اردوئے معلیٰ

Search

آج رئیس المتغزلین حسرت موہانی کا یوم وفات ہے

حسرت موہانی(پیدائش: 1 جنوری 1878ء– وفات: 13 مئی 1951ء)
واضح رہے کہ حسرت موہانی کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے ۔
——
اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت، قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 1875ءپیداہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔
1903ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔
حسرت موہانی سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔
”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔“
حسرت موہانی پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلاف تھی۔ چنانچہ 1907میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد 1947 ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔
آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے- مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔
حسرت موہانی نے 13حج کیے ۔ پہلا حج 1933میں کیا اور آخری حج 1950میں ادا کیا ۔ 1938میں حج کے بعد ایران، عراق اور مصر بھی گئے
حسرت موہانی نے 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں وفات پائی۔
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر عبد الغفور احمد کا یوم وفات
——
شعر حسرت کی سیاسی جہت پر ایک نظر از گوپی چند نارنگ
——
حسرت موہانی نے اس صدی کے کروٹ بدلتے ہی اردو غزل میں تہذیب عاشقی کو جس طرح زندہ کیا اور عشق و محبت کو جس فطری معصومیت اور راحت و فراغت کے ساتھ بیان کیا، نیز ان کی عشقیہ شاعری میں جو ارضی وجسمانی کیفیت ملتی ہے اور اس کا اظہار جس شائستگی، لطافت اور تغزل کے رچاؤ اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ ہوا ہے، وہ حسرت موہانی ہی کا حصہ ہے۔ وہ ہمارے بڑے شاعر نہ سہی، اہم اور اچھے شاعر ضرور ہیں۔ ان کے یہاں عشق وآرزو کی فطری تاک جھانک، چاہنے اور چاہے جانے کی صحت مند نشاطیہ فضا اور سوز وساز کم کم کی جو کیفیت ملتی ہے، وہ آج بھی مزہ دے جاتی ہے۔ ان کے اس طرح کے اشعار تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی بھلائے نہیں جا سکتے،
——
حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا
——
رونق پیرہن ہوئی خوبی جسم نازنیں
اور بھی شوخ ہو گیا رنگ ترے لباس کا
——
رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
——
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
دلوں کو فکر دو عالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
——
اللہ رے کافر ترے اس حسن کی مستی
جو زلف تری تا بہ کمر لے کے گئی ہے
——
محتاج بوئے عطر نہ تھا جسم خوب یار
خوشبوئے دلبری تھی جو اس پیرہن میں تھی
——
ایک ہی بار ہوئیں وجہ گرفتاری دل
التفات ان کی نگاہوں نے دوبارہ نہ کیا
——
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
——
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
——
اک خلش ہوتی ہے محسوس رگ جاں کے قریب
آن پہنچے ہیں مگر منزل جاناں کے قریب
——
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
——
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
——
حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
——
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
——
سر کہیں بال کہیں ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو
——
گھر سے ہروقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ مری جان سویرا دیکھو
——
آہ وہ یاد کہ اس یاد کو ہوکر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
——
یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے
دل ابھی بھولا نہیں آغازِ الفت کے مزے
——
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
——
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
——
تری محفل سے ہم آئے مگر با حال زارآئے
تماشا کامیاب آیا تمنا بےقرار آئی
——
کیا حسن پرستی بھی کوئی جرم ہے حسرت
ہونے دو جو اخلاق کی تنقید کڑی ہے
——
اس میں شک نہیں کہ حسرت موہانی ، جرأت اور داغ کے قبیلے کے شاعر تھے، لیکن حسرت کا ذوق کہیں بالیدہ اور رچا ہوا تھا۔ ان کی عشقیہ شاعری میں حسن کا تصور نسبتاً جدید ہے۔ ان کی ’’وضع پارسا‘‘ اور ’’عشق پاکباز‘‘ نے مل کر غزل میں ایک اور ہی رنگ پیدا کیا۔ رشید احمد صدیقی نے بجا کہا ہے، ’’حسرت نے غزل کی آبرو اس زمانہ میں رکھ لی جب غزل بہت بدنام اور ہر طرف سے نرغے میں تھی۔ انھوں نے غزل کی اہمیت وعظمت ایک نامعلوم مدت تک منوالی‘‘ لیکن غزل پر حسرت کا صرف یہی احسان نہیں۔ انھوں نے غزل کی مخصوص اشاریت کو برتتے ہوئے سیاسی جذبات واحساسات کو بیان کرکے غزل کی ایک اور خدمت بھی کی۔ غزل میں سیاسی اور احتجاجی نوعیت کی شاعری کرکے انھوں نے ایک نئے باب کا آغاز کیا، اس راہ سے کانٹے نکالے اور آئندہ آنے والے شاعروں کے لیے ایک شاہراہ کھول دی۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری تنقید میں حسرت موہانی کی شاعری کی سیاسی جہت کو تقریباً نظرانداز کر دیا گیا ہے اور اس کا وہ اعتراف نہیں کیا گیا جو جو اس کا حق ہے۔ حسرت کی سیاسی سرگرمیوں اور ان کے مجاہد آزادی ہونے کا ذکر تو سب کرتے ہیں لیکن ان کا جو رشتہ ان کی غزل گوئی سے ہو سکتا ہے، اس سے ہماری تنقید تقریباً پہلو بچا کر گزرتی رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ساری توجہ حسرت کی عشقیہ شاعری کی شائستہ روش اور حسن بیان کی رونق یا پیروی تسلیم، طرز مومن، شیرینی نسیم یا سوزوگداز میر پر صرف ہوتی رہی ہے اور دوسری طرف نظریں اٹھاکر دیکھنے کا شاید موقع ہی نہیں ملا۔
حسرت کا انتقال ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو ہوا۔ نیاز فتح پوری نے جنوری ۱۹۵۲ء میں سات آٹھ ماہ کے اندر اندر نگار کا ’’حسرت نمبر‘‘ ان کی یاد کے شایان شان شائع کر دیا۔ نیاز نے اس نمبر کے لیے اس زمانے کی تمام بڑی شخصیتوں سے مضامین لکھوائے، مثلاً، مجنوں گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، عبادت بریلوی، کشن پرشاد کول اور خواجہ احمد فاروقی۔ خود نیاز نے اس یادگار نمبر میں پانچ حصے قلم بند کیے اور تذکرۂ حسرت اور انتخاب کلام حسرت کے علاوہ ’’حسرت کی خصوصیات شاعری‘‘ کے عنوان سے جامع مضمون بھی لکھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا یوم پیدائش
——
اس نمبر کے زیادہ تر مضمون نگاروں نے حسرت موہانی کی عشقیہ شاعری ہی سے سروکار رکھا اور ان کی تہذیب عاشقی کی داد دی۔ حسرت کے مجاہد آزادی ہونے کا سب نے تذکرہ کیا اور یہ بھی کہ انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، طرح طرح کی قربانیاں دیں اور کلمہ حق ہمیشہ ان کی زبان پر رہا۔ تاہم ہمارے تمام لائق احترام نقادوں نے حسرت کی عملی زندگی اور شعری تخلیقات میں کوئی مطابقت دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر بھولے سے بھی کسی کی نظر ان کی شاعری کے سیاسی عنصر پر پڑ گئی تو اس نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور اس سے دامن کشاں گزر گیا۔
اور تو اور، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین اور عبادت بریلوی کے بسیط مضامین میں بھی اس پہلو کا کوئی تذکرہ نہیں۔ نیاز نے اگر کچھ لکھا تو بس اتنا کہ ’’حسرت نے بعض غزلیں سیاسی رنگ کی بھی کہی ہیں لیکن ان میں کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ ان کی حیثیت نظموں کی ہے اور نظم نگاری حسرت کا فن نہ تھا۔‘‘ اس نمبر میں خلیل الرحمن اعظمی کا بھی ایک مضمون ہے جس کا ذکر نیاز نے ’’ملاحظات‘‘ میں بطور خاص کیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں،
’’حسرت خود تو اتنے بڑے سیاسی آدمی تھے، بارہا جیل میں چکی پیسی اور پولیس کے کوڑے کھائے، لیکن ان کی سیاسی شاعری رسمی اور پھس پھسی ہے۔‘‘ آگے چل کر انھوں نے بھی ایسی غزلوں کو نظم کہا ہے اور غزل کے زمرے سے انھیں خارج کرکے نیاز کی طرح نہایت آسانی سے ان سے دامن چھڑا لیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اس مضمون میں بڑے مزے کی باتیں کہی ہیں، مثلاً حسرت موہانی کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں لیکن وہ مدبر یا سیاست داں یا مفکر و فلسفی نہیں تھے۔
گویا وہ مدبر یا سیاست داں یا مفکر و فلسفی ہوتے تو شاید ان کی سیاسی شاعری لائق اعتنا ہوتی۔ غزل کے فارم میں کسی مسلسل کیفیت کی بنا پر غزل کو غزل کے زمرے سے خارج کرنا یا سیاسی، وطنی یا احتجاجی شاعری کرنے کے لیے مدبر، مفکر یا فلسفی ہونے کا مطالبہ کرنا یہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ اگر خود خلیل الرحمن اعظمی چند برس بعد اپنے اس مضمون کو دوبارہ دیکھتے تو یا تو وہ اس پر نظر ثانی کرتے یا خط تنسیخ کھینچ دیتے۔ اپنے سیاسی معتقدات کے بارے میں عبد الشکور کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حسرت نے کہا تھا، ’’آزادی کامل میرا نصب العین ہے اور میں کمیونسٹ ہوں، پہلے نیشنلسٹ تھا لیکن ۱۹۲۵ء سے میں نے نیشنلزم کو خیرباد کہا اور کمیونزم کو اپنا مسلک قرار دیا۔‘‘
آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس جو ۱۹۲۵ء میں کانپور میں منعقد ہوئی تھی، اس کے روح رواں اور صدر حسرت موہانی ہی تھے۔ لیکن حسرت کی شاعری کے سیاسی پہلو سے ترقی پسندوں نے بھی انصاف نہیں کیا۔ علی سردار جعفری ’’ترقی پرپسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’ان کی شاعری پر ان کے سیاسی معتقدات کا اثر بہت کم پڑا۔ انھوں نے اپنی شاعری کو غزل تک اور غزل کو زیادہ تر عشقیہ مضامین تک محدود رکھا تھا۔ شاذ ونادر ہی انھوں نے ایسے اشعار کہے ہیں جن میں سماجی زندگی یا سیاسی تصورات کی جھلک ہو اور یہ اشعار بھی ان کے فنی معیار کے مطابق بلند پایہ نہیں ہیں۔ ان میں سب سے اچھی غزل وہ ہے جس کا مطلع ہے،
——
رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حب وطن محو خواب دیکھیے کب تک رہے
——
مزے کی بات ہے کہ سردار جعفری نے حسرت موہانی سے زیادہ اہمیت جگر کو دی، جن کی شاعری کو اگرچہ انھوں نے سطحی کہا لیکن جہاں انھوں نے حسرت کا ایک شعر نقل کیا، وہاں غزل میں سیاسی عنصر کے ضمن میں جگر کے آٹھ اشعار پیش کیے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلام حسرت کی سیاسی جہت کیا واقعی اتنی بے مایہ اور بےوقار ہے کہ اس پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ عبدالقوی دسنوی نے ’’حسرت کی سیاسی زندگی، چند جھلکیاں‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ ۱۹۵۶ء میں بمبئی سے شائع کیا۔ اس میں حسرت کی سوانح پیش کرتے ہوئے ان کے سیاسی اشعار بھی جگہ جگہ اقتباس کیے ہیں۔ اور بھی کچھ مضامین اور کتابیں یقیناً لکھی گئی ہوں گی، لیکن بحیثیت مجموعی ہماری تنقید نے حسرت کی سیاسی شاعری کی قدر وقیمت کے تعین میں بے توجہی سے کام لیا۔
اس بےاعتنائی اور بے توجہی کے کچھ اسباب ضرور رہے ہوں گے۔ ایک وجہ تو شاید یہ ہو سکتی ہے کہ حسرت کی عشقیہ شاعری کی ارضی وجسمانی کیفیت ایسی دلفریب اور پرکشش تھی کہ سب اس میں محو ہو گئے اور دوسری طرف نظر اٹھا کے نہ دیکھ سکے۔ دوسری وجہ شاید اس زمانے کا مذاق تھا جو عشقیہ شاعری میں حکیمانہ اور متصوفانہ عنصر کو تو قبول کر لیتا تھا کیونکہ اساتذہ نے مجاز کا جواز ہی حقیقت سے پیدا کیا تھا، لیکن سیاسی مضامین میں ملاوٹ روح تغزل کے منافی سمجھی جاتی تھی۔
بہرحال شاید اس بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی خود حسرت موہانی نے پھیلائی۔ وہ برابر شاعری کی تقسیم کرتے رہے مثلاً، ایک وہ جس کا تعلق صرف آمد سے ہے۔ دوسری وہ جس میں صرف آور دہی آورد پائی جاتی ہے اور تیسری وہ جس میں آوردوآمد دونوں پائی جاتی ہیں۔ اپنی باغیانہ شاعری کو انھوں نے سب سے کم اہمیت دی اور تیسری قسم میں تیسرے درجے پر رکھا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ تقسیم غلط ہے یا صحیح اور اعلیٰ اور سچی شاعری اقسام شعر کی یا موضوع کی نوعیت کی یعنی عاشقانہ یا سیاسی جذبات کی پابند ہے یا نہیں، حسرت موہانی نے خود یا ان کے کلام کے مرتبین یا ناشرین نے جگہ جگہ یہ وضاحیتیں شائع کیں کہ یہ کلام اگرچہ زندانِ فرنگ میں لکھا گیا، لیکن اس میں حالات کی تلخی کا کوئی اثر نہیں ہے اور یہ خالص عشقیہ کلام ہے۔
اس زمانے میں ایسا کرنا شاید اس لیے بھی ضروری تھا کہ حسرت کی شہرت ان کی عاشقانہ شاعری کی وجہ سے تھی اور ان کے دواوین کے کئی کئی ایڈیشن نکل جاتے تھے۔ غرض بوجوہ حسرت کے بارے میں یہ غلط فہمی بری طرح راہ پا گئی کہ ان کی شاعری میں سیاسی عنصر کی کوئی تخلیقی اہمیت نہیں اور ہوتے ہوتے یہ بات بمنزلہ مسلمات کے قبول کر لی گئی۔ چنانچہ عام طور پر یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ حسرت اگرچہ ’’گاندھی سے پرانے کانگریسی، جناح سے پرانے مسلم لیگی، سارے ہندوستان کے اشتراکیوں سے پرانے اشتراکی اور سارے آزادی چاہنے والوں سے پرانے مبلغ آزادی تھے۔ یا وہ سر تا پا جد وجہد تھے، سچے سامراج دشمن اور باغی تھے لیکن ان کی مجاہدانہ زندگی ان کی عشقیہ شاعری سے الگ تھی یا ان کی شاعری اور ان کی سامراجی دشمنی میں کوئی سچا رشتہ نہ تھا۔ گویا ان کی مجاہدانہ زندگی اور ان کی شاعری دو الگ الگ چیزیں تھیں اور انھوں نے اپنی شاعری کو اپنی سیاسی زندگی سے ملوث نہیں ہونے دیا اور اگر کہیں کوئی چھینٹا پڑ بھی گیا تو وہ اتنا معمولی ہے کہ اس کو نظرانداز کر دینا ہی بہتر ہے۔ حیرت ہے کہ وضعِ زندگی اور روش شعر میں، اس عدم مطابقت کو ہماری تنقید کس طرح گوارا کرتی رہی ہے۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ حسرت موہانی نے اپنے اشعار کا جو انتخاب خود کیا تھا اور جسے عبد الشکور نے اپنے طویل مقدمے کے ساتھ شائع کیا، یہ غلط فہمی اسی انتخاب کی پھیلائی ہوئی ہے، کیونکہ اس میں عاشقانہ، عارفانہ اور فاسقانہ وغیرہ کلام تو خوب خوب دیا ہے، لیکن باغیانہ کلام کے مشکل سے دو صفحے ہیں اور وہ بھی آخر میں۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ تر لکھنے والوں نے خود حسرت کے منتخب کردہ انھیں اشعار پر تکیہ کیا ہو اور کلیات حسرت کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی ہو۔ پھر یہ بھی کہ کلیات حسرت آسانی سے دستیاب نہ تھا، جبکہ انتخاب حسرت در سیات کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہر جگہ مقبول وموجود تھا۔
حق بات یہ ہے کہ اپنی غزل کے سیاسی عنصر کے بارے میں زیادہ حساس نہ ہونے کے لیے ہم حسرت کو مورد الزام قرار دے بھی نہیں سکتے۔ وہ باغی ضرور تھے، سیاسی زندگی میں بھی اور کسی حد تک غزل میں بھی۔ غزل میں انھوں نے جو بغاوت کی وہ عشقیہ شاعری کی اس سطح پر ہے جہاں وہ اسے رکاکت، ابتذال، سطحیت اور سستی معاملہ بندی سے اوپر اٹھانا چاہتے تھے۔ انھوں نے سارا زور بیان لکھنؤ میں رنگ دہلی کی نمود یا طرز مومن میں رنگین نگاری پر صرف کر دیا، کیونکہ یہی اس زمانے میں لطف سخن اور قبول عام کی معراج تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : مصنف اور سیاست دان نواب محسن الملک کا یوم وفات
——
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے حالات سے پس کر یادل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسے شعر بھی کہے ہیں جن میں سامراج دشمنی اور وطن کی محبت نے ایک خاص کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ اشعار چونکہ عشقیہ شاعری کے رنگ سے ہٹے ہوئے تھے اور زمانے کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، اسں لیے حسرت موہانی نے انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی۔ لیکن ان اشعار کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ان میں کوئی خصوصیت نہیں یا ان کا فنی معیار بلند نہیں، یا یہ کہ پھیکے اور بے جان ہیں، ایک ایسا تنقیدی تعصب ہے جس کی کم از کم حسرت کے دور اول کی شاعری سے توثیق نہیں ہوتی۔
یہ مقدمہ ذرا طویل ہو گیا۔ لیکن جذبۂ حریت اور سامراج دشمنی سے معمور حسرت کی سیاسی شاعری سے بے توجہی کی جو روش ہماری تنقید میں راہ پائی گئی ہے، اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اس تفصیل کی ضرورت بھی تھی۔ قطع نظر نیاز فتح پوری کے اس ادعا سے کہ حسرت کی سیاسی غزلوں کی حیثیت نظموں کی ہے یا سیاسی موضوعات نظم سے مناسبت رکھتے ہیں اور غزل میں ان کی کوئی جگہ نہیں، سب سے پہلے ایسی غزلوں کو لیا جائےگا جن میں جذبۂ حریت نے ایک مسلسل کیفیت پیدا کر دی ہے۔ حسرت کے دیوان اول کا بڑا حصہ ان غزلوں پر مشتمل ہے جو بحالت قید فرنگ اولیٰ ۱۹۰۸ء تا ۱۹۰۹ء علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل اور نینی سینٹرل جیل میں لکھی گئیں۔ سب سے پہلے وہ غزل دیکھیے جو سردار جعفری کو بھی پسند ہے،
——
رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حبِ وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے
دل پہ رہا مدتوں غلبہ یاس و ہراس
قبضہ حزم و حجاب دیکھئے کب تک رہے
تا بہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی لوگوں میں تاب دیکھئے کب تک رہے
پردۂ اصلاح میں کوششِ تخریب کا
خلقِ خدا پر عذاب دیکھئے کب تک رہے
نام سے قانون کے ہوتے ہیں کیا کیا ستم
جبر بہ زیرِ نقاب دیکھئے کب تک رہے
دولتِ ہندوستاں قبضۂ اغیار میں
بے عدد و بے حساب دیکھئے کب تک رہے
ہے تو کچھ اکھڑا ہوا بزم حریفاں کا رنگ
اب یہ شراب و کباب دیکھئے کب تک رہے
حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت
از رہ بغض و عتاب دیکھئے کب تک رہے
——
اس دیوان کی دوسری سیاسی غزلوں میں ذیل کا کلام نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،
——
غضب ہے کہ پابندِ اغیار ہوکر
مسلمان رہ جائیں یوں خوار ہوکر
اٹھے ہیں جفا پیشگانِ مہذب
ہمارے مٹانے پہ تیار ہوکر
تقاضائے غیرت یہی ہے عزیزو
کہ ہم بھی رہیں ان سے بیزار ہوکر
کہیں صلح و نرمی سے رہ جائے دیکھو
نہ یہ عقدۂ جنگ دشوار ہوکر
وہ ہم کو سمجھتے ہیں احمق جو حسرت
وفا کے ہیں طالب دل آزار ہوکر
——
قبضۂ یثرب کا سودا دشمنوں کے سر میں ہے
اب تو انصاف اس ستم کادستِ پیغمبر میں ہے
جورِ یورپ ہے بنا بیداری اسلام کی
خیر ہے دراصل یہ باآنکہ شکلِ شر میں ہے
خاطرِ افسردہ میں باقی ہے اب تک یادِ عشق
گرمیِ آتش ہنوز اس مشتِ خاکستر میں ہے
قلتِ افواجِ ٹرکی پر نہ ہو اٹلی دلیر
ایک ہے سو کے لیے کافی جو اس لشکر میں ہے
اب خدا چاہے توحسرت جلد ہوتا ہے بلند
رایتِ حریت و حق جوکفِ انور میں ہے
——
اے تلک اے افتخارِ جذبۂ حبِ وطن
حق شناس وحق پسند و حق یقین و حق سخن
تجھ سے قائم ہے بنا آزادی بیباک کی
تجھ سے روشن اہلِ اخلاص و صفا کی انجمن
سب سے پہلے تو نے کی برداشت اے فرزندِ ہند
خدمتِ ہندوستاں میں کلفتِ قیدمحن
ذات تیری رہنمائے راہِ آزادی ہوئی
تھے گرفتارِ غلامی ورنہ یارانِ وطن
