اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو زبان کے معروف شاعر کرشن موھن کا یوم وفات ہے۔

کرشن موہن (پیدائش: 28 نومبر 1922ء- وفات: 27 جنوری 2004ء)
——
کرشن موہن نے نومبر 1922 میں آنکھیں کھولیں ۔ اقبال جیسے عالمگیر شاعر اور سدرشن ایسے فطرت نگار کہانی کار کی طرح سیالکوٹ ہی کرشن موہن کا آبائی وطن ہے ۔
کرشن موھن سیالکوٹ میں ہی پڑھے لکھے ۔ پھر لاہور کی علمی و ادبی فضا میں اُن کی ذہنی پرورش ہوئی ۔ وہ ایک شاعر باپ ، گنپت رائے صاحب شاکرؔ کے چشم و چراغ ہیں ۔ شاکرؔ صاحب کو بحیثیت شاعر کم لوگ جانتے ہیں ، کرشن موہن کو زیادہ جانتے ہیں ۔
یہ کرشن موھن کی شگفتگیٔ فکر کا ہی نتیجہ تھا کہ اُن کا کلام شروع ہی سے لاہور کے ” ادبِ لطیف ” ، ” ہمایوں ” اور دوسرے بلند پایہ رسائل میں جگہ پانے لگا ۔
اگر چہ اسی زمانے میں ان سے سینیر شعرا کا کلام ہفتہ وار یا روزانہ اخباروں ے دائرے میں محدود رہتا تھا ۔
کرشن موھن فارسی زبان کے بھی سرگرم طالب علم رہے ہیں ۔ انگریزی لٹریچر میں بھی انہوں نے اعلیٰ تعلیم پائی اور فلسفہ بھی ان کے مطالعہ کا موضوع رہا ہے ۔
مرے کالج سیالکوٹ کے پروفیسر محمد دین کے ان کے ادبی ذوق کو بہت نکھارا ۔ وہ لاہور میں حلقہ اربابِ ذوق میں اٹھتے بیٹھتے اور سنتے سناتے رہے ۔
دہلی آ کر بھی یہ سلسلہ بہت دنوں تک جاری رہا ۔ اس کے بعد انکم ٹیکس آفیسر بن گئے ۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں کرشن موھن قصداََ افادیت پسندی کے قائل نہیں ہیں ۔ اور وہ خود کہتے ہیں کہ :
——
سخن تیرا ستم ہے کرشن موہنؔ
کسی پیغام کا حامل نہیں ہے
——
کرشن موھن کا فن بیشتر فن کے لیے مقصود ہے ۔ پھر بھی افادیت کے پہلو غیر شعوری طور پر اُن کے کلام میں جھلکتے نظر آئیں گے ۔
” شبنم شبنم ” میں کرشن موہن کی غزلیں بھی ہیں ۔ مختصر اور طویل دونوں قسم کی ۔ یہ اچھا کیا کہ انہوں نے اس کی درجہ بندی کر دی ہے ۔
اس میں اُن کی نظمیں بھی ہیں ، رباعیاں اور قطعے بھی ۔ یہ دور طویل نظموں کا نہیں ۔ غزال واپس آ گئی ہے ۔ اور اس کو نیم وحشی دور کی صنفِ سخن قرار دینے والے بھی اس کی ہمہ گیری اور آفاقی قدروں کے قائل ہونے لگے ہیں ۔
کرشن موھن بھی غزل کی رعنائیوں سے بچ نہ سکے ۔ قافیہ اور ردیف کی حدود میں رہ کر بھی وہ شعر کہتے ہیں اور آزاد رہ کر بھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے نامور افسانہ نگار کرشن چندر کا یوم پیدائش
——
ن م راشد ، اخترالایمان ، میرا جی اور بعض دوسرے ہم عصر شعرا کی طرح کرشن موھن نے بھی آزاد نظموں کے تجربے میں شرکت کی ہے لیکن ان کا اندازِ فکر ہر تجربے میں بوقلموں ہے ۔
غزل کو کرشن موھن کی طبیعت سے کتنی مناسبت ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ خود اعتمادی کرشن موہن کی خاصیتِ مزاج ہے اسی لیے انہوں نے کہا بھی ہے :
——
رس کی لہر ایک ایک شعر اُس کا
ہاں غزل چھیڑ کرشن موہنؔ کی
——
خوگرِ تسلیم کر دوں گا انہیں
اور کچھ دن میں اگر جیتا رہا
——
