آج خوب صورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر خالد محبوب کا یوم پیدائش ہے

——
خوبصورت لب و لہجے کے شاعر محمد خالد جو کہ ادبی دنیا میں خالد محبوب کے نام سے علیحدہ پہچان رکھتے ہیں، آپ یکم جنوری 1982ءکو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ تجارت کے پیشے سے منسلک ہیں. شاعری کاباقاعدہ آغاز 2012 میں کیا. اور بہت کم وقت میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے
خوبصورت لب و لہجے کا یہ شاعر خالد محبوب جتنے خوبصورت اشعار کہتا ہے اس سے کہیں زیادہ ملنسار اور نفیس طبیعت کا حامل ہے ۔
——
ادبی افق کا چاند ، خالد محبوب از سید خرم پیرزادہ
——
نئے فکری تال میل سے ہم آہنگی، منفرد خیال کا لوبھ، مقصدیت کی رنگ آمیزی، زبان کی چاشنی، تغزل کی حسن کاری، شاعرانہ جمال پسندی، معنویت سے بھرپور شعری مزاج، مثبت نقطۂ نظر اور روایت کے ساتھ جدید ڈکشن کی آمیزش جیسے دشوار گزار مراحل سے گزر کر ہی ایک شاعر اسلوب سازی دریافت کرتا ہے۔
محض جذباتی شاعری تخلیقی رچاؤ کا جزوِ خاص نہیں ہو سکتی۔ ایک پختہ قلم کار ہمیشہ حقیقت پسند اور مثبت رویہ رکھنے والی شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ ندرت بیانی کے لیے حیات افروز شاعری وہی ہے جس میں فکرو تدبر، عقل و بصیرت اور اخلاقی قدریں بروئے کار لائی جائیں۔
"روشنی سمیٹی ہے” اس مجموعۂ کلام کو پڑھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ شاگرد نے اپنے استاد اظہر فراغ سے استفادہ کرنے کے باوجود اپنا رنگِ سخن خود وضع کیا ہے۔ انفرادی احساس سے بھرپور اشعار خالد محبوب کے خاص اندازِ فکر سے لبریز ہیں۔ شستگی اور سہولت سے غزل کہنا خالد محبوب کا خاصہ ہے۔ اس کی شاعری میں خوش گوئی اور خوش فکری سے محبت کا جذبہ نمایاں ہے۔ خالد محبوب کے ہاں شعری موازنہ اور شعری مقابلہ بالکل بھی نہیں وہ اپنے خاص اندازِ بیاں سے سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : راحت اندوری کا یوم پیدائش
——
اگرچہ شاعری کو دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے لیکن خالد محبوب کا جاندار لب و لہجہ اسے خود سری کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ عام طور پر شاعر پزیرائی ملنے پر بددماغی اور خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر آنے والے دنوں میں یہی عمل اس کی زوال پزیری کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ خالد محبوب جانتا ہے کہ اسے پروفیشنلزم سے بچنا ہے اور اسے میٹریلسٹک نہیں ہونا۔
جبھی تو کہتا ہے
——
ہجر کو موت میں سمجھتا تھا
مجھ کو لیکن بخار تک نہ ہوا
——
دورِ آفت میں رجحان ساز شاعری کا وجود نہایت ضروری ہے۔
——
کمانے کیا لگے ہیں چار پیسے
کہ بچے بولتے ہیں سامنے سے
——
مثبت ادبی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ایک شاعر کو دوسرے شاعر کا احترام کرنا ہو گا
——
آسماں دسترس میں ہوتا ہے
ہم اگر ایڑیاں اٹھاتے ہیں
——
اے خدا اُن کی جھولیاں بھر دے
خالی آئے ہیں جو مزاروں سے
——
خالد محبوب کی شاعری میں احساسِ دوستی نمایاں ہے وہ دوست کی قدر و منزلت کا قائل ہے۔ شعر دیکھئے
——
اتنی خوشی ملی کہ سنبھالی نہیں گئی
دو چار لمحے مجھ پہ لٹانے کا شکریہ
——
خالد محبوب کی شاعری میں ناقدری کا دکھ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
——
لوگ خود کو خدا سمجھ بیٹھیں
اس قدر عاجزی سے کیا حاصل
——
ناز کس بات کا مسافر کو
راستے خود رسائی دیتے ہیں
——
تعریف اس کے کام کی مہنگی پڑی مجھے
وہ شخص اپنے دام بڑھانے پہ آ گیا
——
خالد محبوب کی شاعری رخ شناس ہونے کے ساتھ دل شناس اور زندگی کی نبض شناس بھی ہے۔
——
جھوٹ بولیں اگر مہارت سے
آپ جیسا خطاب کر لیں گے
——
آپ سے کب ادھار مانگا ہے
کس لیے اتنی بے رخی بھائی
——
بات کیوں کر رہے ہو اوروں کی
تم نے کیا میرے ساتھ کم کی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : ثاقب لکھنوی کا یوم پیدائش
——
میں غلط کو غلط سمجھتا ہوں
چاہے وہ شخص ہو بڑا مجھ سے
——
ذرا اس شعر میں خیال کی رعنائی ملاحظہ فرمائیں۔
——
آپ کے ہونٹ خوبصورت ہیں
کیا انہیں بولنا پسند نہیں !
