اردوئے معلیٰ

Search

آج شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی کا یومِ وفات ہے۔

جگر مراد آبادی
(پیدائش: 6 اپریل، 1890ء- وفات: 9 ستمبر، 1960ء)
——
جگر مراد آبادی کو اپنے عہد میں جو شہرت اور مقبولیت ملی اس کی کوئی مثال ملنی مشکل ہے۔ان کی یہ مقبولیت ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی بدولت تھی جب ان کی شاعری ارتقائی منازل طے کر کے منظر عام پر آئی تو سارے ملک کی شاعری کا رنگ ہی بدل گیا اور بہت سے شعراء نے نہ صرف ان کے رنگِ کلام کی بلکہ ترنّم کی بھی نقل کرنے کی کوشش کی اور جب جگر اپنا انداز ترنم بدل دیتے تو اس کی بھی نقل ہونے لگتی۔بہرحال دوسروں سے ان کے شعری انداز یا لحن کی نقل تو ممکن تھی لیکن ان کی شخصیت کی نقل محال تھی۔جگر کی شاعری حقیقی معنوں میں ان کی شخصیت کا آئینہ تھی۔اس لئے جگر ،جگر رہے،ان کے ہمعصروں میں یا بعد میں بھی کوئی ان کے رنگ کو نہیں پا سکا۔
جگر مراد آبادی کا نام علی سکندر تھا اور وہ 1890ء میں مرادآباد میں پیدا ہوئے۔جگر کو شاعری ورثہ میں ملی تھی،ان کے والد مولوی علی نظر اور چچامولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور شہر کے با عزت لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔جگر کے مورث اعلی محمد سمیع دہلی سے تعلق رکھتے تھے اور شاہجہاں کے دربار سے وابستہ تھے لیکن شاہی عتاب کے نتیجہ میں مرادآباد میں آ کر بس گئے تھے۔جگر کے والد، خواجہ وزیر لکھنوی کے شاگرد تھے ،ان کا مجموعۂ کلام باغ نظر کے نام سے ملتا ہے۔جگر کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور پھر مکتب میں ہوئی مشرقی علوم کے حصول کے بعد انگریزی تعلیم کے لئے انہیں چچا کے پاس لکھنو بھیج دیا گات جہاں انہوں نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔اان کو انگریزی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نویں جماعت میں دو سال فیل ہوئے تھے۔اسی عرصہ میں والد کا بھی انتقال ہو گیا تھا اور جگر کو واپس مرادآباد آنا پڑا تھا۔جگر کو زمانۂ تعلیم سے ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا لیکن طالب علمی کے زمانہ میں وہ اسے منظر عام پر نہیں لائے۔جگر آزاد طبیعت کے مالک تھے اور بیحد حسن پرست تھے۔تعلیم ترک کرنے کے بعد ان کے چچا نے انہیں مرادآباد میں ہی کسی محکمہ میں ملازمت دلا دی تھی اور ان کے گھر کے پاس ہی ان کے چچا کے ایک تحصیلدار دوست رہتے تھے جنہوں نے اک طوائف سے شادی کر رکھی تھی۔جگر کا ان یہاں آنا جانا تھا ۔اس وقت جگر کی عمر 15-16 سال تھی اور اسی عمر میں تحصیلدار صاحب کی بیوی سے عشق کرنے لگے اور انہیں ایک محبت نامہ تھما دیا جو انہوں نے تحیلد ار صاحب کےحوالہ کر دیا اور تحصیلدار صاحب نے وہ جگر کے چچا کو بھیج دیا۔چچا کو جب ان کی حرکت کی خبر ملی تو انہوں نے جگر کو لکھا کہ وہ ان کے پاس پہنچ رہے ہیں ۔گھبراہٹ میں جگر نے بڑی مقدار میں بھانگ کھا لی۔بڑی مشکل سے ان کی جان بچائی گئی جس کے بعد وہ مرادآباد سے فرار ہو گئے اور کبھی چچا کو شکل نہیں دکھائی۔کچھ ہی عرصہ بعد چچا کا انتقال ہو گیا تھا۔
