اردوئے معلیٰ

Search

آج فلمی نغمہ نگار اور شاعر مجروح سلطانپوری کا یوم پیدائش ہے


——
(1 اکتوبر 1919ء – 24 مئی 2000ء)
——
سوانحی خاکہ از خلیق انجم
——
ایک دفعہ میں نے مجروح صاحب سے ان کا سن ولادت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ یقین کے ساتھ تو کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن کچھ شواہد ایسے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 1915 ء یا 1916ء میں اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں قصبہ گجہڑی میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن مجروح کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے نے انگریزی میں مجروح کا جو مختصر سوانی خاکہ مرتب کیا ہے اس کے مطابق وہ پہلی اکتوبر 1919 کو پیدا ہوئے تھے۔
مجروح سلطانپوری کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چونکہ مجروح انجمن ترقی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔
مجروح سلطانپوری کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے اس لیے خاصے لاڈ و پیار سے پائے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔
جب مجروح کو اسکول بھیجنے کا وقت آیا تو خلافت تحریک شباب پڑھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔
ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔
——
یہ بھی پڑھیں : سقوطِ ڈھاکہ
——
ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بے کار ہے اور پھر1933ء میں لکھنو کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔
مجروح سلطانپوری بہت ذہین طالب علم تھے اور طالب علمی ہی کے زمانے میں طب پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔
جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔
حکیم ابن کا ایک مختصر سا مقالہ "چراغ” کے مجروح نمبر میں شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ :
"مجروح سلطانپوری کو ابتدا ہی سے علم موسیقی سے لگاؤ تھا اور دلچسپی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لکھنؤ کے میوزک کالج میں انہوں نے داخلہ لے لیا تھا۔ میرے نزدیک طالب علمی کے زمانے میں اس طرح کا شوق نا مناسب تھا (ظاہر ہے یہ وہ زمانہ تھا جب مجروح طبیہ کالج کے طالب علم تھے) اسی لیے میں نے ان کے والد محترم کو بذریعہ خط مطلع کر دیا۔ ان کے والد نے اس پر اپنی شدید ناگواری کا اظہار کیا اور میوزک کالج جانے سے منع کر دیا۔ مجروح نے وہاں جانا بند کر دیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا”۔
ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست حکیم ابن نے رسالہ "چراغ” (بمبئی) میں لکھا ہے:
"مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرض اصلاح روانہ کی ، مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : چرواہا
——
مجروح سلطانپوری نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا”۔
اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فن شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔ ان کی ذہنی تربیت میں پروفیسر رشید احمد صدیقی اور جگر مرادآبادی کا بہت ہاتھ تھا۔
اگرچہ ان دونوں سے مجروح کا رشتہ استاد اور شاگرد کا نہیں تھا۔ رشید احمد صدیقی صاحب سے تو معاملہ یہ تھا کہ رشید صاحب نے مجروح میں ایک بڑے شاعر کو دیکھ لیا تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ مجروح عربی ، فارسی اور اردو کے کلاسیکی ادب کا بہت اچھا مطالعہ کریں۔
مجروح سلطانپوری کو یونی ورسٹی میں داخلہ مل نہیں سکتا تھا۔ اس لیے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے تین سال تک انہیں اپنے گھر پر رکھا، جہاں مجروح نے کلاسیکی ادب کا بہت اچھی مطالعہ کیا۔
یہ بات 1945 ء کی ہے۔ مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے جگر صاحب کے ساتھ بمبئی گئے۔ وہاں مشاعرے میں جب انہوں نے اپنا کلام سنایا تو فلموں کے صف اول کے ڈائرکٹر کاردار، مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے۔
ان دنوں کاردار "شاہجہاں” نام سے ایک فلم بنا رہے تھے۔ نوشاد، میوزک ڈائرکٹر تھے۔ کاردار نے مجروح کو پانچ ہزار روپے مہینے کی ملازمت کی پیش کش کی۔ مجروح اتنی بڑی تنخواہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے فوراً منظور کر لیا۔ انہوں نے اس فلم کے گانے لکھے، نوشاد نے موسیقی دی اور سہگل پر یہ گانے فلمائے گئے۔
ان گانوں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج بھی لوگ ان پر سر دھنتے ہیں۔ مجروح نے فلمی زندگی کے پچپن (55) برسوں میں تقریباً ساڑھے تین سو گانے اردو اور تین بھوجپوری میں لکھے۔ ان کے پچانوے فیصد گانوں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
