آج اپنے عہد کے منفرد و بے مثل شاعر محبوب خزاں کا یوم پیدائش ہے

(پیدائش: یکم جولائی 1930ء – وفات: 4 دسمبر 2013ء)
——
استاد محبوب خزاں از حنا بلال
——
لکھنے والوں کے لئے محبوب خزاں نے کیا پتے کی بات ایک شعر میں سمو دی
——
میَں تمھیں کیسے بتاﺅں کیا کہوں
کم کہوں، اچھا کہوں، اپنا کہوں
——
استاد محبوب خزاں کی شخصیت خوب تھی، وہ مشاعروں کے شاعر نہ تھے۔ ان کا ایک ہی مختصر سا مجموعہ ہے ” اکیلی بستیاں” صرف اسی صفحات کا، شاید احمد ہمیش ضد نہ کرتے تو یہ اردو شاعری محبوب خزاں کی خوبصورت نظموں، گیت، اور غزلوں سے تہی داماں رہ جاتی ۔ ان کی شاعری جذب و جنوں اور واردات قلبی کا حاصل ہے۔ ان کے ایک اور مجموعہ ”دوسری محبت “ آج تک شائع نہ ہوسکا۔ جانے ان کا یہ کلام محفوظ ہے یا نہیں۔
:محبوب خزاں کے کئی اشعار تو ایسے ہیں جو برسہا برس سے زباں زد عام ہیں
——
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
——
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے کون
جینا وعدہ خلافی ہے
——
محبوب خزاں کا اصل نام محبوب صدیقی تھا ۔ وہ کئی برس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات رہے۔مشاعرے اور کرکٹ سے انھیں بہت رغبت تھی۔ ایک دن کٹ کھلاڑی کے قاسم عمر کے اعزاز میں پی سی میں ایک تقریب تھی۔ ان کا فون آیا کہ مجھے اس تقریب میں شرکت کے لئے دعوت نامہ چاہیئے۔ منتظمین سے رابطہ کیا تو پتہ چلا دعوت نامے ختم ہوچکے۔ لیکن اگر وہ شرکت کرنا چاہیں تو آجائیں، ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔
——
یہ بھی پڑھیں : محبوب خزاں کا یوم وفات
——
شعبہ تعلقات عامہ کے سربرہ سلیم الدین صدیقی نے انھیں یہ اطلاع دی اور کہا کہ ہمارے افسر آپ کو تقریب میں لے جائیں گے۔ تو انھوں نے سلیم صاحب سے پوچھا کہ اس افسر کا عہدہ کیا ہے؟ بہت رکھ رکھاﺅ اور لئے دیئے رہنے والے تھے۔ تنہائی پسند تھے۔ مشاعروں کا بہت شوق تھا، پڑھنے کے لئے نہ جاتے تھے، صرف سننے کے لئے جاتے اور خاموشی سے عام سامعین میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ ایک بار پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک عالمی مشاعرہ تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، استاد محبوب خزاں وہاں آئے تو کوئی سیٹ خالی نہ تھی، وہ ایک کونے میں کھڑے ہوکر مشاعرہ سننے لگے۔وہ 1952 میںسول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) افسر ہوئے۔ اکاؤنٹیٹ جنرل پنجاب تعینات ہوئے۔30 جون 1990 کو اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اپنے حال میں مست رہتے تھے۔ محبوب صاحب کا تعلق اتر پردیش کے ضلع بلیہ کے موضع چندھیر کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے ، تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ قیام پاکستان کے اگلے برس وہ پاکستان آگئے۔