مرادآباد سے بھاگ کر جگر آگرہ پہنچے اور وہاں اک چشمہ ساز کمپنی کے سفری ایجنٹ بن گئے۔اس کام میں جگر کو جگہ جگہ گھوم کر آرڈر لانے ہوتے تھے۔شراب کی لت وہ زمانہ طالب علمی ہی میں لگا چکے تھے۔ان دوروں میں شاعری اور شراب ان کی ہمسفر رہتی تھی۔آگرہ میں انہوں نے وحیدن نام کی ایک لڑکی سے شادی کر لی تھی۔وہ اسے لے کر اپنی ماں کے پاس مرادآباد آ گئے۔کچھ ہی دنوں بعد ماں کا انتقال ہو گیا۔جگر کے یہاں وحیدن کے ایک رشتہ کے بھائی کا آنا جانا تھا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ جگر کو وحیدن کے چال چلن پر شک پیدا ہوا اور یہ بات اتنی بڑھی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے۔وحیدن نے چھ ماہ ان کا انتظار کیا پھراسی شخص سے شادی کر لی۔جگر بے سرو سامان اور بے یار و مددگار تھے۔ اور اس نئی ذہنی و جذباتی اذیت کا مداوا ان کی شراب نوشی بھی نہیں کر پا رہی تھی۔اسی عرصہ میں وہ گھومتے گھامتے گونڈہ پہنچے جہاں ان کی اصغر گونڈوی سے ملاقات ہوئی۔اصغر نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا ،ان کو سنبھالا،ان کی دلدہی کی اور اپنی سالی نسیم سے ان کا نکاح کر دیا۔ اور جگر ان کے گھر کے اک فرد بن گئے۔ مگر سفر، شاعری اور شراب نوشی نے جگر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ازدواجی زندگی کی بیڑی بھی ان کو باندھ کر نہیں رکھ سکی۔
جگہ جگہ سفر کی وجہ سے جگر مختلف مقامات پر بطور شاعر متعارف ہو چکے تھے۔ شاعری کے ارتقائی مرحلہ میں بھی جگراس طرح کے اچھے شعر کہہ کیتے تھے ۔۔۔”ہاں ٹھیس نہ لگ جائے اے درد غم فرقت*دل آئینہ خانہ ہے آئینہ جمالوں کا” اور۔”آہ رو لینے سے بھی کب بوجھ دل کا کم ہوا*جب کسی کی یاد آئی پھر وہی عالم ہوا”۔کچھ شاعری کی مقبولیت کا نشہ ۔کچھ شراب کا نشہ اور کچھ پیشہ کی ذمہ داریاں،غرض جگر بیوی کو چھوڑ کر مہینوں گھر سے غائب رہتے اور کبھی آتے تو دوچار دن بعد پھر نکل جاتے۔بیوی اپنے زیور بیچ بیچ کر گھر چلاتی۔جب کبھی گھر آتے تو زیوربنوا بھی دیتے لیکن بعد میں پھر وہی چکّر چلتا۔اس صورتحال نے اصغر کی پوزیشن بہت خراب کر دی تھی کیونکہ انوتں نے ہی یہ شادی کرائی تھی۔اصغر کی بیوی کا اصرار تھا کہ اصغر نسیم سے شادی کر لیں لیکن وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک ہی گھر میں شرعاً جمع نہیں کر سکتے تھے لہٰذا طے پایا کہ اصغر اپنی بیوی یعنی نسیم کی بڑی بہن کو طلاق دیں اور جگر نسیم کو۔جگر اس کے لئے راضی ہو گئے اور اصغر نے نسیم سے شادی کر لی۔اصغر کی موت کے بعد جگر نے دوبارہ نسیم سے،ان کی اس شرط پرنکاح کیا کہ وہ شراب چھوڑ دیں گے۔ دوسری بار جگر نے اپنی تمام سابقہ کوتاہیوں کی نہ صرف تلافی کر دی بلکہ نسیم کو زیوروں اور کپڑوں سے لاد دیا۔دوسری بار نسیم سے شادی سے پہلے جگر کی تنہائی کا خیال کرتے ہوئے کچھ مخلص لوگوں نے ان پر شادی کے لئے دباو بھی ڈالا تھا اور بھوپال سے کچھ رشتے بھی آئے تھے لیکن جگر راضی نہیں ہوئے۔یہ بھی مشہور ہے کہ مین پوری کی ایک طوائف شیرازن ان سے نکاح کی آرزومند تھی۔
جگر مراد آبادی بہت جذباتی،مخلص،صاف گو،محب وطن اور ہمدرد انسان تھے۔کسی کی تکلیف ان سے نہیں دیکھی جاتی تھی وہ کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوتے تھے۔لکھنو کے وار فنڈ کے مشاعرہ میں ،جس کی صدارت ایک انگریز گورنر کر رہا تھا ،انہوں نے اپنی نظم "قحط بنگال” پڑھ کر سنسنی مچا دی تھی۔کئی ریاستوں کے والی ان کو اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہتے تھے اور ان کی شرائط ماننے کو تیار تھے لیکن وہ ہمیشہ اس طرح کی پیشکش کو ٹال جاتے تھے۔ان کو پاکستان کی شہریت اور عیش و آرام کی زندگی کی ضمانت دی گئی تو صاف کہہ دیا جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔۔گوپی ناتھ امن سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔جب وہ ریاستی وزیر بن گئے اور ایک محفل مشاعرہ میں ان کو شرکت کی دعوت دی تو وہ محض اس لئے شریک نہیں ہوئے کہ دعوت نامہ وزارتی لٹر ہیڈ پر بھیجا گیا تھا۔پاکستان میں ایک شخص جو مرادآباد کا ہی تھا ان سے ملنے آیا اور ہندوستان کی برائی شروع کر دی۔جگر کو غصہ آ گیا اور بولے "نمک حرام تو بہت دیکھے آج وطن حرام بھی دیکھ لیا”