کیفیتِ غم پر چند اشعار ملاحظہ کیجیے :
——
وہ طبیعت جو خوگرِ غم نہ ہو
غم سے کب بے نیاز ہوتی ہے
تو مجھے غم میں سرنگوں نہ سمجھ
یہ تو میری نماز ہوتی ہے
——
نہیں جس میں فروزاں آتشِ غم
مرے نزدیک وہ دل ، دل نہیں ہے
——
جب سے اپنا لیا ہے غم نے مجھے
غم بھی اک کیفیت خوشی کی ہے
——
الم کے سانپ اُن پر دے رہے تھے رات دن پہرے
بھلا کس طرح پا سکتے خوشی کے مخزنوں کو ہم
——
ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر غم پسند ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے لیے غم پسند ہونا ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس کا شعر نکھرتا نہیں ہے ۔
کرشن موہن کی نظر بلند اور اندازِ فکر جداگانہ ہے ۔ ان کے کلام میں یوماََ فیوماََ پختگی بڑھ رہی ہے ۔ وہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے والے شاعروں میں کسی سے پیچھے نہیں ۔
کرشن موھن کے کلام میں جمالیاتی عنصر بہت زیادہ ہے ۔ حسنِ تخیل اور لطافتِ احساس کی کمی نہیں ۔ رومانی میلانات کے باعث رنگینی و رعنائی پائی جاتی ہے ۔
——
بشیشور پرشاد منور لکھنوی دہلی ، 7 مارچ 1960 ء
بحوالہ : شبنم شبنم ، 1960 ء ، صفحہ نمبر 7 تا 16
——
منتخب کلام
——
گرچہ نام و نسب سے ہندو ہوں
کملی والے میں تیرا سادھو ہوں
تیری توصیف ہے مری چہکار
میں ترے باغ کا پکھیرو ہوں
——
ایک کیونکر نہ ھوں محمود و ایاز
ساغرِ وحدت ھے جامِ مصطفےٰ
——
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے
——
وہ کیا زندگی جس میں جوشش نہیں
وہ کیا آرزو جس میں کاوش نہیں
——
جب بھی کی تحریر اپنی داستاں
تیری ہی تصویر ہو کر رہ گئی
——
جب بھی ملے وہ ناگہاں جھوم اٹھے ہیں قلب و جاں
ملنے میں لطف ہے اگر ملنا ہو کام کے بغیر
——
کریں تو کس سے کریں ذکر خانہ ویرانی
کہ ہم تو آگ نشیمن کو خود لگا آئے
——
بابِ حسرت داستانِ شوق تصویر امید
لمحہ لمحہ زندگی اوراق الٹتی جائے ہے
——
یہ بھی پڑھیں : بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا یوم پیدائش
——
زندگی کے آخری لمحے خوشی سے بھر گیا
ایک دن اتنا ہنسا وہ ہنستے ہنستے مر گیا
——
کیا یہ بھی زندگی ہے کہ راحت کبھی نہ ہو
ایسی بھی تو کسی سے محبت کبھی نہ ہو
وعدہ ضرور کرتے ہیں، آتے نہیں کبھی
پھر یہ بھی چاہتے ہیں، شکایت کبھی نہ ہو
شامِ وصال بھی، یہ تغافل، یہ بے رُخی
تیری رضا ہے مجھ کو مسرّت کبھی نہ ہو
احباب نے دیئے ہیں مجھے کس طرح فریب
مجھ سا بھی کوئی سادہ طبیعت کبھی نہ ہو
لب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اُٹھ بڑھ کے چُوم لے
آنکھوں کا یہ اشارہ کہ جرات کبھی نہ ہو
دل چاہتا ہے پھر وہی فُرصت کے رات دن
مجھ کو تیرے خیال سے فُرصت کبھی نہ ہو
——
زندگی کے آخری لمحے خوشی سے بھر گیا
ایک دن اتنا ہنسا وہ ہنستے ہنستے مر گیا
بجھ گیا احساس طاری ہے سکوت بے حسی
درد کا دفتر گیا سامان شور و شر گیا
شخص معمولی مرا جو مال وافر چھوڑ کر
مرتے مرتے تہمتیں چند اپنے ذمے دھر گیا