سول سروس میں ان کی پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاﺅنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی ، پھر ڈھاکہ بھیج دیئے گئے۔ تہران میں بھی رہے، وہیں ان کی ملاقات نون میم راشد سے ہوئی اور خاصی قربت رہی۔ ایک دن ہمارے آنجہانی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر جی ایم پریرا کے گھر جانا ہوا، وہاں استاد محبوب خزاں بھی موجود تھے۔ اس دن کوئی کرکٹ میچ تھا اور وہ وہاں یہ میچ دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے تھیلا کھولا، اس میں سے ایک پیالی، ایک ٹی بیگ، دودھ، چینی کی پڑیاں نکالی، اور پریرا صاحب سے کہنے لگے،” مسٹر پریرا بس مجھے ایک پیالی گرم پانی دے دو،”پریرا کہنے لگے سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں ، کیا ہم آپ کو ایک پیالی چائے بھی نہیں پلا سکتے۔ کہنے لگے،بھئی میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں صرف میچ دیکھنے آﺅں گا۔ باقی میں اپنا انتظام کرکے آیا ہوں۔
——
یہ بھی پڑھیں : خزاں کے مارے ہوئے جانبِ بہار چلے
——
:وہ بہت کم گوتھے۔ مطالعے سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اکثر ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی۔ ان کا ایک شعر ہے
——
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
——
سر شام گھر جانا، واقعی ان کے لئے مشکل تھا۔ اور اس وقت تو اور بھی مشکل ہوتا جب ان کے اکاؤنٹ میں تنخواہ آجاتی۔ جی ایم پریرا ان کے ساتھ جنرل منیجر بجٹ و اکاؤنٹس تھے۔ مہینے میں ایک دو بار انھیں اچانک فون آتا، پریرا آج تمھیں میرے ساتھ جانا ہے۔ شام کو گاڑی میں بیٹھ کر وہ لائینز ایریا اور دیگر نواحی بستیوں میں جاتے، گاڑی آبادی سے دور رکوا کر تھیلا لے کر اکیلے نکل جاتے، اس تھیلے میں بہت سے لفافے ہوتے، جو نوٹ سے بھرے ہوتے۔ پھر وہ یہ لفافے جانے کس کس کو دے کر آتے۔ تھیلہ خالی ہوجاتا ۔ تو کہتے” بس اب بوجھ اتر گیا”۔
ان کی ایک مشہور غزل ہے
——
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلہ کم بہت ہی کم
تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا، کم، بہت ہی کم
——
شعری مجموعے ”اکیلی بستیاں“ میں ان کی شہرہ آفاق نظم ایک زندہ جاوید نظم ہے۔ اس نظم کاڈھنگ اور اسلوب اور غنائیت عجب سحر طاری کر دیتی ہے۔
——
بے کس چمبیلی، پھولے اکیلی،
آہیں بھری دل جلی بھوری پہاڑی،
خاکی فصلیں، دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے، رستوں میں پتھر،
پتھر پہ نیلم پری لہریلی سڑکیں
——
محبت ، آنکھیں، موسم ، حسن ، ان کی شاعری کے خاص موضوعات تھے۔ شاید محبت کا دکھ ان کی زندگی پر محیط ہوکر رہ گیا تھا۔ زندگی بھر شادی نہ کی۔ والدہ سے محبت تھی، جب تک زندگی رہی ان کے لئے ہی جیتے رہے۔کم گو تھے، لیکن کبھی بولنے پر آتے تو خوب بولتے ۔ ادبی محفلوں کا شوق نہ تھا۔ کبھی کبھار دو چار خاص دوستوں ہی میں اپنی ایک ادھ غزل یا شعر سناتے۔ سرکاری خرچ میں بھی کفایت شعاری سے کام لیتے۔ زر ،زمین، زن سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : باغِ جنت سے محمد کی خبر آئی ہے
——
ان کے آخری ایام بھی درویشی کے تھے۔ ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلہ ہی ان کی کل کائنات ہوتی جس میں کچھ پھل یا بسکٹ ہوتے۔ عام بسوں میں سفر کرتے۔ لباس بھی معمولی ہی ہوتا۔کوئی مشکل ہی سے پہچان پاتا کہ بس کا یہ مسافر، بے بدل شاعر ہونے کے ساتھ اعلیٰ سرکاری افسر اور اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے پر فائز رہ چکا ہے۔
: استاد محبوب خزاں کراچی میں ہی پیوند خاک ہوئے ۔ ان کا ایک مصرعہ ہے