——
عام حالات میں ہیجان انگیزی ، پھکڑ پن، عصبیت ، سطحیت، یاسیت، اہانت، مادیت پرستی، غیر ذمے دارانہ رویہ اور غیر حقیقت پسندی شاعر کے لیے بے حد نقصان دہ عوامل ہیں۔ مجھے خوشگوار حیرت ہے خالد محبوب ان سے دور ہے۔
——
میں کبھی بدگماں نہیں ہوتا
لوگ میرے بھی کان بھرتے ہیں
——
حالات اکثر خالد محبوب
لہجے کڑوے کر دیتے ہیں
——
میری جانب نہ ایسے دیکھا کر
تیرا احسان مار دیتا ہے
——
insomnia کا شکار شاعر جمالیاتی پیکر تراشنے میں مصروفِ عمل سہی لیکن وہ نہ خود سر مست ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو سر مست کرتا ہے۔ شاعری میں رجائیت اور حوصلہ مندی کا پیغام ضروری ہے اس لیے قنوطیت پسندی کو رد کرنا ہو گا۔
——
اب کہاں ممکن رہا مل بیٹھنا
چل رہا ہے جس طرح کا دور جی
——
مجھ کو طعنہ بے وفائی کا نہ دیں
آخری خط آپ کا موجود ہے
——
وہ مجھ سے کام بھی لیتے ہیں دگنا
مری تنخواہ بھی روکی ہوئی ہے
——
زندگی کی جیب خالی ہو گئی
یہ محبت کتنا مہنگا شوق ہے
——
رکھّے ہوئے ہیں نظریں پرندے زمین پر
کیا ان کو رزق ملتا نہیں آسمان سے
——
خالد محبوب ادبی افق کا چاند ہے اور اس نے اپنے سورج سے جو روشنی سمیٹی ہے وہ اردو ادب کے لیے موزوں ہے۔ اس کی شاعری میں امکانی وجود روشن ہے۔ آئندہ وقت میں مجھے امید ہے لوگ خالد محبوب کی شاعری کے معترف ہوں گے۔
——
منتخب کلام
——
لفظ خود نعت کے امکان میں آ جاتے ہیں
جب بھی سرکار مرے دھیان میں آ جاتے ہیں
ذکر ان کا ہو تو ہر سانس مہک جاتی ہے
پھول احساس کے گلدان میں آ جاتے ہیں
ہم تعارف کے بھی محتاج نہیں دنیا میں
انکی نسبت ہی سے پہچان میں آ جاتے ہیں
آنکھ جب چومتی ہے لفظ تو میرے آقا
مسکراتے ہوئے قرآن میں آ جاتے ہیں
خواب میں بھی جو مدینے سے پلٹتا ہوں میں
چند آنسو مرے سامان میں آ جاتے ہیں
بات ناموس رسالت کی اگر آ جائے
ہم کفن باندھ کے میدان میں آ جاتے ہیں
آپ کی پیروی کرنے سے کھلا ہے مجھ پر
ضابطے جینے کے انسان میں آ جاتے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : نظر کا دھوکہ ہے نام و نمود لا موجود
——
رقم اتنی اکٹھی ہو گئی تھی
مگر وہ چیز مہنگی ہو گئی تھی
ہم اتنی گرمجوشی سے ملے تھے
ہماری چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی
تمھارے بعد جتنا روئے تھے ہم