تونے خود داری کا پھونکا اے تلک ایسا فسوں
یک قلم جس سے خوشامد کی مٹی رسمِ کہن
ناز تیری پیروی پر حسرتِ آزاد کو
اے تجھے قائم رکھے تا دیر رب ذوالمنن
——
شعر حسرت کی سیاسی معنویت سے بحث کرتے ہوئے دو باتیں بالخصوص توجہ طلب ہیں۔ اول یہ کہ کیا یہ شاعری واقعی ’’کم عیار، پھیکی اور بے جان‘‘ ہے جیسا کہ ہمارے جید نقادوں نے کہا ہے اور جیسا کہ عام تاثر بھی ہے اور دوسرے یہ کہ قطع نظر اس کی ادبی حیثیت سے، کیا اس شاعری کی کوئی تاریخی اہمیت بھی ہے؟ کیونکہ یہ سیاسی غزلیں بیسویں صدی کے پہلے دہے میں اس وقت کہی جا رہی تھیں جب غزل کا دامن ایسے موضوعات سے بڑی حد تک خالی تھا، نیز قطع نظر اس بحث سے کہ ایسے کلام کو غزل کہا جائے یا نظم، کیونکہ مسلسل کیفیت کی گنجائش تو بہرحال غزل میں رہی ہے اور ہمیشہ رہےگی۔
غور طلب امر یہ ہے کہ مسلسل کیفیت والی غزلیں تو سامنے کی بات ہیں، جبکہ شعر حسرت کی سیاسی معنویت کو سمجھنے کے لیے شاید ان غزلوں سے زیادہ مدد مل سکے جن میں سیاسی اشعار عشقیہ اشعار کے پہلو بہ پہلو آئے ہیں اور سیاسی بات غزل کے رمز وایما اور آداب کو برتتے ہوئے کہی گئی ہے۔ دیوان اول کی تیسری غزل کا آغاز اس مطلع سے ہوتا ہے جو زباں زد خاص وعام ہے،
——
رنگ سوتے میں چمکتاہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
——
اس کا مقطع ہے،
——
کٹ گیا قید میں ماہ رمضاں بھی حسرت
گرچہ ساماں سحر کا تھا نہ افطاری کا
——
مطلع عاشقانہ ہے اور مقطع سیاسی اور دونوں نہایت مشہور ہیں اور اکثر الگ الگ نوع کی شاعری کے حوالے میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اب پوری غزل دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ پوری غزل میں سیاسی احساس جاری و ساری ہے اور بات عشقیہ شاعری کے رمز وایما کے ذریعے کہی جا رہی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : حسرت نکل رہی ہے سرکار کے نگر میں
——
اگرچہ مقطع میں لہجہ وضاحتی ہے، لیکن باقی تمام اشعار میں عشق و محبت کے پیرائے میں سامراجی ظلم و استبداد کے خلاف احتجاج کی فضا موجود ہے۔
——
رنگ سوتے میں چمکتاہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے ترے حسن کی بیداری کا
مایہ عشرت بے حد ہے غمِ قیدِ وفا
میں شناسا بھی نہیں رنج گرفتاری کا
جورِ پیہم نہ کرے شانِ توجہ پیدا
دیکھ بدنام نہ ہو نام ستم گاری کا
ہیں جو اے عشق تری بے خبری کے بندے
بس ہو ان کا تو نہ لیں نام بھی ہشیاری کا
کٹ گیا قید میں ماہِ رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا
——
غم قیدِ وفا کا مایہ عشرت ہونا، رنج گرفتاری سے شناسائی، جور پیہم، ستم گاری کے بدنام نہ ہونے کی دعا کرنا، عشق کی بےخبری پر فخر اور ہشیاری کا نام بھی نہ لینا، یہ سب عشقیہ شاعری کا پیرایہ ہے اور غزل کا خاص لہجہ ہے۔ لیکن ان اشعار میں محض عشقیہ جذبا ت کا اظہار نہیں ہوا، اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ رمز وایما کے پردے میں جذبہ حریت اور سامراج دشمنی کے جذبات کا اظہار ہوا ہے۔ حسرت موہانی کی ایک اور غزل،
اے کہ نجاتِ ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو۔۔۔ بھی خاصی مشہور ہے، لیکن کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس غزل کے سیاسی اشعار اس قدرے طویل عشقیہ غزل ہی کا حصہ ہیں اور غزل کے آخر میں وارد ہوتے ہیں،
——
عشق کی روح پاک کو تحفۂ غم سے شاد کر
اپنی جفا کو یاد کر میری وفا کو یاد کر
جان کو محو غم بنا دل کو وفا نہاد کر
بندۂ عشق ہے تو یوں قطع رہ مراد کر
غمزۂ دل فریب کو اور بھی جانفزا بنا
پیکرِ نازحسن پر رنگِ حیا زیاد کر
خرمی دو روزہ کو عشرتِ جاوداں نہ جان
فکرِ معاش سے گزر حوصلۂ معاد کر
اے کہ نجاتِ ہند کی دل سے ہے تجھ کو آرزو
ہمتِ سر بلند سے یاس کا انسداد کر
قول کو زید و عمرو کے حد سے سوا اہم نہ جان
روشنی ضمیر میں عقل سے اجتہاد کر
حق سے بہ عذرِ مصلحت وقت پہ جو کرے گریز
اس کو نہ پیشوا سمجھ اس پہ نہ اعتماد کر
خدمتیں اہل جور کی کر نہ قبول زینہار
فن وہنر کے زور سے عیش کو خانہ زادکر
غیرکی جد وجہد پر تکیہ نہ کر کہ ہے گناہ
کوشِ ذاتِ خاص پر ناز کر اعتماد کر
——
ہے غضب ہنگامہ فصلِ بہار اب کی برس
دل پہ کاہے کو رہےگا اختیار اب کی برس
ہے جنونِ شوق ابھی سے بے قرار اب کی برس
کیا غضب ڈھائےگا طوفانِ بہار اب کی برس
کامیابی جلد ہوگی آکے پابوس امید
کھینچ ڈالیں اور رنج انتظار اب کی برس
حادثے سنہ آٹھ میں گزرے بہت اب دیکھیے
کیا دکھائے گردش لیل و نہار اب کی برس
فرقت ساقی میں ہم حسرت کشانِ بادہ سے
مل کے رویا خوب ابر نو بہار اب کی برس
مدتیں ترک محبت کو ہوئیں پھر اے عجب
یادِ یار آتی ہے کیوں بےاختیار اب کی برس
جوش گل کی ہیں یہیں کیفیتیں تو کیا عجب
اشک بلبل سے قفس ہو لالہ زار اب کی برس
حسرت شوریدہ سر ہے پائمال اشتیاق
اس طرف بھی کر گزر اے شہسوار اب کی برس
——
ہنگامہ فصل بہار میں دل پر اختیار نہ رہنا، جنونِ شوق کی بےقراری، طوفانِ بہار کا غضب ڈھانا، رنجِ انتظار کھینچنا، فرقتِ ساقی میں حسرت کشان بادہ کا ابر نو بہار سے مل کر رونا، ترک محبت کا ارادہ، لیکن یادِ یار کا بے اختیار آنا، جوشِ گل میں قفس کا لالہ زار ہونا اور شوریدہ سری میں پائمال اشتیاق ہونا، یہ سب غزلیہ شاعری کا مخصوص پیرایۂ اظہار ہے۔ ردیف ’’اب کی برس‘‘ نے پوری غزل کو ایک خاص کیفیت عطا کر دی ہے اور چوتھے شعر میں سنہ آٹھ کے حادثے کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے، اس سے مل کر ساری غزل کی معنویت سیاسی اور باغیانہ ہو جاتی ہے۔ یہی کیفیت اس نوعیت کے دوسرے تمام کلام کی ہے،
——
پیمان وفا نہ کر فراموش
اے حسرت بیقرار خاموش
پوشیدہ سکون یاس میں ہے
اک محشر اضطراب خاموش
اس عشوۂ نازنیں کے جلوے
ہیں دشمنِ عقل ومصلحت کوش
آزاد ہیں قید میں بھی حسرت
ہم دل شدگانِ خود فراموش
——
صاف ظاہر ہے کہ حسرت عشقیہ شاعری کے پردے میں سیاسی جوروجفا کا ذکر کر جاتے ہیں۔ اسی دیوان سے اس نوعیت کی کئی اور غزلیں پیش کی جا سکتی ہیں جن میں سیاسی احساس عشقیہ احساس کے ساتھ گھل مل گیا ہے اور عشقیہ شاعری ہی کے پیرائے میں ظاہر ہوا ہے۔ حسرت کے یہاں یہ رنگ اتنا عام اور اتنا واضح ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لیے کسی مزید تجزیے کی ضرورت نہیں۔ حسرت کی ایک بےپناہ غزل ہے،
——
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہواہے آتش گل سے چمن تمام
——
اس میں مقطع سے پہلے کے دو شعر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ حسرت کی ایک اور مشہور غزل ہے،
——
دل کو تری دزدیدہ نظر لے کے گئی ہے
اب یہ نہیں معلوم کدھر لے کے گئی ہے
اللہ رے کافر ترے اس حسن کی مستی
جو زلف تری تابہ کمر لے کے گئی ہے
اس عشقیہ غزل کا سیاسی مقطع ہے،
مغموم نہ ہو خاطر حسرت کہ تلک تک
پیغامِ وفا بادِ سحر لے کے گئی ہے
——
واقعات جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد حسرت موہانی اردو شاعروں میں شاید پہلے سیاسی قیدی تھے۔ وہ واقعہ جس پر انھیں قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں رسالہ اردوئے معلیٰ میں ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفی کمال کی موت پر شائع ہوا جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بےلاگ تنقید تھی۔ یہ مضمون انگریز سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔ بقول سید سلیمان ندوی، ’’علی گڑھ کی سلطنت میں بغاوت کا یہ پہلا جرم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ کالج کی حرمت کو بچانے کے لیے کالج کے بڑے بڑے ذمہ داروں نے حسرت کے خلاف گواہی دی۔ یہاں تک کہ نواب وقار الملک نے بھی مضمون کی مذمت کی۔ حسرت کو دو برس کی قید سخت کی سزا ہوئی۔ ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کے ظلم وستم کی نذر ہو گیا۔‘‘
اس سانحے کا دلچسپ پہلو جس سے حسرت کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ مضمون حسرت کا نہ تھا۔ مضمون پر کسی کا نام نہیں تھا۔ باوجود اصرار کے حسرت نے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا۔ سید سلیمان ندوی سے روایت ہے، ’’یہ مضمون اقبال سہیل کا تھا جو حسرت کی طرح شعروسخن اور سیاسی مذاق کا اتحاد رکھتے تھے۔‘‘ لیکن خورشید سلطانہ عفت موہانی کا بیان ہے کہ مضمون مذکور اقبال سہیل کا نہیں تھا بلکہ کالج کے ایک طالب علم فضلِ امین ساکن پٹیالہ کا تھا جن کا نام حسرت نے آخر تک عدالت میں ظاہر نہیں کیا، ہرچند کہ ان کی رہائی اسی پر منحصر تھی ۔ اب اس غزل کو ملاحظہ فرمائیے جو خاص اسی قید میں لکھی گئی اور جس کے ہر ہر شعر میں ان حالات پر طنز ہے اور غزل کے رمزوایما کی زبان میں دردِ دل بیان کیا گیا ہے،
——
نہ ہو اس کی خطا پوشی پہ کیوں نازِ گنہگاری
نشانِ شانِ رحمت بن گیا داغِ سیہ کاری
ستم تم چھوڑ دو میں شکوہ سنجیہائے ناچاری
کہ فرضِ عین ہے کیشِ محبت میں رواداری
ہوئیں ناکامیاں بدنامیاں رسوائیاں کیا کیا
نہ چھوٹی ہم سے لیکن کوئے جاناں کی ہواداری
وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ آغازِ محبت میں
نہ چالاکی تجھے اے شوخ آتی تھی نہ عیاری
خوشی سے ختم کرلے سختیاں قیدِ فرنگ اپنی
کہ ہم آزاد ہیں بیگانۂ رنجِ دل آزاری
وہ جرمِ آرزو پر جس قدر چاہیں سزا دے لیں
مجھے خود خواہش تعزیر ہے ملزم ہوں اقراری
——
اسی دیوان کی ایک اورآخری غزل بھی ملاحظہ ہو۔ گیارہ اشعار کی اس غزل سے پانچ شعر یہاں پیش کیے جاتے ہیں، جن کے عشقیہ پیرائے سے مجاہدانہ جوش وخروش اور جذبہ حریت صاف جھلک رہا ہے،
