضے میں دل اس شوخ نے
آج لق لق کی تلاشی ہو گئی
——
بے اصولی اصول ہے پیارے
یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے
کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو
پرلے درجے کا فول ہے پیارے
واہ یہ تیرا زرق برق لباس
گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے
تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں
تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے
مجھ کو بلوائیو ڈنر کے بعد
عرض میں میری طول ہے پیارے
کیا ملا تو جو دل سے دل نہ ملا
ٹھیک بیٹھے تو چول ہے پیارے
لق لقا ہوش ، موڑ سے بچ جا
سامنے اک سکول ہے پیارے
——
سینمائی غزل
——
ہمیں مکالمۂ یار سے محبت ہے
اور اس کے لہجۂ گفتار سے محبت ہے
وہ ایک پل نہیں سویا ہے رات شوٹنگ میں
صنم کے دیدۂ بیدار سے محبت ہے
جفا بھی آپ کی اچھی وفا بھی راحتِ دل
ہمیں تو آپ کے کردار سے محبت ہے
بڑی خوشی سے سڑک پر مجھے کچل ڈالے
ترے علاوہ تری کار سے محبت ہے
یہ لوگ جمع ہیں تاریک سینما ہال میں کیوں
تمہارے جلوۂ دیدار سے محبت ہے
بوقت ذبح ترے ایکٹ موشن عمدہ ہیں
اسی لیے تری تلوار سے محبت ہے
ستارہ نحس ہے لق لق کا آج کل کہ اسے
سپہر سینما کے اسٹار سے محبت ہے
——
شعری انتخاب از کلامِ لق لق ، مصنف : حاجی لق لق
شائع شدہ 1962 ء ، متفرق صفحات