——
جو لوگ مر نہیں جاتے وہ زندہ رہتے ہیں
——
منتخب کلام
——
سادہ نگاہی ، کاجل ، آنسو
دل کو لگے تو ہر شے جادو
——
یہ دلنواز اداسی، بھری بھری پلکیں
ارے، ان آنکھوں میں کیا ہے، سنو! دکھاؤ مجھے
——
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے یہ کون
” جینا وعدہ خلافی ہے”
——
دام ہزاروں دل کے لئے
کون چلا منزل کے لئے
دل لے کر اب جائیں کہاں
دنیا چھوڑی دل کے لئے
——
اب اس قدر ستم و جور کے لئے بھی نہیں
یہ زندگی جو کسی اور کے لئے بھی نہیں
——
میں تمہیں کیسے بتاؤں، کیا کہو
کم کہو، اپنا کہو، اچھا کہو
——
پلٹ گئیں جو نگاہیں انہیں سے شکوہ تھا
سو آج بھی ہے مگر دیر ہو گئی شائد
——
پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
جی نہ سکیں اور مرتے جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
خواب میں جیسے جان چھڑا کر بھاگ نہ سکنے والے
بھاگیں اور وہیں رہ جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
——
سکوں پیام اداؤں کو مہرباں دیکھو
سمجھ گئے تو کوئی اور آستاں دیکھو
وہی قیامتِ احساس ہے، جدھر جاؤ
وہی حکایتِ لبریز ہے، جہاں دیکھو
یہ زندگی ہے تمہاری، اگر خرید سکو
نہیں تو خیر، وہی راہِ رفتگاں دیکھو
یہ رنگ جن میں زمانوں کی آگ لرزاں ہے
یہ خوابکارئ جذباتِ رائیگاں دیکھو
یہ نرم خواب سفینے، جزیرہ ہائے تلاش
وہ ہم خرام کناروں کی بستیاں دیکھو
عذابِ دیدہ و دل سے نجات ممکن ہے
تو بھول جاؤ، مگر بھول کر کہاں دیکھو
——
یہ بھی پڑھیں : باغِ سخن نہ ہوگا اس کا خزاں رسیدہ
——
محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
کچھ ایسی بات ہے، انکار بھی کرتے نہیں بنتا
بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے، لیکن کیا کیا جائے
طوافِ موجِ کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے بھی نہیں بنتا
جلاتی ہے دلوں کو سردمہری بھی زمانے کی
سوالِ گرمئ بازار بھی کرتے نہیں بنتا
خزاں ان کی توجہ ایسی ناممکن نہیں، لیکن
ذرا سی بات پر اصرار کرتے بھی نہیں بنتا
——
جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگانِ محفلِ گُل
کلی کو چھیڑتے ہیں، بے کلی سے کھیلتے ہیں
جو کھیل جانتے ہیں اُن کے اور ہیں انداز
بڑے سکون، بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں
خزاں کبھی تو لکھو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
——
حسرتِ آب و گِل دوبارہ نہیں
دیکھ، دنیا نہیں، ہمیشہ نہیں
سادہ کاری، کئ پرت، کئ رنگ
سادگی اک ادائے سادہ نہیں
حالِ دل اتنے پیار سے مت پوچھ
حال آئندہ ہے، گزشتہ نہیں
میں کہیں اور کس طرح جاؤں
تو کسی اور کے علاوہ نہیں
اے ستارو! کسے پکارتے ہو
اس خرابے میں کوئی زندہ نہیں
کبھی ہر سانس میں زمان و مکاں
کبھی برسوں میں ایک لمحہ نہیں
——
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چُپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اب خزاں یہ بھی کہہ نہیں سکتے
تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
——
شعری انتخاب از اکیلی بستیاں ، مصنف : محبوب خزاں
شائع شدہ : 1963 ء ، متفرق صفحات

(پیدائش: یکم جولائی 1930ء – وفات: 4 دسمبر 2013ء)
——
استاد محبوب خزاں از حنا بلال
——