جگر مراد آبادی نے کبھی اپنی شراب نوشی پر فخر نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اس دور کو دور جہالت کہتے رہے بہر حال انہوں نے شراب چھوڑنے کے بعد رمی کھیلنے کی عادت ڈال لی تھی جس میں کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔اس کے لئے وہ کہتے تھے۔”کسی چیز میں غرق رہنا یعنی خودفراموشی میری فطرت ہے یا بن گئی ہے۔خودفراموشی اور وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا چاہئے۔اور میری عادت ہے کہ جو کام بھی کرتا ہوں اس میں اعتدال کی حدوں پر نظر نہیں رہتی۔”جگر آخری زمانہ میں بہت مذہبی ہو گئے تھے 1953ء میں انہوں نے حج کیا۔زندگی کی بے اعتدالیوں نے ان کے اعضائے رئیسہ کو تباہ کر دیا تھا۔1941 میں ان کو دل کا دورہ پڑا ۔ان کا وزن گھٹ کر صرف 100 پونڈ رہ گیا تھا۔1958 میں ان انہیں دل اور دماغ پر قابو نہیں رہ گیا تھا۔ لکھنو میں انہیں دو بار دل کا دورہ پڑا اور آکسیجن پر رکھے گئے۔خواب آور دواوں کے باوجود رات رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔1960 میں ان کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تھا اور لوگوں کو اپنی چیزیں بطور یادگار دینے لگے تھے –
جگر مراد آبادی ایسے شاعر ہیں جن کی غزل قدیم تغزّل اور بیسویں صدی کے وسط و اواخر کی رنگین نگاری کا خوبصورت امتزاج ہے۔جگر شاعری میں اخلاقیات کا درس نہیں دیتے لیکن ان کی شاعری کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے۔وہ تغزّل کے پردہ میں انسانی خامیوں پر ضربیں لگاتے گزر جاتے ہیں جگر نے قدیم اور جدید تمام شعراء کی فکر سے استفادہ کیا۔وہ بہت زیادہ آزاد نہ سہی لیکن مکتبی معائب سخن کی زیادہ پروا نہیں کرتےتھے۔ وہ فکر اور غنائیت کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر قربان نہیں کرتے۔ان کا کلام بے ساختگی اور آمد سے معمور ہے سرمستی اور دلفگاری،تاثر اور سرشاری ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ان کی زندگی اور ان کی شاعری میں مکمل مطابقت ہے محاکات کے اعتبار سے اکثر مقامات ایسے ملیں گے کہ مصور کے تمام کمالات ان کی تصویر کشی کے سامنے ہیچ نظر آئیں گے۔جگر حسن و عشق کو مساویانہ درجہ دیتے ہیں ان کے نزدیک حسن اور عشق دونوں ایک دوسرے کا عکس ہیں۔جگر نے تغزل کو معراج کمال تک پہنچا دیا اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
——
جگر مرادآبادی اور ایک نعتیہ مشاعرہ
ڈاکٹر شمس کمال انجم
——
رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی پچپن ہی سے حسن پرست واقع ہوئے تھے۔ آٹھ نو سال کی عمر تھی جب اپنے چچا کے ایک کرایہ دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔اس کے بعد وحیدن، روشن فاطمہ،نسیم،سندری ، مندری اور شیرازن جیسی عورتوں کے حسن کاوہ شکار ہوتے رہے ور ان کے عشق میں بیمار بھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمرمیں انگورکی بیٹی سے تعارف ہوا اور جب یہ کافر ادا منہ لگی تو پھر چھڑائے نہ چھٹی۔ لاکھ توبہ کرتے مگر انگور کی بیٹی ایک بار جب ان کے سامنے آجاتی توبہ دھری کی دھری رہ جاتی۔کبھی لہراکے پی جاتے تو کبھی شرماکے پی جاتے اور کبھی رحمت تمام کو باتوں باتوں میں بہلاکے پی جاتے۔شراب ان کی گھٹی میں اپنامستقربنا چکی تھی اوران کی شیروانی میں بوتل ہمیشہ پڑی ملتی۔