انجمن ترقی اردو (ہند) نے مجروح کے کلام کا پہلا مجموعہ 1953ء میں "غزل” کے نام سے شائع کیا تھا۔ بعد میں اس مجموعہ کلام کے کئی اڈیشن شائع ہوئے اور کئی ایڈشنوں میں بعد کے کلام کا اضافہ بھی ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
1949ء میں بقول جناب معین احسن جذبی (چراغ، بمبئی): جب کمیونسٹ پارٹی نے ریلوے اسٹرائک کا نعرہ دیا تو سارے ہندوستان میں جگہ جگہ کمیونسٹ گرفتار ہونے لگے۔ چوں کہ مجروح کمیونسٹ پارٹی کے باقاعد ممبر تھے اور انہوں نے مزدوروں کے حق میں شعر کہے تھے، اس لیے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہ ایک سال تک جیل میں رہے۔
اپنی شاعری اور فلمی گانوں کی وجہ سے انہیں دنیا کے ان تمام چالیس پینتالیس ممالک میں شہرت حاصل ہوئی جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ روس، امریکہ، کنیڈا، فرانس، موریشس اور خلیجی ممالک میں ان کے اعزاز میں جلسے ہوئے اور انہیں انعامات سے نوازا گیا۔
ان کی شاعری کے انتخاب کا ایک ترجمہ کنیڈا کے جناب بیدار بخت اور میری اینی ارکی [Marie-Anne Erki] نے کیا ہے۔ جو "نیور مائنڈ یور چینس [Never Mind Your Chains]” کے نام سے روپا اینڈ کمپنی (اشاعت: اپریل 1999) سے شائع ہو چکا ہے۔
عرصے سے مجروح سلطانپوری کے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی، جب یہ تکلیف بہت بڑھ گئی تو ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں 24 مئی 2000 کی شب ان کا انتقال ہو گیا۔
——
منتخب کلام
——
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
——
یہ شوق کامیاب ، یہ تم ، یہ فضا ، یہ رات
جی چاہتا ہے روک دوں بڑھ کر سحر کو میں
——
چمن میں آتشِ گل پھر سے بھڑکانے بھی آئیں گے
خزاں آئی تو اب صحرا سے دیوانے بھی آئیں گے
——
اس طرح سے کچھ رات کو ٹوٹے ہیں ستارے
جیسے وہ تری لغزشِ پا دیکھ رہے ہیں
——
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں ، بات ہے زمانے کی
——
تری چشمِ شوخ کو کیا ہوا ، نہیں ہوتی آج حریفِ دل
مرے زعمِ عشق کی خیر ہو ، یہ کسے نظر سے گرا دیا
——
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم
——
یوں تو آپس میں بگڑتے ہیں خفا ہوتے ہیں
ملنے والے کہیں الفت میں جدا ہوتے ہیں
ہیں زمانے میں عجب چیز محبت والے
درد خود بنتے ہیں خود اپنی دوا ہوتے ہیں
حال دل مجھ سے نہ پوچھو مری نظریں دیکھو
راز دل کے تو نگاہوں سے ادا ہوتے ہیں
ملنے کو یوں تو ملا کرتی ہیں سب سے آنکھیں
دل کے آ جانے کے انداز جدا ہوتے ہیں
ایسے ہنس ہنس کے نہ دیکھا کرو سب کی جانب
لوگ ایسی ہی اداؤں پہ فدا ہوتے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : مشہور و معروف شاعر لیاقت علی عاصمؔ کا یومِ پیدائش
——
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
شام تنہائی کی ہے آئے گی منزل کیسے
جو مجھے راہ دکھا دے وہی تارا نہ رہا
اے نظارو نہ ہنسو مل نہ سکوں گا تم سے
تم مرے ہو نہ سکے میں بھی تمہارا نہ رہا
کیا بتاؤں میں کہاں یوں ہی چلا جاتا ہوں
جو مجھے پھر سے بلا لے وہ اشارہ نہ رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
وہ لجائے میرے سوال پر کہ اٹھا سکے نہ جھکا کے سر
اڑی زلف چہرہ پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
وہی بات جو وہ نہ کہہ سکے مرے شعر و نغمہ میں آ گئی
وہی لب نہ میں جنہیں چھو سکا قدح شراب میں ڈھل گئے
وہی آستاں ہے وہی جبیں وہی اشک ہے وہی آستیں
دل زار تو بھی بدل کہیں کہ جہاں کے طور بدل گئے
تجھے چشم مست پتہ بھی ہے کہ شباب گرمیٔ بزم ہے
تجھے چشم مست خبر بھی ہے کہ سب آبگینے پگھل گئے
مرے کام آ گئیں آخرش یہی کاوشیں یہی گردشیں
بڑھیں اس قدر مری منزلیں کہ قدم کے خار نکل گئے
——
تقدیر کا شکوہ بے معنی جینا ہی تجھے منظور نہیں
آپ اپنا مقدر بن نہ سکے اتنا تو کوئی مجبور نہیں
یہ محفل اہل دل ہے یہاں ہم سب مے کش ہم سب ساقی
تفریق کریں انسانوں میں اس بزم کا یہ دستور نہیں
جنت بہ نگہ تسنیم بہ لب انداز اس کے اے شیخ نہ پوچھ
میں جس سے محبت کرتا ہوں انساں ہے خیالی حور نہیں
وہ کون سی صبحیں ہیں جن میں بیدار نہیں افسوں تیرا
وہ کون سی کالی راتیں ہیں جو میرے نشے میں چور نہیں
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے
کہتا ہے مگر یہ عزم جنوں صحرا سے گلستاں دور نہیں
مجروحؔ اٹھی ہے موج صبا آثار لیے طوفانوں کے
ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں
——
حوالہ جات
——
تحریر : خلیق انجم ، کتاب مجروح فہمی ، مرتب : آصف اعظمی
شائع شدہ 2019 ، صفحہ نمبر 49 سے 52
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