لکھنے والوں کے لئے محبوب خزاں نے کیا پتے کی بات ایک شعر میں سمو دی
——
میَں تمھیں کیسے بتاﺅں کیا کہوں
کم کہوں، اچھا کہوں، اپنا کہوں
——
استاد محبوب خزاں کی شخصیت خوب تھی، وہ مشاعروں کے شاعر نہ تھے۔ ان کا ایک ہی مختصر سا مجموعہ ہے ” اکیلی بستیاں” صرف اسی صفحات کا، شاید احمد ہمیش ضد نہ کرتے تو یہ اردو شاعری محبوب خزاں کی خوبصورت نظموں، گیت، اور غزلوں سے تہی داماں رہ جاتی ۔ ان کی شاعری جذب و جنوں اور واردات قلبی کا حاصل ہے۔ ان کے ایک اور مجموعہ ”دوسری محبت “ آج تک شائع نہ ہوسکا۔ جانے ان کا یہ کلام محفوظ ہے یا نہیں۔
:محبوب خزاں کے کئی اشعار تو ایسے ہیں جو برسہا برس سے زباں زد عام ہیں
——
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیر لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
——
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے کون
جینا وعدہ خلافی ہے
——
محبوب خزاں کا اصل نام محبوب صدیقی تھا ۔ وہ کئی برس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن میں ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر کی حیثیت سے تعینات رہے۔مشاعرے اور کرکٹ سے انھیں بہت رغبت تھی۔ ایک دن کٹ کھلاڑی کے قاسم عمر کے اعزاز میں پی سی میں ایک تقریب تھی۔ ان کا فون آیا کہ مجھے اس تقریب میں شرکت کے لئے دعوت نامہ چاہیئے۔ منتظمین سے رابطہ کیا تو پتہ چلا دعوت نامے ختم ہوچکے۔ لیکن اگر وہ شرکت کرنا چاہیں تو آجائیں، ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔
——
یہ بھی پڑھیں : محبوب خزاں کا یوم وفات
——
شعبہ تعلقات عامہ کے سربرہ سلیم الدین صدیقی نے انھیں یہ اطلاع دی اور کہا کہ ہمارے افسر آپ کو تقریب میں لے جائیں گے۔ تو انھوں نے سلیم صاحب سے پوچھا کہ اس افسر کا عہدہ کیا ہے؟ بہت رکھ رکھاﺅ اور لئے دیئے رہنے والے تھے۔ تنہائی پسند تھے۔ مشاعروں کا بہت شوق تھا، پڑھنے کے لئے نہ جاتے تھے، صرف سننے کے لئے جاتے اور خاموشی سے عام سامعین میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ ایک بار پانچ ستارہ ہوٹل میں ایک عالمی مشاعرہ تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، استاد محبوب خزاں وہاں آئے تو کوئی سیٹ خالی نہ تھی، وہ ایک کونے میں کھڑے ہوکر مشاعرہ سننے لگے۔وہ 1952 میںسول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) افسر ہوئے۔ اکاؤنٹیٹ جنرل پنجاب تعینات ہوئے۔30 جون 1990 کو اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اپنے حال میں مست رہتے تھے۔ محبوب صاحب کا تعلق اتر پردیش کے ضلع بلیہ کے موضع چندھیر کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے ، تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ وہ الٰہ آباد یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ قیام پاکستان کے اگلے برس وہ پاکستان آگئے۔