کبھی اپنے مرشد حضرت اصغرؔ گونڈوی سے دعا کی درخواست کرتے اور اپنے ہی جیسا نرگس مستانہ بنانے کی فرمائش کرتے تو کبھی شاہ عبد الغنی منگلوری کے در پر حاضر ہوکررہنمائی کی التجا کرتے ۔ وہ اپنی رندی وبلانوشی پرنادم بھی ہوتے اور شرمندہ بھی ۔ اسے ترک کرنے کی کوشش بھی کرتے مگرجس دل پر پیہم وار لگے ہوں اس کے کاری زخم کو شراب کے علاوہ اور کس شے سے قرار مل سکتا تھا۔وہ آوارہ ہوگئے تھے، عینک فروشی سے جو کچھ ہاتھ آتا اسے شراب میں لٹادیتے اور عالم مدہوشی میںان کا جذبۂ شوق جدھر لے جاتا وہ پھرتے رہتے۔کئی کئی دن گھر نہیں آتے۔ جانے کہاں کہاں بیٹھ کر شراب پیتے رہتے۔جیسے جیسے دل پر وار ہوتا،ضرب لگتی دل کی آہ شاعری بن جاتی۔بڑی سادگی سے وہ اپنے قلب وجگرکے سوز پنہاں کو شاعری کے پیکر میں ڈھال دیتے۔جیسے جیسے درد بڑھتارہا، شغل مے نوشی اور بادہ نوشی میں اضافہ ہوتا رہا اور شاعری پروان چڑھتی رہی۔جب جگر کے مخصوص ترنم میں ان کا مخصوص کلام سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا تو دلوں میں گھر کرلیتا، سامعین جھوم جھوم جاتے عش عش کر اٹھتے۔وہ دن مشاعروں کے موسم بہار اور اردو شعر وادب کے عروج کے دن تھے۔جگر مراد آبادی کا نام ہی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت بن گیا تھا۔ شاعری کی شہرت کے ساتھ مے نوشی میں بلا کا اضافہ ہوگیا تھا۔ منتظمین مشاعرہ انہیں بھر بھر کر پلاتے اور جی بھر کر سنتے اور حظ اٹھاتے۔کبھی شراب کے لیے انہیں عینکوں کاکاروبار کرنا پڑتا تھا مگراب یہ حالت تھی کہ انہیں شراب پلانے میں لوگ اپنی سعادت سمجھنے لگے تھے۔مشاعرہ جگرؔ اور شراب لازم ملزوم بن گئے تھے۔کوئی مشاعرہ جگرؔ کے بغیر کامیاب تسلیم نہیںکیا جاتا تو جگرؔ شراب کے بغیر کچھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے اور جب پڑھتے تو ایسا کلام سامنے آتا کہ گلی کوچوں میں مدتوں دہرایا جاتا۔مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی مذاق میں بھی کہہ دیتا’’ وہ دیکھوجگر صاحب آرہے ہیں‘‘تو بے شمار آنکھیں اس طرف اٹھ جاتیں۔
جگر مراد آبادی نے ہمیشہ شغل مے نوشی کی اور صرف غزلیں کہیں۔جن دنوں بھوپال ہاؤس میں جگر صاحب ٹھہرے ہوئے تھے نعت کے مشہور شاعراور زائرحرم کے خالق جناب حمیدؔ صدیقی بھی وہیں ٹھہرے ہوئے تھے اور جگرؔصاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حمیدؔ صدیقی ان سے ملنے آئے جگر ؔعالم سرشاری میں لیٹے ہوئے کوئی غزل گنگنا رہے تھے۔ تپائی پر بوتل رکھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی حمیدؔ صدیقی پر نظر پڑی وہ گھبراگئے اور کہا میں نے آپ کو منع کیا تھا کہ ایسے وقت میرے پاس نہ آیا کریں۔ انہوں نے کہا حرج ہی کیا ہے۔ میں آپ کے اس شغل سے واقف بھی ہوںاور معترض بھی نہیں۔ جگرصاحب نے کہا بات معترض ہونے کی نہیں ہے اس عالم میں اگر میں آپ سے نعت سنوں تو کیسے سنوں۔ اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔
جگر مراد آبادی جیسے شرابی شاعر کا یہ اعلیٰ شعور۔ اللہ اکبر! جگرؔ نے کبھی نعت نہیں کہی صرف غزلیں کہتے رہے اور دل کا غبار کاغذ پر اُنڈیلتے رہے۔جگرؔ صاحب نے پہلی نعت اجمیر کے مشاعرے کے لیے کہی۔اس نعت کا عجیب وغریب شان نزول پاکستان کے مشہورومعروف تذکرہ وخاکہ نگار ڈاکٹر ساجد حمید نے کچھ ا س طرح بیان کیاہے :
’’ اجمیر میں نعتیہ مشاعرہ تھا، فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مراد آبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے ، وہ کھلے رند تھے اورنعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کانام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت اختلاف پیداہوگیا۔ کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔
در اصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔ بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائق اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند مولوی حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود مولوی حضرات بھی اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمین مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔکو مدعو کیا جانا چاہیے۔یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عظمت کا اس سے بڑااعتراف نہیں ہوسکتاتھا۔جگر مراد آبادی کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ ’’میں رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! نہیں صاحب نہیں‘‘ ۔
اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ا ن کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔
سرہانے بوتل رکھی تھی، اسے کہیں چھپادیا، دوستوںسے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے، شیرازن سے ہمارا رشتہ فراق کا ہے لیکن شراب سے تو نہیں لیکن مجھے نعت لکھنی ہے ، شراب کا ایک قطرہ بھی حلق سے اتراتو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، شاید یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شایدمجھ پر اس کملی والے کا کرم ہوجائے، شایدخدا کو مجھ پر ترس آجائے۔
ایک دن گزرا، دودن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارش انوار ہوگئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
——
مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔ کونین کی دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ انہوں نے کئی دن سے شراب نہیں پی تھی، لیکن حلق خشک نہیں تھا۔ادھر تو یہ حال تھا دوسری طرف مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ بپھرے ہوئے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھاکہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔وہ کئی دن پہلے اجمیر پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گا۔جگر مراد آبادی اپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرارہے تھے
——
کہاں پھر یہ مستی کہاں ایسی ہستی
جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں
——
آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔
’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی!‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا…’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعت رسول پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے
——
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ
——
جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی زبان سے شعر ادا ہورہا ہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہورہا ہے۔نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہوگئے، اختلاف ختم ہوگئے، رحمت عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی۔’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی۔ اس نعت کے باقی اشعار یوں ہیں:
——
دامان نظر تنگ و فراوانیِ جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم یادِ خدا ور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امت عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِسلطان مدینہ