——
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
اے ساقیِ جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی
اے شوق کی بے باکی وہ کیا تری خواہش تھی
جس پر انھیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی
ہرچند ہے دل شیدا حریتِ کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قیدِ محبت بھی
——
کون ہے جو ان اشعار کو ’’کم عیار‘‘ یا ’’بے جان اور پھیکا‘‘ کہےگا۔ کہیں ایسا تونہیں کہ اس نوعیت کے اشعار کو حسرت موہانی کی شاعری کے پورے سیاق وسباق میں دیکھا ہی نہ گیا ہو۔ جن نقادوں کا حوالہ دیا گیا، ان کے مذاق سلیم کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے۔ ہو نہ ہو یا تو ہر ہر چیز کو پرکھا نہیں گیا، یا پھر بعد کے دواوین کے بے روح کلام نے دور اول کے سیاسی کلام کو بھی دبا دیا اور ایک غلط تاثر عام ہو گیا۔ افسوس ہے اس نکتے کو ثابت کرنے کے لیے اتنی مثالیں دینی پڑیں۔ لیکن شعر حسرت کی سیاسی جہت سے بے توجہی اور بےالتفاتی کی روش ہماری تنقید میں اس قدر راسخ ہو چکی ہے کہ ان مثالوں کی ضرورت بھی تھی۔
یہ کلام صرف دیوان اول سے لیا گیا ہے۔ اگر باقی گیارہ دواوین سے بھی مثالیں پیش کی جائیں تو کئی گنا زیادہ ہوں گی۔ اس تفصیل کے بعد کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ حسرت کی شاعری میں کئی جگہ عشقیہ احساس کے ساتھ ساتھ سیاسی احساس بھی گھل مل گیا ہے اور یہ شعر حسرت کی ایسی جہت ہے جو ازسر نو غوروخوض کا تقاضا کرتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : چرواہا
——
جیساکہ وضاحت کی جا چکی ہے، اوپر کی مثالیں صرف دیوان اول سے تھیں۔ حسرت موہانی نے اپنی زندگی میں بارہ دیوان شائع کیے۔ ان میں پہلا دیوان ۱۹۰۳ء سے ۱۹۱۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے جن میں بڑا حصہ ان غزلوں کا ہے جو بزمانہ قید ۱۹۰۸ء سے ۱۹۰۹ء تک علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل اور نینی سینٹرل جیل میں لکھی گئیں۔ دوسرا دیوان ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۶ء اور تیسرا دیوان ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۷ء کے زمانہ آزادی کی غزلوں کا مجموعہ ہے جبکہ حسرت کی عمر ۴۰ سال تھی۔ چوتھے دیوان میں اگست ۱۹۱۷ء سے اپریل ۱۹۱۸ء تک کی غزلیں درج ہیں، جب حسرت دوسری بار قید ہوئے اور فیض آباد جیل میں رکھے گئے۔
پانچواں دیوان ۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے جو بحالت نظر بند کٹھور اور موہان میں لکھی گئیں۔ چھٹا دیوان ۱۹۲۲ سے ۱۹۲۳ء کی غزلوں کا مجموعہ ہے، جب حسرت تیسری مرتبہ جیل گئے اور بڑودہ سینٹرل جیل میں تھے۔ ساتواں، آٹھوں، نواں اور دسواں دیوان بھی بڑودہ سینٹرل جیل کی غزلوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۴ء کے دوران لکھی گئیں۔ گیارہواں دیوان ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۴ء اور بارہواں دیوان ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۰ء تک کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ حسرت نے قیام حیدرآباد کے دوران ۱۹۴۳ء میں اپنے بارہ دیوانوں کا مجموعہ جس میں وہ ضمیمے بھی شامل تھے (ضمیمہ الف ابتدائی کلام کا اور ضمیمہ ب بارہویں دیوان کے بعد کے کلام کا) کلام حسرت کے نام سے شائع ہوا۔
تیرہواں دیوان کلیات سے علاحدہ شائع ہوا جس میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ء تک کی غزلیں شامل ہیں۔ اس تفصیل کی ضرورت یوں تھی کہ حسرت نے اگرچہ تیرہ دیوان اور دو ضمیمے تصنیف کیے لیکن دور اول کے بعد کے کلام میں وہ بات نہیں۔ اس کی طرف نیاز فتح پوری نے سب سے پہلے صحیح اشارہ کیا تھا کہ ۱۹۲۲ء کے بعد حسرت کی جیتی جاگتی شاعری ختم ہو چکی تھی اور شباب کے ساتھ ساتھ ان کا ولولۂ بے اختیار بھی ختم ہو گیا۔ ان کی بعد کی غزلیں بہت ہلکی ہیں اور قافیہ پیمائی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ میرا خیال ہے کہ نیازکو حسرت کی عمر کے بارے میں مغالطہ ہوا ہے۔ وہ ان کے پانچویں دیوان کو جو ۱۹۲۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے، چالیس سال تک کی عمر کا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پانچویں دیوان کی تصنیف کے وقت حسرت کی عمر ۴۵ برس تھی۔ میرے نزدیک ان کی سچی شاعری ۱۹۱۶-۱۷ء تک یعنی پہلے تین دیوانوں کے زمانے تک نمٹ چکی تھی، یعنی جب ان کی عمر ۳۵-۳۴ برس کے لگ بھگ تھی۔ بعد کی غزلوں میں اس کیفیت کے اشعار بہت کم ہیں،
——
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلی ہم رہاں سے ہم
کچھ ایسی دور بھی تو نہیں منزلِ مراد
لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم
——
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسرت موہانی نے تلک کا جو مرثیہ بطور غزل لکھا تھا اور جو پورا آریہ گزٹ کانپور میں شائع ہوا تھا اور جس کے صرف تین شعر حسرت نے پانچویں دیوان میں نقل کیے ہیں ’’ماتم نہ ہو کیوں بھارت میں بپا دنیا سے سدھارے آج تلک‘‘ بے جان اور پھیکا ہے یا مانٹیگو ریفارم پر جو چند اشعار ہیں /کس درجہ فریب سے ہے مملو/ تجویز ریفارم مانٹیگو/ محض قافیہ پیمائی ہیں۔ تاہم بعد کے دور کی قافیہ پیمائیوں سے دور اول کی پرکیف جیتی جاگتی شاعری رد نہیں ہو جاتی۔ یہ شاعری پرلطف ہے اور شعریت سے لبریز ہے۔ اس میں جذبہ حریت کی ولولہ انگیزی ہو یا سامراج کے جور وجفا کے خلاف احتجاج، تمام احساسات کو تغزل کے آداب ملحوظ رکھ کر شاعرانہ سلیقے سے بیان کیا گیا ہے اور یقیناً یہ شاعری ادبی اعتبار سے بے مایہ نہیں۔
اب آخر میں اس شاعری کی تاریخی اہمیت پرنظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ترقی پسند دوستوں کا دعویٰ ہے کہ غزل میں سیاسی مضامین کو داخل کرنے کا سہرا انھیں کے سر ہے۔ اس ضمن میں بالخصوص فیض اور مجروح کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اب یہ رنگ اتنا عام ہو چکا ہے کہ غزل کی ایک باقاعدہ شعری جہت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادھر نصف صدی کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے یہاں سیاسی، سماجی، وطنی، قومی نوعیت کا اظہار نہ ملتا ہو۔ لیکن مسئلہ اولیت کا ہے، یعنی غزل میں اس نوع کی شاعری کی اولیت کس کو حاصل ہے یا غزل میں سیاسی مضامین کو کس نے بڑے پیمانے پر سب سے پہلے داخل کیا۔ حال ہی میں اس سلسلے میں مجروح نے ایک دلچسپ بیان دیا ہے کہ لوگ خواہ مخواہ اولیت کا تاج فیض کے سر پہ رکھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ اعزاز مجروح کا ہے۔ ان کا یہ بیان خاصا اہم ہے اس لیے درج کیا جاتا ہے،
’’جب ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۰ء تک غزل دشمنی بالخصوص ترقی پسندوں میں بھی ترقی پسندی کا لائحہ عمل غزل دشمنی نہ ہوتے ہوئے بھی غزل دشمنی (کذا) اپنے عروج پر تھی، اس وقت میں نے اپنے یقین کی رہبری میں غزلیں کہیں اور سیاسی اور سماجی مضامین کو پہلی بار غزل میں کامیابی سے برتا۔
عام طور پر غزل میں سیاسی اور سماجی مسائل کا اور خصوصاً جبر سیاست کا ذکر غزل میں اس کی اپنی تمام مخصوص اشاریت اور غزلیہ طرز بیان کی اولیت کا مستحق لوگ فیض احمد فیض کو سمجھتے ہیں۔ ہرچند میں فیض کو اپنا بزرگ اور پیش رو مانتا ہوں لیکن ہم ہندوستانی شاعروں اور ادیبوں کو ان دنوں یعنی ۱۹۵۰ء کے آخر تک ان کی صرف ایک غزل کا علم ہو سکا تھا اور وہ ان کی بہت مشہور اور خوبصورت غزل ہے جس کے مطلع کا مصرع ہے، ’’تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے۔‘‘
اگر ہمارے ملک میں ان کے کسی مخصوص دوست تک ان کی کچھ اور غزلیں پہنچی ہوں، جس کا امکان کم ہی ہے تو کم از کم ہم جیسے لوگ ان غزلوں اور اشعار سے ناواقف تھے۔ اس بات پر میں اصرار اس لیے کر رہا ہوں کہ سیاسی مضامین برتنے کے سلسلے میں، میں نے صرف لائق ستائش ہی اشعار نہیں کہے بلکہ افراط وتفریط کا بھی شکار ہوا ہوں، جس کی سزا مجھے اس حد تک مل رہی ہے کہ لوگ میری اصل شاعرانہ حیثیت کو آج بھی تسلیم کرنے میں تامل کرتے ہیں یعنی غزل کے موضوع میں پہلی بار ایک نئے موڑ کا اظہار میری شاعری کے ذریعہ ہوا۔‘‘
فیض نے اس طرح کا کوئی دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندوں میں غزل دشمنی کو ختم کرنے میں فیض اور مجروح کی شاعری کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن جہاں تک غزل میں سیاسی مضامین کو برتنے کا سوال ہے تو اس بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ مجروح جیسے شاعر نے جوغزل کا روایت آگاہ بھی ہے اور اس کے رموز وعلائم کو خلاقانہ برت سکنے پر قادر بھی ہے، انھوں نے یہ کیسے فراموش کر دیا کہ غزل میں خواہ وہ فارسی ہو یا اردو، سیاسی مضامین روز اول سے بیان ہوتے رہے ہیں۔
رہی سامراج دشمنی یا غیرملکی جور و استبداد کے خلاف اظہار کی روایت، تو راجہ رام نرائن موزوں کو انھوں نے کیسے بھلا دیا، جن کا شعر سراج الدولہ کے قتل پر زبان زد خاص وعام ہے، یا میر، حاتم، مصحفی، جرأت، غالب، درد، مومن اور بیسیوں دوسرے کلاسیکی غزل گویوں کے وہ اشعار جن میں تحریک آزادی کے اولین نقوش ملتے ہیں۔ غزل کی تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ رہا سیاسی موضوعات کو باقاعدہ طور پر اختیار کرنا اور غزل کی مخصوص اشاریت کے ساتھ انھیں پورے رچاؤ اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ پیش کرنا تو اس سلسلے میں بھی اولیت نہ ان کو حاصل ہے نہ ان کے کسی ہم عصر کو، بلکہ نظریں اٹھیں گی تو بار بار اس شخص کی طرف جس نے دعویٰ کیا تھا،