سول سروس میں ان کی پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاﺅنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی ، پھر ڈھاکہ بھیج دیئے گئے۔ تہران میں بھی رہے، وہیں ان کی ملاقات نون میم راشد سے ہوئی اور خاصی قربت رہی۔ ایک دن ہمارے آنجہانی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر جی ایم پریرا کے گھر جانا ہوا، وہاں استاد محبوب خزاں بھی موجود تھے۔ اس دن کوئی کرکٹ میچ تھا اور وہ وہاں یہ میچ دیکھنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں وہ ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ ان کے پاس ایک تھیلا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے تھیلا کھولا، اس میں سے ایک پیالی، ایک ٹی بیگ، دودھ، چینی کی پڑیاں نکالی، اور پریرا صاحب سے کہنے لگے،” مسٹر پریرا بس مجھے ایک پیالی گرم پانی دے دو،”پریرا کہنے لگے سر یہ آپ کیا کر رہے ہیں ، کیا ہم آپ کو ایک پیالی چائے بھی نہیں پلا سکتے۔ کہنے لگے،بھئی میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں صرف میچ دیکھنے آﺅں گا۔ باقی میں اپنا انتظام کرکے آیا ہوں۔
——
یہ بھی پڑھیں : خزاں کے مارے ہوئے جانبِ بہار چلے
——
:وہ بہت کم گوتھے۔ مطالعے سے بے حد شغف رکھتے تھے۔ اکثر ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی۔ ان کا ایک شعر ہے
——
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
——
سر شام گھر جانا، واقعی ان کے لئے مشکل تھا۔ اور اس وقت تو اور بھی مشکل ہوتا جب ان کے اکاؤنٹ میں تنخواہ آجاتی۔ جی ایم پریرا ان کے ساتھ جنرل منیجر بجٹ و اکاؤنٹس تھے۔ مہینے میں ایک دو بار انھیں اچانک فون آتا، پریرا آج تمھیں میرے ساتھ جانا ہے۔ شام کو گاڑی میں بیٹھ کر وہ لائینز ایریا اور دیگر نواحی بستیوں میں جاتے، گاڑی آبادی سے دور رکوا کر تھیلا لے کر اکیلے نکل جاتے، اس تھیلے میں بہت سے لفافے ہوتے، جو نوٹ سے بھرے ہوتے۔ پھر وہ یہ لفافے جانے کس کس کو دے کر آتے۔ تھیلہ خالی ہوجاتا ۔ تو کہتے” بس اب بوجھ اتر گیا”۔
ان کی ایک مشہور غزل ہے
——
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلہ کم بہت ہی کم
تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا، کم، بہت ہی کم
——
شعری مجموعے ”اکیلی بستیاں“ میں ان کی شہرہ آفاق نظم ایک زندہ جاوید نظم ہے۔ اس نظم کاڈھنگ اور اسلوب اور غنائیت عجب سحر طاری کر دیتی ہے۔
——
بے کس چمبیلی، پھولے اکیلی،
آہیں بھری دل جلی بھوری پہاڑی،
خاکی فصلیں، دھانی کبھی سانولی
جنگل میں رستے، رستوں میں پتھر،
پتھر پہ نیلم پری لہریلی سڑکیں
——
محبت ، آنکھیں، موسم ، حسن ، ان کی شاعری کے خاص موضوعات تھے۔ شاید محبت کا دکھ ان کی زندگی پر محیط ہوکر رہ گیا تھا۔ زندگی بھر شادی نہ کی۔ والدہ سے محبت تھی، جب تک زندگی رہی ان کے لئے ہی جیتے رہے۔کم گو تھے، لیکن کبھی بولنے پر آتے تو خوب بولتے ۔ ادبی محفلوں کا شوق نہ تھا۔ کبھی کبھار دو چار خاص دوستوں ہی میں اپنی ایک ادھ غزل یا شعر سناتے۔ سرکاری خرچ میں بھی کفایت شعاری سے کام لیتے۔ زر ،زمین، زن سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : باغِ جنت سے محمد کی خبر آئی ہے
——
ان کے آخری ایام بھی درویشی کے تھے۔ ہاتھ میں کپڑے کا ایک تھیلہ ہی ان کی کل کائنات ہوتی جس میں کچھ پھل یا بسکٹ ہوتے۔ عام بسوں میں سفر کرتے۔ لباس بھی معمولی ہی ہوتا۔کوئی مشکل ہی سے پہچان پاتا کہ بس کا یہ مسافر، بے بدل شاعر ہونے کے ساتھ اعلیٰ سرکاری افسر اور اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ کے عہدے پر فائز رہ چکا ہے۔