اس قدر سنجیدہ تھا وہ دفعتاً بوڑھا ہوا
اور پھر اک دوپہر بیوی کو بیوہ کر گیا
دور درشن پر طرب آگیں تماشا دیکھ کر
خوش ہوا وہ اس قدر مارے خوشی کے مر گیا
در حقیقت موت کا مطلب تو ہے نقل مکاں
جس طرح کمرے کے اندر سے کوئی باہر گیا
کرشن موہنؔ یہ بھی ہے کیسا اکیلا پن کہ لوگ
موت سے ڈرتے ہیں میں تو زندگی سے ڈر گیا
——
عمر بڑھتی جا رہی ہے زیست گھٹتی جائے ہے
جسم کی خوشبو کی خواہش دور ہٹتی جائے ہے
سوچ میں بھی اب نہیں پہلا سا تیور اور لوچ
شوق کی دیوار گرد غم سے اٹھتی جائے ہے
بے مزہ ہونے لگی ہے زندگی بعد شباب
رات ابھی باقی ہے لیکن نیند اچٹتی جائے ہے
آ رہی ہے سکھ ملن کی چمپئی اجلی سحر
دکھ کی یہ بے چین اندھیری رین کٹتی جائے ہے
یاس کے حساس لمحوں میں بھی ہے کتنا سرور
شاہدہ امید کی مجھ سے لپٹتی جائے ہے
کام کی افراط میں دفتر کے ہنگاموں میں بھی
تیری یاد آئے توجہ میری بٹتی جائے ہے
ہے بدن چور اور کومل کس قدر چت چور شام
جیسے شرمیلی دلہن خود میں سمٹتی جائے ہے
ہے وہ چنچل کامنی محبوب سارے شہر کو
دیکھ کر جس کو نظر میری پلٹتی جائے ہے
باب حسرت داستان شوق تصویر امید
لمحہ لمحہ زندگی اوراق الٹتی جائے ہے
جاگ اٹھی ہے جیو جیوتی آس اور وشواس کی
کرشن موہنؔ کالما دبدھا کی چھٹتی جائے ہے
——
یہ بھی پڑھیں : پاکستان کے معروف شاعر تاج سعید کا یوم وفات
——
مکاں اندر سے خستہ ہو گیا ہے
اور اس میں ایک رستہ ہو گیا ہے
انہیں منظور کرنا ہی پڑے گا
عریضہ دست بستہ ہو گیا ہے
سیاسی رہنماؤں کی بدولت
ہمارا خون سستا ہو گیا ہے
کمان جسم ہے موجود لیکن
شباب اک تیر جستہ ہو گیا ہے
زبوں ہے اس قدر دنیا کی حالت
ہمارا غم بھی خستہ ہو گیا ہے
شکستہ اور پسپا کرشنؔ موہن
ہمارا فوجی دستہ ہو گیا ہے
——
البیلی کامنی کہ نشیلی گھڑی ہے شام
سر مستیوں کی سیج پہ ننگی پڑی ہے شام
بے کل کیے ہے رین کے رسیا کا انتظار
غمگیں ہے حسن شوخ کہ حیراں کھڑی ہے شام
چمکا دیا ہے اس کے شراروں نے فکر کو
احساس عشق و حسن کی اک پھلجڑی ہے شام
تاباں ہے تیرا چہرہ کہ ہے جلوۂ سحر
رخشاں ہے تیری مانگ کہ تاروں جڑی ہے شام
روٹھے ہوئے دلوں کو بھی اس نے منا لیا
من موہنی ہے کامنی چنچل بڑی ہے شام
جانے کب آئے آج سا ہنگام دل نواز
یارو اٹھاؤ جام گھڑی دو گھڑی ہے شام
——
ملا ایک گونہ سکوں ہمیں جو تمہارے ہجر میں رو لیے
ذرا بار قلب سبک ہوا کئی داغ درد کے دھو لیے
ہو نشاط دل کہ ملال دل ہمیں پیش کرنا جمال دل
کبھی ہنس کے پھول کھلا لیے کبھی روکے موتی پرو لیے
ہے رہین غم مری جستجو یہ ہے کیسا گلشن رنگ و بو
یہاں کچھ گلو کی تلاش میں کئی خار میں نے چبھو لیے
کئی عمر دوڑتے بھاگتے رہے یوں تو شب کو بھی جاگتے
کبھی تھک گئے تو ٹھہر گئے کبھی نیند آئی تو سو لئے
سبھی لوگ مست شعور ہیں کہ خودی کے نشے میں چور ہیں
کوئی غم شناس نہیں یہاں غم دل کسی پہ نہ کھولیے
یہ انہیں کا نور ہے جس میں ہم چلے حوصلے سے قدم قدم
جو سرشک غم کے بہا لیے جو دیے وفا کے سنجو لیے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