اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے معروف نقاد، محقق اور مترجم مظفر علی سید کا یوم وفات ہے۔

مظفر علی سید (پیدائش: 6 دسمبر، 1929ء – وفات: 28 جنوری، 2000ء)
——
مظفر علی سید 6 دسمبر 1929ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کی تصانیف میں تنقید کی آزادی اور تراجم میں فکشن، فن اور فلسفہ اور پاک فضائیہ کی تاریخ کے نام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کئے۔
——
تصانیف
——
تنقید کی آزادی (تنقید)
پاک فضائیہ کی تاریخ (تاریخ)
یادوں کی سرگم (خاکے)
احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے (ترتیب)
خامہ بگوش کے قلم سے (ترتیب)
سخن در سخن (ترتیب)
سخن ہائے گفتنی (ترتیب)
سخن اور اہل سخن
1001سوال جواب(معلومات عامہ) طبع فیروز سنز
فکشن ، فن اور فلسفہ ( ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کے تراجم)
لسانی و عرضی مقالات ( مجموعہ مضامین)
"تنقید ادبیات اردو”( از سید عابد علی عابد) کا تنقیدی جائزہ
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیب، نقاد اور شاعر ڈاکٹر انور سدید کا یومِ وفات
——
ڈاکٹر روبینہ شاہین نے ان کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی مقالہ لکھا، "مظفر علی سید، ایک مطالعہ "، یہ مقالہ کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکا ہے، یہ مقالہ 2004ء میں پشاور یونیورسٹی میں پیش کیا گیا، نگران مقالہ صابر کلوروی تھے۔
مظفر علی سید نے 28 جنوری 2000ء کو لاہور میں وفات پائی۔
مظفر علی سید لاہور میں کیولری گراؤنڈ قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں
——
مظفر علی سید از ڈاکٹر طاہر مسعود
——
مظفر علی سید جو ادبی حلقے میں ’’سید صاحب‘‘ کہلاتے تھے‘ بیک وقت شاعر‘ نقاد‘ مترجم‘ محقق اور بے حد نفیس و عمدہ انسان تھے جن کی زندگی کی سب سے بڑی سرگرمی اور دل چسپی علم و ادب سے وابستگی تھی‘ جملہ مراسم و تعلقات کا دائرہ بھی علم و ادب سے باہر نہ تھا اور کچھ تھا بھی تو برائے نام۔ اوائل عمر سے مطالعے کی عادت بلکہ چاٹ پر گئی تھی جو آخری سانس تک چھوٹی نہیں۔ مطالعے میں موضوعات کا دائرہ بھی بہت وسیع اور متنوع تھا۔ علم اور ادب کی کون سی شاخ تھی جس میں اپنے مطالعے کی وجہ سے انہیں ادرک حاصل نہ تھا۔ ہاں مگر یہ ضرور ہے کہ جتنا مطالعہ‘ جتنی معلومات اور علم اور ان کی وجہ سے جو ’’نظر‘‘ تھی ان کے پاس‘ اس لحاظ سے ان کی تصانیف کی تعداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں لکھنے سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا۔ لکھا انہوں نے بہت اور بہت خوب لکھا لیکن کتاب کے معاملے میں ان کا جو معیار تھا وہ کچھ ایسا اور اتنا بلند تھا کہ اپنی مرتبہ کوئی کتاب خود ان کی اپنی نظروں میں نہ جچتی تھی۔ بہ قول انتظار حسین وہ اپنی تحریروں کو دشمن کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ کتاب لکھ لیتے یا مضامین کی کتاب مرتب کر لیتے تو پھر نظر ثانی کو بھی ضروری سمجھتے۔ یہ ’’نظر ثانی‘‘ کیا ہوتی‘ اتنی کمی اور اتنا ادھورا پن پاتے اپنے ہی تصنیفی کام میں‘ اتنی میخ نکالتے کہ کتاب کو دن کی روشنی دیکھنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ ہر علم پر اور ادب کی ہر صنف پر ان کا مطالعہ اتنا گہرا اور وسیع تھا کہ غالباً وہ یہ سوچتے تھے کہ جب تک ان کی تحریر یا تصنیف موجود علمی سرمائے میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہ کرے‘ اس کی اشاعت سے حاصل ہی کیا۔ مثلاً اپنے پرانے شائع شدہ مضامین کو مرتب کر لیتے لیکن ’’نظر ثانی‘‘ کے وقت چوں کہ مطالعہ ان کا آگے بڑھ چکا ہوتا تھا اور خیالات میں بھی جزوی یا کلی تبدیلی آچکی ہوتی تھی تو پھر یہ فکر کہ مضمون کو اس طرح نہ چھپنا چاہیے‘ اسے اور بہتر مزید اضافے و ترمیم کے ساتھ کتاب میں شامل ہونا چاہیے۔ یہی تکمیلیت پسندی تھی کہ جب انتظار حسین ان کے مضامین مرتب کرنے نکلے تو معلوم ہوا کہ مضامین جو رسائل میں چھپ چکے تھے‘ سید صاحب تو اپنی زندگی ہی میں ان کی جمع و ترتیب کا کام کر چکے تھے‘ لیکن انہیں چھپوانے اور کتاب لانے میں ان کی دل چسپی بعد میں ختم ہوگئی اور مسودہ جوں کا توں پڑا رہ گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : مظفر حنفی کا یوم پیدائش
——
تو ہمارے سید صاحب کا ’’آئیڈیل ازم‘‘کتاب سازی کے معاملے میں علم و ادب کو نقصان پہنچا گیا۔ انتظار حسین نے ان کے مطبوعہ مضامین کا جو مجموعہ بہ عنوان ’’سخن اور سخن ور‘‘ شائع کرایا‘ اسے پڑھ کر حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کہ کاش یہ مضامین اب سے پہلے کتابی صورت میں سامنے آجاتے جب ملک میں ایک ادبی ماحول زندہ و سرگرم تھا‘ بڑی یا قابل ذکر ادبی شخصیتیں موجود تھیں تو ان مضامین میں ظاہر کیے گئے خیالات اور اٹھائے گئے سوالات پر کچھ بحث و مباحثہ ہوتا‘ گفتگو ہوتی‘ اختلافی یا تائیدی مضامین لکھے جاتے۔ مگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا تو اس لیے کہ سید صاحب کی نظر اور فکر جو علمی و ادبی معاملات پر صائب تھی‘ خود اپنے معاملے میں اپنی تحریروں کی بابت انہیں مغالطہ ہوا اور انہوں نے خواہ مخواہ کھرے کو کھوٹا سمجھ لیا۔ تو ادیب یا نقاد کو اپنی ذات سے توقعات بھی بلند نہ رکھنی چاہیے۔ ادب اور علم کو اس کے ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی اہمیت دینا چاہیے اور اپنے علمی و ادبی مقام کامعاملہ وقت ہی کے حوالے کر دینا چاہیے۔
مظفر علی سید کیا شبہ ہے کہ ادب کے نہایت سچے اور سنجیدہ عاشق تھے۔ دبستان عسکری کے خوشہ چیں‘ ادبی دنیا میں ان کے مقام کا قیاس اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سلیم احمد‘ انتظار حسین اور مشفق خواجہ جیسی شخصیات ان کی قدر داں تھیں اور یہ صورت حال زمانۂ طالب علمی سے رہی کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں جب زیر تعلیم تھے تو کالج کے ذہین طلبہ جنہیں فنون لطیفہ کی کسی بھی صنف سے دل چسپی تھی‘ سید صاحب کو اپنا گرو اور مرشد مانتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے دوہے‘ گیت اور بھجن بھی لکھے‘ بہت اچھے اور عمدہ دوہے لیکن یہ دوہے بھی ’’موجِ دریا‘‘ کے قلمی نام سے پنجاب یونیورسٹی کے رسالہ’’راوی‘‘ اور ’’خیال‘‘ میں چھپے۔ چنانچہ بہ حیثیت دوہا نگار انہیں کوئی پہچان ہی نہ ملی۔ ایک ناول ’’فالتو آدمی‘‘ بھی لکھا جس کا اشتہار ایک ادبی رسالے میں چھپتا رہا۔ وہ ناول بھی منظر عام پر نہ آسکا۔ انہوں نے ایسے بہت سے علمی و ادبی کام کیے جن کی اشاعت کی طرف خود توجہ نہ دی تو یوں کہیے کہ سید صاحب میں جتنے امکانات پوشیدہ تھے‘ وہ پوری طرح ظاہر نہ ہوسکے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مظفر وارثی کا یوم وفات
——