طبیعت اتنی اچھی ہو گئی تھی
سمجھ کر ہم دوائی پی گئے تھے
تمھاری بات کڑوی ہو گئی تھی
پلٹ آنا ہی بنتا تھا وہاں سے
ہمارے ساتھ جتنی ہو گئی تھی
ہوئی تھی دیر سے ہم کو محبت
ہماری جلد شادی ہو گئی تھی
سبھی محبوب اٹھ کر جا رہے تھے
کہانی اتنی لمبی ہو گئی تھی
——
تم یہ سمجھ رہے تھے نشانے پہ آ گیا
میں گھوم پھر کے اپنے ٹھکانے پہ آ گیا
دربان سے الجھنے کا یہ فائدہ ہوا
باہر وہ میرے شور مچانے پہ آ گیا
تعریف اس کے کام کی مہنگی پڑی مجھے
وہ شخص اپنے دام بڑھانے پہ آ گیا
تصویر اسکی گھر میں لگانے کی دیر تھی
مالک مکان مجھ کو اٹھانے پہ آ گیا
پھر یوں ہوا کہ پیاس ہی محبوب مر گئی
جس وقت میں کنویں کے دہانے پہ آ گیا
——
چھوڑ جائیں گے قافلے والے
ہم تو ہیں پیڑ راستے والے
خواب پہلی اذان پر ٹوٹا
ہم تھے دریا میں کودنے والے
دیکھ ! آیا ہوا ہے آنکھوں میں
زہر کانوں میں گھولنے والے
آپ سے اپنا اک تعلق ہے
ہم نہیں لوگ واسطے والے
اک زمانہ تھا عید آنے پر
ہم مناتے تھے روٹھنے والے
مجھ کو تسلیم کیوں نہیں کرتے
میری تصویر چومنے والے
شرم سے آپکی جھکی پلکیں
ورنہ تو ہم تھے ڈوبنے والے
ہر قدم پھونک پھونک رکھنا ہے
دیں نہ دیں ساتھ مشورے والے
ڈھیل دینے سے بچ گئے محبوب
ورنہ رشتے تھے ٹوٹنے والے
——
خوش ہیں بچے ناشتہ موجود ہے
گھر میں کھانا رات کا موجود ہے
تم چلے جاؤ گے تو دیکھیں گے ہم
کیا نہیں ہے اور کیا موجود ہے
بات میری تم سمجھ سکتے نہیں
گھر میں کیا کوئی بڑا موجود ہے
دل دھڑکتا ہے تمھارے نام پر
آج بھی یہ سلسلہ موجود ہے
واسطہ دوں گا نہ اپنے پیار کا
جانا ہے تو راستہ موجود ہے
مجھ کو طعنہ بے وفائی کا نہ دیں
آخری خط آپ کا موجود ہے
بات جو اس میں نہیں بنتی میاں
دوسرا بھی قافیہ موجود ہے
——
یہ بھی پڑھیں : جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں
——
ٹھوکر سے دوسروں کو بچانے کا شکریہ
پتھر کو راستے سے ہٹانے کا شکریہ
اب یہ بتائیں آپ کی میں کیا مدد کروں
فرضی کہانی مجھ کو سنانے کا شکریہ
میرے بہت سے کام ادھورے نہیں رہے
اے دوست اتنے روز نہ آنے کا شکریہ
تنہا نہیں رہا ترے جانے کے بعد میں
کچھ اجنبی غموں سے ملانے کا شکریہ
اتنی خوشی ملی کہ سنبھالی نہیں گئی
دو چار لمحے مجھ پہ لٹانے کا شکریہ
محبوب تیرے ہجر میں کرتا ہوں شاعری
مجھ کو کسی ٹھکانے لگانے کا شکریہ