——
منتخب کلام
——
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگر
اسی خانہء خراب نے مارا
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
شکوہء موت کیا کریں کہ جگر
آرزوئے حیات نے مارا
——
دونوں ہی جفا جو ہیں جگر عشق ہو یا حسن
اک یار نے لوٹا مجھے ایک یار نے مارا
——
جان ہی دے دی جگر نے آج پاۓ یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
——
تیرے جگر کی تجھ سے التجا یہی ہے
اپنے جگر کو اپنے دل سے جدا نہ کرنا
——
نہ لٹتے ہم! مگر ان مست انکھڑیوں نے جگر
نظر بچاتے ہوۓ ڈبڈبا کے لوٹ لیا
نہ اب خودی کا پتہ ہے،نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لطف کو لطفِ خدا نے لوٹ لیا
——
خون جگر کا اک شعر تر کی صورت
اپنا ہی عکس جس میں اپنا ہی رنگ بھرنا
——
مختصر ہے ، شرح ہستی ، اے جگر
زندگی ہے خواب ، اجل تعبیر خواب
——
اشعار بن کے نکلیں جو سینہ جگر سے
سب حبسن یار کی تھیں ، بے ساختہ ادائیں
——
کہاں پھر یہ ہستی؟ کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی میخواریاں ہیں
——
عشق خود اپنی جگہ عین حقیقت ہے جگر
عشق ہی میں کیوں نہ نشان دلبری پیدا کریں
——
ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگر
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں
——
قفس کی یاد میں پھر جی یہ چاہتا ہے جگر
لگا کے آگ نکل جاؤں آشیانے کو
——
دعویٰ کیا تھا ضبط محبت کا اے جگر
ظالم نے بات بات پہ تڑپا دیا مجھے
——
اداسی طبیعت پہ چھا جائے گی
انہیں جب میری یاد آئے گی
شب غم کرشمے دکھا جائے گی
کمی آنسوؤں کی رلا جائے گی
میرے بعد ڈھونڈو گے میری وفا
مرے ساتھ میری وفا جائے گی
مجھے اس کے در پر ہے مرنا ضرور
مری یہ ادا اس کو بھا جائے گی
——
کیا لطف پوچھتے ہو پرشوق زندگی کے
جی جی اٹحا ہوں مر کے مر مر گیا ہوں جی کے
بے حکم عشق مر کے بے اذن عشق جی کے
کرتے ہیں مفت ضائع اوقات زندگی کے
دیکھا تو اس جگہ پر لاکھوں ہیں زخم تازہ
حاصل ہوئی تھی فرقت جس زخم دل کو سی کے
فیض بہار سے ہے۔عالم یہ تازگی کا
گویا برس رہے ہیں انوار زندگی کے
اک اک سے پوچھتے وہ میری حالت دل
قربان اس ادا کے اس بے تکلفی کے
——
دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
اللہ اب یہ حال تمھاری نظر کا ہے
اس سمت دیکھتی بھی نہیں رخ جدھر کا ہے
سب سے جدا اصول تمھاری نظر کا ہے
سب رفتہ رفتہ داغ الم دے گۓ مگر
محفوظ ہے وہ زخم جو پہلی نظر کا ہے
میرے دل حزیں میں کہاں تاب اضطراب
جو کچھ کمال ہے وہ تمھاری نظر کا ہے
کس طرح دیکھوں جلوہء جاناں کو بے حجاب
پردہ پڑا ہوا مرے آگے نظر کا ہے
پیہم ہجوم یاس سے آتا نہیں یقین
تم میرے سامنے ہو یا دھوکا نظر کا ہے
——
جب تو کچھ ظرف ہے اے دل ترے پیمانے کا
راز میخانے سے باہر نہ ہو میخانے کا
عرصہ حشر کہاں،یہ دل برباد کہاں
وہ بھی چھوٹا سا ہے ٹکڑا اسی ویرانے کا
اس کی تصویر کسی طرح کھنچ نہیں سکتی
شمع کے ساتھ جو تعلق ہے جو پروانے کا
جرعہء مے کی ادائیں نگہء ناز میں ہیں
چشم مخمور میں کل راز ہے میخانے کا
جذبہء شوق نے دم لینے کا موقع نہ دیا
شمع منہ دیکھتی ہی رہ گئی پروانے کا
——
صبر کے ساتھ مرا دل بھی لۓ جائیں آپ
اس قدر رحم میرے حال پہ فرمائیں آپ
دیکھۓ میری تمناؤں کا احساس رہے
باغ فردوس میں تنہا نہ چلے جائیں آپ
کر دیا درد محبت نے مرا کام تمام
اب کسی طرح کی تکلیف نہ فرمائیں آپ
نالے کرتے ہوۓ رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
——
اردوئے معلیٰ پہ جگر مراد آبادی کی تمام نگارشات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