——
تو نے حسرت کی عیاں تہذیب رسمِ عاشقی
اس سے پہلے اعتبار شانِ رسوائی نہ تھا
——
حقیقت یہ ہے کہ حسرت موہانی نے نہ صرف عاشقانہ شاعری میں تہذیب عاشقی کو زندہ کیا بلکہ باغیانہ شاعری کو بھی تہذیب عاشقی کے آداب سے روشناس کرایا اور غزل کی فضا میں بھرپور طور پر غیرملکی سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔ البتہ اس میدان میں ان کا کوئی حریف ہے تو وہ بھی ایسا جس کی غزلیہ شاعری کے سیاسی احساس کو اب تک اسی طرح نظرانداز کیا گیا ہے جس طرح حسرت کو۔ اور وہ ہیں مولانا محمد علی جوہر۔ حسرت اور محمد علی جوہر دونوں ہم عصر تھے۔ اتفاقاً دونوں کا سنہ پیدائش بھی ایک ہے یعنی ۱۸۷۸ء۔ جس طرح سردار جعفری نے حسرت کو ان کے صرف ایک شعر سے یاد رکھا، اسی طرح بیچارے محمد علی جوہر بھی اپنے صرف ایک شعر سے پہچانے جاتے ہیں،
——
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
——
شعرِ جوہر کے سیاسی احساس کا تفصیلی تجزیہ میں اپنے ایک مضمون میں کر چکا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کی غزلوں میں اکثروبیشتر جذبۂ حریت اور سیاسی احساس جاری و ساری ہے۔ مولانا اگرچہ بڑے رہنما تھے، لیکن حسرت موہانی ان سے بڑے شاعر تھے۔ مولانا کا بیشتر کلام بھی زمانہ قید فرنگ کا ہے۔ ایسی غزلوں کا اصل متن مولانا محمد علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جس پر بیجاپور ڈسٹرکٹ جیل کے جیلر کی مہریں ہیں، نیشنل میوزیم پاکستان میں محفوظ ہے۔ اس مخطوطے کا عکس نور الرحمن کے مقدمے کے ساتھ لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ نور الرحمن کا خیال ہے کہ مولانا کے سیاسی نوعیت کے کلام کا بڑا حصہ ۱۹۱۵ء سے ۱۹۲۲ء کاہے، جب وہ چار پانچ مختلف جیلوں میں رہے۔
مولانا محمد علی پہلی بار ۱۹۱۴ء میں جیل گئے جبکہ حسرت ۱۹۰۸ء میں حراست میں لیے گئے تھے۔ اس نوعیت کی شاعری دراصل اس بے زبانی کا عطیہ تھی جو جبراً نظربندی اور قیدکی حالت میں ان لوگوں کو اختیار کرنی پڑی تھی۔ گمان غالب ہے کہ حسرت کے باغیانہ کلام کی چھوٹ مولانا پر بھی پڑی ہو اور تغزل کے پیرائے میں حب وطن اور تحریک آزادی کی حمایت کا اظہار مولانا کے یہاں حسرت کے اثر سے آیا ہو۔ حسرت کی مشہور غزل، حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے۔۔۔ پر لکھی گئی مولانا محمد علی کی غزل،
——
سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے
چشم یہ خونا بہ بار دیکھیے کب تک رہے
——
بھی اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غزل میں سیاسی مضامین کے اظہار کے سلسلے میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ ایک اور اہم نام اقبال سہیل کا ہے۔ حب وطن، تحریک آزادی کا ولولہ، قوم پرستی اور انگریز دشمنی ان کے یہاں بھی شروع سے ملتی ہے۔ لیکن حسرت جس وقت علی گڑھ سے اردوئے معلیٰ نکال رہے تھے، اقبال سہیل وہیں زیر تعلیم تھے۔ اردوئے معلی کے مصطفی کمال پاشا نمبر کے جس مضمون میں برطانیہ کی مصر میں ریشہ دوانیوں کی قلعی کھولی گئی تھی اور جس کی اشاعت کے جرم میں حسرت موہانی کو دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی، پہلے ذکر آچکا ہے کہ اس مضمون کے بارے میں عام شبہ یہی تھا کہ وہ اقبال سہیل کا لکھا ہوا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
نیاز احمد صدیقی (جن کی کوششوں سے محمد حسن کالج جونپور کے میگزین کا اقبال سہیل نمبر ’’یادگار سہیل‘‘ کے نام سے شائع ہوا)، انھوں نے اور آل احمد سرور نے تصدیق کی ہے کہ سہیل نے غزل کے بلیغ اشاروں میں ہماری قومی جد وجہد کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔ سرور صاحب نے لکھا ہے کہ سہیل نے ایک بار گفتگو میں کہا تھا، ’’بھئی میں کسی پر عاشق تو ہوا نہیں اور تصوف کا دلدادہ ہونے کے باوجود صوفی بھی نہیں ہوں۔ میں نے تو غزل میں سیاسی حقائق بیان کیے ہیں۔‘‘ قرینہ یہی ہے کہ اقبال سہیل غزل میں قومی و سیاسی جذبات کے اظہار کے معاملے میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر سے متاثر رہے ہوں گے۔
نگار کے حسرت نمبر میں حسرت موہانی کی غزل سے بحث کرتے ہوئے آل احمد سرور نے اردو غزل کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور غدر ۱۸۵۷ء تک، دوسرا پہلی جنگ عظیم تک اور تیسرا ۱۹۲۰ء سے ۱۹۵۰-۵۵ء تک۔ انھوں نے حسرت کو بجا طور پر دوسرے دور کا آخری کلاسیکل شاعر قرار دیا ہے۔ کلاسیکی غزل کے معنیاتی نظام میں تین جہات صدیوں سے چلی آتی ہیں۔ اول عشقیہ، دوسری متصوفانہ اور تیسری سماجی وسیاسی۔ البتہ تیسری جہت نحیف و کمزور سی تھی۔ اس پر بہار بیسویں صدی میں سیاسی شعور کی بیداری، سامراج دشمنی اور حریت پسندی کے ساتھ ساتھ آئی۔ نظم میں تو اس کی داغ بیل سرسید کے اثر سے حالی وآزاد نے ڈال دی تھی اور حسرت کے زمانے تک سرور، چکبست، اقبال، ظفر علی خاں، محروم اور کئی دوسروں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا، لیکن غزل اس معاملے میں خاصی دیر آشنا نکلی اور اس نے یہ تبدیلی بتدریج قبول کی اور اس تدریجی تبدیلی میں بلاشبہ حسرت کی شاعری نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔
حسرت موہانی کوئی مدبر یا سیاست داں نہیں، شاعر تھے اور بےحد جذباتی شاعر تھے۔ ہندوستان کی مکمل آزادی ان کا مطمح نظر تھا۔ وہ اس تصور سے اس شدت سے وابستہ تھے کہ جہاں اس کی تکمیل کی صورت دیکھتے، مجاہدانہ جوش وخروش سے شریک ہو جاتے۔ مسلمانوں میں حسرت سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے سودیشی تحریک کی رہبری کی، سودیشی تحریک میں عملاً حصہ لیا اور سدیشی کپڑوں کی دکان قائم کی۔ کانگریس کے ۱۹۲۱ء کے تاریخی اجلاس میں جب ان کی ہندوستان کے استقلال (مکمل آزادی یا سوراجیہ) کی تجویز کی تائید نہ ہوئی تو بلا تامل کانگریس سے علاحدہ ہو گئے۔ اعتدال پسندوں سے بیزار ہوئے تو انتہا پسندوں سے جاملے۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو مسلم لیگ کے ہم خیال ہو گئے۔ لیکن یہ عقیدت بھی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور وہ خود کو اشتراکیت کا علمبردار کہنے لگے۔
اکثر حضرات نے ان کے اشتراکی ہوتے ہوئے بھی فرقہ پرست سیاست سے وابستہ رہنے پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حسرت موہانی کی شاعری میں نہ صرف یہ کہ فرقہ واریت کا کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ اس میں اتحاد پسندی، رواداری اور ہم آہنگی کی بڑی حسین فضا ملتی ہے۔ حسرت جہاں شاہ عبد الرزاق فرنگی محلی کے زمرۂ ارادت منداں میں شامل تھے، وہاں شری کرشن جی سے بھی عقیدت رکھتے تھے اور ایک سچے عقیدت مند کی طرح متھرا اور برندان بن جاتے تھے۔ ان کی متعدد غزلیں اور گیت،
متھراکہ نگر ہے عاشقی کا۔۔۔ الخ
یا
من تو ہے پریت لگائی کنہائی۔۔۔ الخ
کرشن جی کی تعریف میں ہیں۔ غرض ان کی وسیع المشربی، انسان دوستی، حریت پسندی، وطن پرستی اور سامراج دشمنی ایسے اوصاف ہیں جن کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کی قربانیاں دیں، نقصان برداشت کیے لیکن کسی سطح پر کوئی سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا اور ان اوصاف کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔
یہاں ایک نازک فرق کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ سیاسی شاعری کی اصطلاح خاصی گمراہ کن بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کئی معنوں میں مستعمل ہے اور سیاسی شاعری کے کئی رخ اور کئی پہلو ہیں۔ حسرت موہانی کی شاعری کے امتیاز کو سمجھنے کے لیے سیاسی شاعری کے بعض پہلوؤں کو نظرمیں رکھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اس کا ایک روشن پہلو جذبۂ حب الوطنی ہے۔ حب وطن کی جھلک اکثر کلاسیکی شعرا کے یہاں ملتی ہے جسے وسط انیسویں صدی کے بعد حالی اور آزاد نے باقاعدہ شعری موضوع کے طور پر برتا اور کچھ آگے چل کر جس کا بھرپور اظہار درگاہ سہائے سرور کے یہاں ہوا۔ یہی کیفیت ایک اور اعلیٰ سطح پر اقبال کے یہاں بھی ملتی ہے۔
یاد رہے کہ جس وقت حسرت موہانی غزل میں باغیانہ شاعری کا بیج بو رہے تھے، اس سے چند برس پہلے نظمیہ شاعری میں ’’ہمالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ اور بانگ درا کی بیشتر وطنی نظمیں لکھی جا چکی تھیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ۱۹۰۸ء سے پہلے اقبال کے یہاں بھی انگریز دشمنی کا جذبہ قریب قریب مفقود ہے۔ انگریز دشمنی اور جذبہ حریت سیاسی شاعری کی دوسری اہم جہت ہے۔ بعض لوگوں کو اکبر الہ آبادی کے یہاں اس کا دھوکا ہو سکتا ہے، لیکن اکبر بھی اصلاً انگریزی حکومت کے نہیں بلکہ انگریزوں کی پھیلائی ہوئی مغربی تہذیب کے اور سرسید تحریک کے مخالف تھے۔ اقبال کے یہاں بھی سامراج دشمنی اول اول مغربی تہذیب کی مخالفت کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی۔
تحریک آزادی یا جذبہ حریت کا واضح سیاسی احساس وطنی احساس سے ملاجلا اس دور میں البتہ چکبست کے یہاں ملتا ہے، لیکن ان کے یہاں بھی آزادی کی لگن اور جوش وخروش تو ہے مگر وہ باغیانہ تڑپ اور سیاسی جورواستبداد کے خلاف احتجاج کی ویسی شدید لے نہیں جو حسرت موہانی کا طرۂ امتیاز ہے۔ سیاسی جور واستبدال یا سامراج کے خلاف احتجاج کی لے سیاسی شاعری کی تیسری جہت کہی جا سکتی ہے۔ حسرت کے یہاں یہ باغیانہ تڑپ نظم میں نہیں غزل میں سامنے آئی، جو اس زمانے کے مذاق شعر کو دیکھتے ہوئے آسان نہ تھا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے بعد اردو شاعری میں یہ رنگ عام ہوتا گیا، اگرچہ غزل میں اسے نسبتاً زیادہ زمانہ طے کرنا پڑا۔