: استاد محبوب خزاں کراچی میں ہی پیوند خاک ہوئے ۔ ان کا ایک مصرعہ ہے
——
جو لوگ مر نہیں جاتے وہ زندہ رہتے ہیں
——
منتخب کلام
——
سادہ نگاہی ، کاجل ، آنسو
دل کو لگے تو ہر شے جادو
——
یہ دلنواز اداسی، بھری بھری پلکیں
ارے، ان آنکھوں میں کیا ہے، سنو! دکھاؤ مجھے
——
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے یہ کون
” جینا وعدہ خلافی ہے”
——
دام ہزاروں دل کے لئے
کون چلا منزل کے لئے
دل لے کر اب جائیں کہاں
دنیا چھوڑی دل کے لئے
——
اب اس قدر ستم و جور کے لئے بھی نہیں
یہ زندگی جو کسی اور کے لئے بھی نہیں
——
میں تمہیں کیسے بتاؤں، کیا کہو
کم کہو، اپنا کہو، اچھا کہو
——
پلٹ گئیں جو نگاہیں انہیں سے شکوہ تھا
سو آج بھی ہے مگر دیر ہو گئی شائد
——
پلکوں پر حسرت کی گھٹائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
جی نہ سکیں اور مرتے جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
خواب میں جیسے جان چھڑا کر بھاگ نہ سکنے والے
بھاگیں اور وہیں رہ جائیں، ہم بھی پاگل تم بھی
——
سکوں پیام اداؤں کو مہرباں دیکھو
سمجھ گئے تو کوئی اور آستاں دیکھو
وہی قیامتِ احساس ہے، جدھر جاؤ
وہی حکایتِ لبریز ہے، جہاں دیکھو
یہ زندگی ہے تمہاری، اگر خرید سکو
نہیں تو خیر، وہی راہِ رفتگاں دیکھو
یہ رنگ جن میں زمانوں کی آگ لرزاں ہے
یہ خوابکارئ جذباتِ رائیگاں دیکھو
یہ نرم خواب سفینے، جزیرہ ہائے تلاش
وہ ہم خرام کناروں کی بستیاں دیکھو
عذابِ دیدہ و دل سے نجات ممکن ہے
تو بھول جاؤ، مگر بھول کر کہاں دیکھو
——
یہ بھی پڑھیں : باغِ سخن نہ ہوگا اس کا خزاں رسیدہ
——
محبت کو گلے کا ہار بھی کرتے نہیں بنتا
کچھ ایسی بات ہے، انکار بھی کرتے نہیں بنتا
بھنور سے جی بھی گھبراتا ہے، لیکن کیا کیا جائے
طوافِ موجِ کم رفتار بھی کرتے نہیں بنتا
اسی دل کو بھری دنیا کے جھگڑے جھیلنے ٹھہرے
یہی دل جس کو دنیا دار بھی کرتے بھی نہیں بنتا
جلاتی ہے دلوں کو سردمہری بھی زمانے کی
سوالِ گرمئ بازار بھی کرتے نہیں بنتا
خزاں ان کی توجہ ایسی ناممکن نہیں، لیکن
ذرا سی بات پر اصرار کرتے بھی نہیں بنتا
——
جنوں سے کھیلتے ہیں، آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہلِ سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگانِ محفلِ گُل
کلی کو چھیڑتے ہیں، بے کلی سے کھیلتے ہیں
جو کھیل جانتے ہیں اُن کے اور ہیں انداز
بڑے سکون، بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں
خزاں کبھی تو لکھو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
——
حسرتِ آب و گِل دوبارہ نہیں
دیکھ، دنیا نہیں، ہمیشہ نہیں
سادہ کاری، کئ پرت، کئ رنگ
سادگی اک ادائے سادہ نہیں
حالِ دل اتنے پیار سے مت پوچھ
حال آئندہ ہے، گزشتہ نہیں
میں کہیں اور کس طرح جاؤں
تو کسی اور کے علاوہ نہیں
اے ستارو! کسے پکارتے ہو
اس خرابے میں کوئی زندہ نہیں
کبھی ہر سانس میں زمان و مکاں
کبھی برسوں میں ایک لمحہ نہیں
——
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چُپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اب خزاں یہ بھی کہہ نہیں سکتے
تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
——
شعری انتخاب از اکیلی بستیاں ، مصنف : محبوب خزاں
شائع شدہ : 1963 ء ، متفرق صفحات