اس میں شک نہیں کہ اکبر الہ آبادی نے طنزومزاح کے لیے زیادہ تر غزل کا فارم برتا، لیکن اکبر کا وار مغرب کی نقالی پر تھا نہ کہ مغرب کی سرمایہ داری اور سامراجیت پر۔ بعد میں انھوں نے سیاسی نوعیت کے شعر بھی کہے لیکن ان کا رویہ زیادہ تر منفی ہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے اور اپنے ’’مدخولۂ گورنمنٹ‘‘ ہونے کا احساس انھیں ہمیشہ رہا۔ ان کے مقابلے میں حسرت ہرطرح اور ہر معاملے میں آزاد تھے۔ مکمل آزادی ان کا نصب العین اور بغاوت ان کا شعار تھی۔ چنانچہ اس معاملے میں حسرت اپنے عہد کے تمام شاعروں سے بشمول اکبر و اقبال کے بالکل الگ تھے۔
سیاسی شاعری کے جن تین پہلوؤں کا ذکر اوپر کیا گیا یعنی اول وطنی شاعری، دوسرے جذبہ حریت کی شاعری اور تیسرے سیاسی ظلم وستم اور بے انصافیوں کے خلاف احتجاج کی شاعری، ان میں پہلی نوعیت کی شاعری ہردور میں مل جاتی ہے۔ لیکن اس پر بہار اسی زمانے میں آتی ہے جب سامراجی استحصال جاری ہو۔ دوسری نوعیت کی شاعری یعنی جس کا بنیادی محرک جذبۂ حریت ہو، حصول آزادی کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اردو میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رہی تیسری نوعیت کی شاعری یعنی سیاسی ظلم وستم اور جورواستبداد کے خلاف احتجاج کی شاعری تو یہ ہر دور اور ہر عہد میں پائی جا سکتی ہے جیسا کہ آزادی کے بعد بھی برصغیر کے دونوں ملکوں یا تیسری دنیا کے ملکوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے اس نوعیت کی اکا دکا مثالیں حسرت سے بھی پہلے مل جائیں، لیکن جس وسیع پیمانے پر پوری باغیانہ شدت اور گہرے سیاسی احساس کے ساتھ حسرت کے یہاں ان جذبات کا اظہار ہوا، اس سے پہلے کی شاعری میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اردو غزل میں حسرت ہی اس رنگ کے بانی قرار پائیں گے۔ چنانچہ اردو غزل کی سیاسی جہت صحیح معنوں میں پہلے پہل حسرت ہی کے ہاتھوں روشن ہوئی۔ حسرت کی عشقیہ شاعری ہمارا عزیز سرمایہ ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ محبت سے یاد کیے جائیں گے۔ لیکن وہ بات جس کے لیے ان کا نام احترام سے لیا جائےگا، ان کی یہ تاریخی اہمیت ہے کہ انھوں نے غزل میں سامراج اور سیاسی جور واستبداد کے خلاف آواز بلند کی اور تغزل کے آداب برتتے ہوئے غزل کو وسیع پیمانے پر باغیانہ سیاسی و قومی شاعری کے لیے استعمال کیا۔
——
حواشی
——
(۱) نگار حسرت نمبر ’’کچھ حسرت کے بارے میں‘‘ ص، ۲۲
(۲) نگار حسرت نمبر، ص، ۸۷
(۳) ایضاً، ص، ۶۰
(۴) نگار حسرت نمبر، ’’حسرت کے شاعرانہ مرتبے کا تعین‘‘، ص، ۹۵
(۵) حسرت موہانی از عبد الشکور، طبع سوم، ۱۹۵۳ء، ص، ۲۲، ۲۳
(۶) اصل مصرع یوں ہے، حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے۔
(۷) ترقی پسند ادب، طبع اول، علی گڑھ، ۱۹۵۱ء، ص، ۱۶۵
(۹) ترقی پسند ادب، ص، ۱۶۷۔ ۱۶۶۔ ۱۶۵
(۱۰) نگار، ص، ۸۸
(۱۱) نگار حسرت نمبر، سید سلیمان ندوی ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘، ص، ۱۱۲، نیز ملاحظہ ہو، حالات حسرت، سلسلہ حالات نظر بندان اسلام، دہلی ۱۳۳۷ھ، ص، ۱۰
(۱۲) ’’ہماری زبان‘‘ مراسلہ خورشید سلطانہ عفت موہانی، یکم مارچ ۱۹۵۸ء، ص، ۱۱)
(۱۳) نگار حسرت نمبر، ص، ۷۴
(۱۴) فن وشخصیت غزل نمبر، بمبئی ۱۹۷۸ء، ص، ۳۷۹
(۱۵) دیوان جوہر، مرتبہ نور الرحمن، لاہور، ۱۹۶۲ء، ص، ۱۶
(۱۶) محمد حسن کالج میگزین جونپور، سہیل نمبر ’’مولانا سہیل کی شاعری‘‘ از آل احمد سرور، ص، ۲۵
(۱۷) نگار حسرت نمبر، ص، ۱۰۹
(۱۸) نگار حسرت نمبر، سید سلیمان ندوی ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘، ص، ۱۱۱۔ نیز حسرت مولانا از عبد الشکور، ص، ۲۲
——
منتخب کلام
——
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
——
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
——
تیری محفل سے اٹھاتا غیر مجھ کو کیا مجال
دیکھتا تھا میں کہ تو نے بھی اشارہ کر دیا
——
آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے
——
واقف ہیں خوب آپ کے طرز جفا سے ہم
اظہار التفات کی زحمت نہ کیجیے
——
دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئی کئی دور ہو گئے
——
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
——
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لیے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہوں میں مجھے بھی کر اے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام
ہے ناز حسن سے جو فروزاں جبین یار
لبریز آب نور ہے چاہ ذقن تمام
نشو و نمائے سبزہ و گل سے بہار میں
شادابیوں نے گھیر لیا ہے چمن تمام
اس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام
گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کیے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام
سمجھے ہیں اہل شرق کو شاید قریب مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاغ و زغن تمام
شیرینئ نسیم ہے سوز و گداز میرؔ
حسرتؔ ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام
——
اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ یاد کہ اس یاد کو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
کیا تأمل ہے مرے قتل میں اے بازو یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے
حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو کہ اسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے
داغ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسی کا دل مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے
——
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
میرے عذر جرم پر مطلق نہ کیجے التفات
بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جائیے
خاطر محروم کو کر دیجئے محو الم
درپئے ایذائے جان مبتلا ہو جائیے
راہ میں ملیے کبھی مجھ سے تو از راہ ستم
ہونٹ اپنا کاٹ کر فوراً جدا ہو جائیے
گر نگاہ شوق کو محو تماشا دیکھیے
قہر کی نظروں سے مصروف سزا ہو جائیے
میری تحریر ندامت کا نہ دیجے کچھ جواب
دیکھ لیجے اور تغافل آشنا ہو جائیے
مجھ سے تنہائی میں گر ملیے تو دیجے گالیاں
اور بزم غیر میں جان حیا ہو جائیے
ہاں یہی میری وفائے بے اثر کی ہے سزا
آپ کچھ اس سے بھی بڑھ کر پر جفا ہو جائیے
جی میں آتا ہے کہ اس شوخ تغافل کیش سے
اب نہ ملیے پھر کبھی اور بے وفا ہو جائیے
کاوش درد جگر کی لذتوں کو بھول کر
مائل آرام و مشتاق شفا ہو جائیے
ایک بھی ارماں نہ رہ جائے دل مایوس میں
یعنی آخر بے نیاز مدعا ہو جائیے
بھول کر بھی اس ستم پرور کی پھر آئے نہ یاد
اس قدر بیگانۂ عہد وفا ہو جائیے
ہائے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے
چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرز تغافل کے فدا ہو جائیے
کشمکش ہائے الم سے اب یہ حسرتؔ جی میں ہے
چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمان قضا ہو جائیے
خوض کا تقاضا کرتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : چرواہا
——
جیساکہ وضاحت کی جا چکی ہے، اوپر کی مثالیں صرف دیوان اول سے تھیں۔ حسرت نے اپنی زندگی میں بارہ دیوان شائع کیے۔ ان میں پہلا دیوان ۱۹۰۳ء سے ۱۹۱۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے جن میں بڑا حصہ ان غزلوں کا ہے جو بزمانہ قید ۱۹۰۸ء سے ۱۹۰۹ء تک علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل اور نینی سینٹرل جیل میں لکھی گئیں۔ دوسرا دیوان ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۶ء اور تیسرا دیوان ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۷ء کے زمانہ آزادی کی غزلوں کا مجموعہ ہے جبکہ حسرت کی عمر ۴۰ سال تھی۔ چوتھے دیوان میں اگست ۱۹۱۷ء سے اپریل ۱۹۱۸ء تک کی غزلیں درج ہیں، جب حسرت دوسری بار قید ہوئے اور فیض آباد جیل میں رکھے گئے۔
پانچواں دیوان ۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے جو بحالت نظر بند کٹھور اور موہان میں لکھی گئیں۔ چھٹا دیوان ۱۹۲۲ سے ۱۹۲۳ء کی غزلوں کا مجموعہ ہے، جب حسرت تیسری مرتبہ جیل گئے اور بڑودہ سینٹرل جیل میں تھے۔ ساتواں، آٹھوں، نواں اور دسواں دیوان بھی بڑودہ سینٹرل جیل کی غزلوں پر مشتمل ہے جو ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۴ء کے دوران لکھی گئیں۔ گیارہواں دیوان ۱۹۲۵ء سے ۱۹۳۴ء اور بارہواں دیوان ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۰ء تک کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ حسرت نے قیام حیدرآباد کے دوران ۱۹۴۳ء میں اپنے بارہ دیوانوں کا مجموعہ جس میں وہ ضمیمے بھی شامل تھے (ضمیمہ الف ابتدائی کلام کا اور ضمیمہ ب بارہویں دیوان کے بعد کے کلام کا) کلام حسرت کے نام سے شائع ہوا۔
تیرہواں دیوان کلیات سے علاحدہ شائع ہوا جس میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ء تک کی غزلیں شامل ہیں۔ اس تفصیل کی ضرورت یوں تھی کہ حسرت نے اگرچہ تیرہ دیوان اور دو ضمیمے تصنیف کیے لیکن دور اول کے بعد کے کلام میں وہ بات نہیں۔ اس کی طرف نیاز فتح پوری نے سب سے پہلے صحیح اشارہ کیا تھا کہ ۱۹۲۲ء کے بعد حسرت کی جیتی جاگتی شاعری ختم ہو چکی تھی اور شباب کے ساتھ ساتھ ان کا ولولۂ بے اختیار بھی ختم ہو گیا۔ ان کی بعد کی غزلیں بہت ہلکی ہیں اور قافیہ پیمائی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ میرا خیال ہے کہ نیازکو حسرت کی عمر کے بارے میں مغالطہ ہوا ہے۔ وہ ان کے پانچویں دیوان کو جو ۱۹۲۲ء تک کی غزلوں پر مشتمل ہے، چالیس سال تک کی عمر کا سرمایہ قرار دیتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پانچویں دیوان کی تصنیف کے وقت حسرت کی عمر ۴۵ برس تھی۔ میرے نزدیک ان کی سچی شاعری ۱۹۱۶-۱۷ء تک یعنی پہلے تین دیوانوں کے زمانے تک نمٹ چکی تھی، یعنی جب ان کی عمر ۳۵-۳۴ برس کے لگ بھگ تھی۔ بعد کی غزلوں میں اس کیفیت کے اشعار بہت کم ہیں،
——
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
گھبرا گئے ہیں بے دلی ہم رہاں سے ہم
کچھ ایسی دور بھی تو نہیں منزلِ مراد
لیکن یہ جب کہ چھوٹ چلیں کارواں سے ہم
——
اس میں کوئی شک نہیں کہ حسرت نے تلک کا جو مرثیہ بطور غزل لکھا تھا اور جو پورا آریہ گزٹ کانپور میں شائع ہوا تھا اور جس کے صرف تین شعر حسرت نے پانچویں دیوان میں نقل کیے ہیں ’’ماتم نہ ہو کیوں بھارت میں بپا دنیا سے سدھارے آج تلک‘‘ بے جان اور پھیکا ہے یا مانٹیگو ریفارم پر جو چند اشعار ہیں /کس درجہ فریب سے ہے مملو/ تجویز ریفارم مانٹیگو/ محض قافیہ پیمائی ہیں۔ تاہم بعد کے دور کی قافیہ پیمائیوں سے دور اول کی پرکیف جیتی جاگتی شاعری رد نہیں ہو جاتی۔ یہ شاعری پرلطف ہے اور شعریت سے لبریز ہے۔ اس میں جذبہ حریت کی ولولہ انگیزی ہو یا سامراج کے جور وجفا کے خلاف احتجاج، تمام احساسات کو تغزل کے آداب ملحوظ رکھ کر شاعرانہ سلیقے سے بیان کیا گیا ہے اور یقیناً یہ شاعری ادبی اعتبار سے بے مایہ نہیں۔
اب آخر میں اس شاعری کی تاریخی اہمیت پرنظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ترقی پسند دوستوں کا دعویٰ ہے کہ غزل میں سیاسی مضامین کو داخل کرنے کا سہرا انھیں کے سر ہے۔ اس ضمن میں بالخصوص فیض اور مجروح کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اب یہ رنگ اتنا عام ہو چکا ہے کہ غزل کی ایک باقاعدہ شعری جہت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادھر نصف صدی کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے یہاں سیاسی، سماجی، وطنی، قومی نوعیت کا اظہار نہ ملتا ہو۔ لیکن مسئلہ اولیت کا ہے، یعنی غزل میں اس نوع کی شاعری کی اولیت کس کو حاصل ہے یا غزل میں سیاسی مضامین کو کس نے بڑے پیمانے پر سب سے پہلے داخل کیا۔ حال ہی میں اس سلسلے میں مجروح نے ایک دلچسپ بیان دیا ہے کہ لوگ خواہ مخواہ اولیت کا تاج فیض کے سر پہ رکھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ اعزاز مجروح کا ہے۔ ان کا یہ بیان خاصا اہم ہے اس لیے درج کیا جاتا ہے،
’’جب ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۰ء تک غزل دشمنی بالخصوص ترقی پسندوں میں بھی ترقی پسندی کا لائحہ عمل غزل دشمنی نہ ہوتے ہوئے بھی غزل دشمنی (کذا) اپنے عروج پر تھی، اس وقت میں نے اپنے یقین کی رہبری میں غزلیں کہیں اور سیاسی اور سماجی مضامین کو پہلی بار غزل میں کامیابی سے برتا۔
عام طور پر غزل میں سیاسی اور سماجی مسائل کا اور خصوصاً جبر سیاست کا ذکر غزل میں اس کی اپنی تمام مخصوص اشاریت اور غزلیہ طرز بیان کی اولیت کا مستحق لوگ فیض احمد فیض کو سمجھتے ہیں۔ ہرچند میں فیض کو اپنا بزرگ اور پیش رو مانتا ہوں لیکن ہم ہندوستانی شاعروں اور ادیبوں کو ان دنوں یعنی ۱۹۵۰ء کے آخر تک ان کی صرف ایک غزل کا علم ہو سکا تھا اور وہ ان کی بہت مشہور اور خوبصورت غزل ہے جس کے مطلع کا مصرع ہے، ’’تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے۔‘‘
اگر ہمارے ملک میں ان کے کسی مخصوص دوست تک ان کی کچھ اور غزلیں پہنچی ہوں، جس کا امکان کم ہی ہے تو کم از کم ہم جیسے لوگ ان غزلوں اور اشعار سے ناواقف تھے۔ اس بات پر میں اصرار اس لیے کر رہا ہوں کہ سیاسی مضامین برتنے کے سلسلے میں، میں نے صرف لائق ستائش ہی اشعار نہیں کہے بلکہ افراط وتفریط کا بھی شکار ہوا ہوں، جس کی سزا مجھے اس حد تک مل رہی ہے کہ لوگ میری اصل شاعرانہ حیثیت کو آج بھی تسلیم کرنے میں تامل کرتے ہیں یعنی غزل کے موضوع میں پہلی بار ایک نئے موڑ کا اظہار میری شاعری کے ذریعہ ہوا۔‘‘
فیض نے اس طرح کا کوئی دعویٰ کبھی نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندوں میں غزل دشمنی کو ختم کرنے میں فیض اور مجروح کی شاعری کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن جہاں تک غزل میں سیاسی مضامین کو برتنے کا سوال ہے تو اس بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ مجروح جیسے شاعر نے جوغزل کا روایت آگاہ بھی ہے اور اس کے رموز وعلائم کو خلاقانہ برت سکنے پر قادر بھی ہے، انھوں نے یہ کیسے فراموش کر دیا کہ غزل میں خواہ وہ فارسی ہو یا اردو، سیاسی مضامین روز اول سے بیان ہوتے رہے ہیں۔
رہی سامراج دشمنی یا غیرملکی جور و استبداد کے خلاف اظہار کی روایت، تو راجہ رام نرائن موزوں کو انھوں نے کیسے بھلا دیا، جن کا شعر سراج الدولہ کے قتل پر زبان زد خاص وعام ہے، یا میر، حاتم، مصحفی، جرأت، غالب، درد، مومن اور بیسیوں دوسرے کلاسیکی غزل گویوں کے وہ اشعار جن میں تحریک آزادی کے اولین نقوش ملتے ہیں۔ غزل کی تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ رہا سیاسی موضوعات کو باقاعدہ طور پر اختیار کرنا اور غزل کی مخصوص اشاریت کے ساتھ انھیں پورے رچاؤ اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ پیش کرنا تو اس سلسلے میں بھی اولیت نہ ان کو حاصل ہے نہ ان کے کسی ہم عصر کو، بلکہ نظریں اٹھیں گی تو بار بار اس شخص کی طرف جس نے دعویٰ کیا تھا،
——
تو نے حسرت کی عیاں تہذیب رسمِ عاشقی
اس سے پہلے اعتبار شانِ رسوائی نہ تھا
——
حقیقت یہ ہے کہ حسرت نے نہ صرف عاشقانہ شاعری میں تہذیب عاشقی کو زندہ کیا بلکہ باغیانہ شاعری کو بھی تہذیب عاشقی کے آداب سے روشناس کرایا اور غزل کی فضا میں بھرپور طور پر غیرملکی سامراج کے خلاف آواز اٹھائی۔ البتہ اس میدان میں ان کا کوئی حریف ہے تو وہ بھی ایسا جس کی غزلیہ شاعری کے سیاسی احساس کو اب تک اسی طرح نظرانداز کیا گیا ہے جس طرح حسرت کو۔ اور وہ ہیں مولانا محمد علی جوہر۔ حسرت اور محمد علی جوہر دونوں ہم عصر تھے۔ اتفاقاً دونوں کا سنہ پیدائش بھی ایک ہے یعنی ۱۸۷۸ء۔ جس طرح سردار جعفری نے حسرت کو ان کے صرف ایک شعر سے یاد رکھا، اسی طرح بیچارے محمد علی جوہر بھی اپنے صرف ایک شعر سے پہچانے جاتے ہیں،
——
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
——
شعرِ جوہر کے سیاسی احساس کا تفصیلی تجزیہ میں اپنے ایک مضمون میں کر چکا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کی غزلوں میں اکثروبیشتر جذبۂ حریت اور سیاسی احساس جاری و ساری ہے۔ مولانا اگرچہ بڑے رہنما تھے، لیکن حسرت ان سے بڑے شاعر تھے۔ مولانا کا بیشتر کلام بھی زمانہ قید فرنگ کا ہے۔ ایسی غزلوں کا اصل متن مولانا محمد علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جس پر بیجاپور ڈسٹرکٹ جیل کے جیلر کی مہریں ہیں، نیشنل میوزیم پاکستان میں محفوظ ہے۔ اس مخطوطے کا عکس نور الرحمن کے مقدمے کے ساتھ لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ نور الرحمن کا خیال ہے کہ مولانا کے سیاسی نوعیت کے کلام کا بڑا حصہ ۱۹۱۵ء سے ۱۹۲۲ء کاہے، جب وہ چار پانچ مختلف جیلوں میں رہے۔
مولانا محمد علی پہلی بار ۱۹۱۴ء میں جیل گئے جبکہ حسرت ۱۹۰۸ء میں حراست میں لیے گئے تھے۔ اس نوعیت کی شاعری دراصل اس بے زبانی کا عطیہ تھی جو جبراً نظربندی اور قیدکی حالت میں ان لوگوں کو اختیار کرنی پڑی تھی۔ گمان غالب ہے کہ حسرت کے باغیانہ کلام کی چھوٹ مولانا پر بھی پڑی ہو اور تغزل کے پیرائے میں حب وطن اور تحریک آزادی کی حمایت کا اظہار مولانا کے یہاں حسرت کے اثر سے آیا ہو۔ حسرت کی مشہور غزل، حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے۔۔۔ پر لکھی گئی مولانا محمد علی کی غزل،
——
سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے
چشم یہ خونا بہ بار دیکھیے کب تک رہے
——
بھی اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ غزل میں سیاسی مضامین کے اظہار کے سلسلے میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ ایک اور اہم نام اقبال سہیل کا ہے۔ حب وطن، تحریک آزادی کا ولولہ، قوم پرستی اور انگریز دشمنی ان کے یہاں بھی شروع سے ملتی ہے۔ لیکن حسرت جس وقت علی گڑھ سے اردوئے معلیٰ نکال رہے تھے، اقبال سہیل وہیں زیر تعلیم تھے۔ اردوئے معلی کے مصطفی کمال پاشا نمبر کے جس مضمون میں برطانیہ کی مصر میں ریشہ دوانیوں کی قلعی کھولی گئی تھی اور جس کی اشاعت کے جرم میں حسرت کو دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی، پہلے ذکر آچکا ہے کہ اس مضمون کے بارے میں عام شبہ یہی تھا کہ وہ اقبال سہیل کا لکھا ہوا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
نیاز احمد صدیقی (جن کی کوششوں سے محمد حسن کالج جونپور کے میگزین کا اقبال سہیل نمبر ’’یادگار سہیل‘‘ کے نام سے شائع ہوا)، انھوں نے اور آل احمد سرور نے تصدیق کی ہے کہ سہیل نے غزل کے بلیغ اشاروں میں ہماری قومی جد وجہد کی پوری داستان بیان کر دی ہے۔ سرور صاحب نے لکھا ہے کہ سہیل نے ایک بار گفتگو میں کہا تھا، ’’بھئی میں کسی پر عاشق تو ہوا نہیں اور تصوف کا دلدادہ ہونے کے باوجود صوفی بھی نہیں ہوں۔ میں نے تو غزل میں سیاسی حقائق بیان کیے ہیں۔‘‘ قرینہ یہی ہے کہ اقبال سہیل غزل میں قومی و سیاسی جذبات کے اظہار کے معاملے میں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر سے متاثر رہے ہوں گے۔
نگار کے حسرت نمبر میں حسرت کی غزل سے بحث کرتے ہوئے آل احمد سرور نے اردو غزل کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور غدر ۱۸۵۷ء تک، دوسرا پہلی جنگ عظیم تک اور تیسرا ۱۹۲۰ء سے ۱۹۵۰-۵۵ء تک۔ انھوں نے حسرت کو بجا طور پر دوسرے دور کا آخری کلاسیکل شاعر قرار دیا ہے۔ کلاسیکی غزل کے معنیاتی نظام میں تین جہات صدیوں سے چلی آتی ہیں۔ اول عشقیہ، دوسری متصوفانہ اور تیسری سماجی وسیاسی۔ البتہ تیسری جہت نحیف و کمزور سی تھی۔ اس پر بہار بیسویں صدی میں سیاسی شعور کی بیداری، سامراج دشمنی اور حریت پسندی کے ساتھ ساتھ آئی۔ نظم میں تو اس کی داغ بیل سرسید کے اثر سے حالی وآزاد نے ڈال دی تھی اور حسرت کے زمانے تک سرور، چکبست، اقبال، ظفر علی خاں، محروم اور کئی دوسروں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا، لیکن غزل اس معاملے میں خاصی دیر آشنا نکلی اور اس نے یہ تبدیلی بتدریج قبول کی اور اس تدریجی تبدیلی میں بلاشبہ حسرت کی شاعری نے ایک تاریخی کردار ادا کیا۔
حسرت کوئی مدبر یا سیاست داں نہیں، شاعر تھے اور بےحد جذباتی شاعر تھے۔ ہندوستان کی مکمل آزادی ان کا مطمح نظر تھا۔ وہ اس تصور سے اس شدت سے وابستہ تھے کہ جہاں اس کی تکمیل کی صورت دیکھتے، مجاہدانہ جوش وخروش سے شریک ہو جاتے۔ مسلمانوں میں حسرت سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے سودیشی تحریک کی رہبری کی، سودیشی تحریک میں عملاً حصہ لیا اور سدیشی کپڑوں کی دکان قائم کی۔ کانگریس کے ۱۹۲۱ء کے تاریخی اجلاس میں جب ان کی ہندوستان کے استقلال (مکمل آزادی یا سوراجیہ) کی تجویز کی تائید نہ ہوئی تو بلا تامل کانگریس سے علاحدہ ہو گئے۔ اعتدال پسندوں سے بیزار ہوئے تو انتہا پسندوں سے جاملے۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو مسلم لیگ کے ہم خیال ہو گئے۔ لیکن یہ عقیدت بھی دیرپا ثابت نہ ہوئی اور وہ خود کو اشتراکیت کا علمبردار کہنے لگے۔
اکثر حضرات نے ان کے اشتراکی ہوتے ہوئے بھی فرقہ پرست سیاست سے وابستہ رہنے پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حسرت کی شاعری میں نہ صرف یہ کہ فرقہ واریت کا کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ اس میں اتحاد پسندی، رواداری اور ہم آہنگی کی بڑی حسین فضا ملتی ہے۔ حسرت جہاں شاہ عبد الرزاق فرنگی محلی کے زمرۂ ارادت منداں میں شامل تھے، وہاں شری کرشن جی سے بھی عقیدت رکھتے تھے اور ایک سچے عقیدت مند کی طرح متھرا اور برندان بن جاتے تھے۔ ان کی متعدد غزلیں اور گیت،
متھراکہ نگر ہے عاشقی کا۔۔۔ الخ
یا
من تو ہے پریت لگائی کنہائی۔۔۔ الخ
کرشن جی کی تعریف میں ہیں۔ غرض ان کی وسیع المشربی، انسان دوستی، حریت پسندی، وطن پرستی اور سامراج دشمنی ایسے اوصاف ہیں جن کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کی قربانیاں دیں، نقصان برداشت کیے لیکن کسی سطح پر کوئی سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا اور ان اوصاف کا اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا۔
یہاں ایک نازک فرق کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ سیاسی شاعری کی اصطلاح خاصی گمراہ کن بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کئی معنوں میں مستعمل ہے اور سیاسی شاعری کے کئی رخ اور کئی پہلو ہیں۔ حسرت کی شاعری کے امتیاز کو سمجھنے کے لیے سیاسی شاعری کے بعض پہلوؤں کو نظرمیں رکھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اس کا ایک روشن پہلو جذبۂ حب الوطنی ہے۔ حب وطن کی جھلک اکثر کلاسیکی شعرا کے یہاں ملتی ہے جسے وسط انیسویں صدی کے بعد حالی اور آزاد نے باقاعدہ شعری موضوع کے طور پر برتا اور کچھ آگے چل کر جس کا بھرپور اظہار درگاہ سہائے سرور کے یہاں ہوا۔ یہی کیفیت ایک اور اعلیٰ سطح پر اقبال کے یہاں بھی ملتی ہے۔
یاد رہے کہ جس وقت حسرت غزل میں باغیانہ شاعری کا بیج بو رہے تھے، اس سے چند برس پہلے نظمیہ شاعری میں ’’ہمالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ اور بانگ درا کی بیشتر وطنی نظمیں لکھی جا چکی تھیں۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ۱۹۰۸ء سے پہلے اقبال کے یہاں بھی انگریز دشمنی کا جذبہ قریب قریب مفقود ہے۔ انگریز دشمنی اور جذبہ حریت سیاسی شاعری کی دوسری اہم جہت ہے۔ بعض لوگوں کو اکبر الہ آبادی کے یہاں اس کا دھوکا ہو سکتا ہے، لیکن اکبر بھی اصلاً انگریزی حکومت کے نہیں بلکہ انگریزوں کی پھیلائی ہوئی مغربی تہذیب کے اور سرسید تحریک کے مخالف تھے۔ اقبال کے یہاں بھی سامراج دشمنی اول اول مغربی تہذیب کی مخالفت کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی۔
تحریک آزادی یا جذبہ حریت کا واضح سیاسی احساس وطنی احساس سے ملاجلا اس دور میں البتہ چکبست کے یہاں ملتا ہے، لیکن ان کے یہاں بھی آزادی کی لگن اور جوش وخروش تو ہے مگر وہ باغیانہ تڑپ اور سیاسی جورواستبداد کے خلاف احتجاج کی ویسی شدید لے نہیں جو حسرت موہانی کا طرۂ امتیاز ہے۔ سیاسی جور واستبدال یا سامراج کے خلاف احتجاج کی لے سیاسی شاعری کی تیسری جہت کہی جا سکتی ہے۔ حسرت کے یہاں یہ باغیانہ تڑپ نظم میں نہیں غزل میں سامنے آئی، جو اس زمانے کے مذاق شعر کو دیکھتے ہوئے آسان نہ تھا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے بعد اردو شاعری میں یہ رنگ عام ہوتا گیا، اگرچہ غزل میں اسے نسبتاً زیادہ زمانہ طے کرنا پڑا۔
اس میں شک نہیں کہ اکبر الہ آبادی نے طنزومزاح کے لیے زیادہ تر غزل کا فارم برتا، لیکن اکبر کا وار مغرب کی نقالی پر تھا نہ کہ مغرب کی سرمایہ داری اور سامراجیت پر۔ بعد میں انھوں نے سیاسی نوعیت کے شعر بھی کہے لیکن ان کا رویہ زیادہ تر منفی ہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے اور اپنے ’’مدخولۂ گورنمنٹ‘‘ ہونے کا احساس انھیں ہمیشہ رہا۔ ان کے مقابلے میں حسرت ہرطرح اور ہر معاملے میں آزاد تھے۔ مکمل آزادی ان کا نصب العین اور بغاوت ان کا شعار تھی۔ چنانچہ اس معاملے میں حسرت اپنے عہد کے تمام شاعروں سے بشمول اکبر و اقبال کے بالکل الگ تھے۔
سیاسی شاعری کے جن تین پہلوؤں کا ذکر اوپر کیا گیا یعنی اول وطنی شاعری، دوسرے جذبہ حریت کی شاعری اور تیسرے سیاسی ظلم وستم اور بے انصافیوں کے خلاف احتجاج کی شاعری، ان میں پہلی نوعیت کی شاعری ہردور میں مل جاتی ہے۔ لیکن اس پر بہار اسی زمانے میں آتی ہے جب سامراجی استحصال جاری ہو۔ دوسری نوعیت کی شاعری یعنی جس کا بنیادی محرک جذبۂ حریت ہو، حصول آزادی کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ اردو میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رہی تیسری نوعیت کی شاعری یعنی سیاسی ظلم وستم اور جورواستبداد کے خلاف احتجاج کی شاعری تو یہ ہر دور اور ہر عہد میں پائی جا سکتی ہے جیسا کہ آزادی کے بعد بھی برصغیر کے دونوں ملکوں یا تیسری دنیا کے ملکوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے اس نوعیت کی اکا دکا مثالیں حسرت سے بھی پہلے مل جائیں، لیکن جس وسیع پیمانے پر پوری باغیانہ شدت اور گہرے سیاسی احساس کے ساتھ حسرت کے یہاں ان جذبات کا اظہار ہوا، اس سے پہلے کی شاعری میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اردو غزل میں حسرت ہی اس رنگ کے بانی قرار پائیں گے۔ چنانچہ اردو غزل کی سیاسی جہت صحیح معنوں میں پہلے پہل حسرت ہی کے ہاتھوں روشن ہوئی۔ حسرت کی عشقیہ شاعری ہمارا عزیز سرمایہ ہے جس کے لیے وہ ہمیشہ محبت سے یاد کیے جائیں گے۔ لیکن وہ بات جس کے لیے ان کا نام احترام سے لیا جائےگا، ان کی یہ تاریخی اہمیت ہے کہ انھوں نے غزل میں سامراج اور سیاسی جور واستبداد کے خلاف آواز بلند کی اور تغزل کے آداب برتتے ہوئے غزل کو وسیع پیمانے پر باغیانہ سیاسی و قومی شاعری کے لیے استعمال کیا۔
——
حواشی
——
(۱) نگار حسرت نمبر ’’کچھ حسرت کے بارے میں‘‘ ص، ۲۲
(۲) نگار حسرت نمبر، ص، ۸۷
(۳) ایضاً، ص، ۶۰
(۴) نگار حسرت نمبر، ’’حسرت کے شاعرانہ مرتبے کا تعین‘‘، ص، ۹۵
(۵) حسرت موہانی از عبد الشکور، طبع سوم، ۱۹۵۳ء، ص، ۲۲، ۲۳
(۶) اصل مصرع یوں ہے، حب وطن مست خواب دیکھیے کب تک رہے۔
(۷) ترقی پسند ادب، طبع اول، علی گڑھ، ۱۹۵۱ء، ص، ۱۶۵
(۹) ترقی پسند ادب، ص، ۱۶۷۔ ۱۶۶۔ ۱۶۵
(۱۰) نگار، ص، ۸۸
(۱۱) نگار حسرت نمبر، سید سلیمان ندوی ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘، ص، ۱۱۲، نیز ملاحظہ ہو، حالات حسرت، سلسلہ حالات نظر بندان اسلام، دہلی ۱۳۳۷ھ، ص، ۱۰
(۱۲) ’’ہماری زبان‘‘ مراسلہ خورشید سلطانہ عفت موہانی، یکم مارچ ۱۹۵۸ء، ص، ۱۱)
(۱۳) نگار حسرت نمبر، ص، ۷۴
(۱۴) فن وشخصیت غزل نمبر، بمبئی ۱۹۷۸ء، ص، ۳۷۹
(۱۵) دیوان جوہر، مرتبہ نور الرحمن، لاہور، ۱۹۶۲ء، ص، ۱۶
(۱۶) محمد حسن کالج میگزین جونپور، سہیل نمبر ’’مولانا سہیل کی شاعری‘‘ از آل احمد سرور، ص، ۲۵
(۱۷) نگار حسرت نمبر، ص، ۱۰۹
(۱۸) نگار حسرت نمبر، سید سلیمان ندوی ’’حسرت کی سیاسی زندگی‘‘، ص، ۱۱۱۔ نیز حسرت مولانا از عبد الشکور، ص، ۲۲
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