مظفر علی سید 1929ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1956ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ سند یافتہ ہو کر لاہور‘ گوجرانوالہ اور کراچی کے کالجوں میں انگریزی کے استاد رہے۔ 1958ء تک درس و تدریس سے وابستہ رہ کر پاک فضائیہ کے شعبۂ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1991ء میں سال کے لیے پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک اردو اور انگریزی اخبارات میں کالم نویسی بھی کی۔ آخر عمر میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر 29 مئی 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئے۔
مظفر علی سید صاحب کا ڈاکٹر طاہر مسعود دیا گیا انٹرویو اس لنک پہ پڑھا جا سکتا ہے :
——
انٹرویو
——
منتخب کلام
——
ہے کون جو پھولوں کی تمنا نہیں رکھتا
اک سیدؔ دیوانہ کہ دامن میں بھرے خاک
——
سیدیؔ تاریخ میں اک دو برس کچھ بھی نہیں
کشمکش ہے اضطراب دائمی ماتم نہ کر
——
تو مسافر ترے کس کام کی شہرت سیدؔ
یہ سخاوت سر دہلیز رفیقاں دھر جا
——
چننے والا کوئی نہیں سیدؔ
اور بھرے ہیں جہان میں کانٹے
——
بہت نحیف ہے طرز فغاں بدل ڈالو
نظام دہر کو نغمہ گراں بدل ڈالو
دل گرفتہ تنوع ہے زندگی کا اصول
مکاں کا ذکر تو کیا لا مکاں بدل ڈالو
نہ کوئی چیز دوامی نہ کوئی شے محفوظ
یقیں سنبھال کے رکھو گماں بدل ڈالو
نیا بنایا ہے دستور عاشقی ہم نے
جو تم بھی قاعدۂ دلبراں بدل ڈالو
اگر یہ تختۂ گل زہر ہے نظر کے لیے
تو پھر ملازمت گلستاں بدل ڈالو
جو ایک پل کے لیے خود بدل نہیں سکتے
یہ کہہ رہے ہیں کہ سارا جہاں بدل ڈالو
تمہارا کیا ہے مصیبت ہے لکھنے والوں کی
جو دے چکے ہو وہ سارے بیاں بدل ڈالو
مجھے بتایا ہے سیدؔ نے نسخۂ آساں
جو تنگ ہو تو زمیں آسماں بدل ڈالو
——
ہر ایک راہ سے آگے ہے خواب کی منزل
ترے حضور سے بڑھ کر غیاب کی منزل
نہیں ہے آپ ہی مقصود اپنا جوہر ذات
کہ آفتاب نہیں آفتاب کی منزل
کچھ ایسا رنج دیا بچپنے کی الفت نے
پھر اس کے بعد نہ آئی شباب کی منزل
مسافروں کو برابر نہیں زمان و مکاں
ہوا کا ایک قدم اور حباب کی منزل
محبتوں کے یہ لمحے دریغ کیوں کیجے
بھگت ہی لیں گے جو آئی حساب کی منزل
ملے گی بادہ گساروں کو شیخ کیا جانے
گنہ کی راہ سے ہو کر ثواب کی منزل
مسام ناچ رہے ہیں معاملت کے لیے
گزر گئی ہے سوال و جواب کی منزل
ملی جو آس تو سب مرحلے ہوئے آساں
نہیں ہے کوئی بھی منزل سراب کی منزل
مزاج درد کو آسودگی سے راس کرو
کہاں ملے گی تمہیں اضطراب کی منزل
رہ جنوں میں طلب کے سوا نہیں سیدؔ
اگرچہ طے ہو خدا کی کتاب کی منزل
——
قطرے میں بھی چھپے ہیں بھنور رقص کیجیے
قید صدف میں مثل گہر رقص کیجیے
کیجے فسردگیٔ طبیعت کا کچھ علاج
اس خاکداں میں مثل شرر رقص کیجیے
اک نوجواں نے آج بزرگوں سے کہہ دیا
ہوتی نہیں جو عمر بسر رقص کیجیے
سوجے ہیں پاؤں آنکھ سے ہی تال دیجئے
الجھا ہوا ہے تار نظر رقص کیجیے
گردش میں اک ستارۂ بے چارہ ہی نہیں
ہے آسماں بھی زیر و زبر رقص کیجیے
گزرے جو ماہ و سال تو لے بھی بدل گئی
اب کے برس بہ رنگ دگر رقص کیجیے
فریاد کیجیے نہ کوئی ظلم ڈھائیے
اک وہم ہے شکست و ظفر رقص کیجیے
اس طائفے میں ایک کمی ہے تو آپ کی
اے دشمنان علم و ہنر رقص کیجیے
فیشن ہے آج کل کا مداری کی ڈگڈگی
دل چاہے یا نہ چاہے مگر رقص کیجیے
اپنی تو جھونپڑی میں تھرکتا نہیں چراغ
جا کر کسی رقیب کے گھر رقص کیجیے
سیدؔ نہ ریڈیو نہ سنیما ہے آپ کا
اپنے ہی گیت گائیے اور رقص کیجیے
——
سیدؔ تمہارے غم کی کسی کو خبر نہیں
ہو بھی خبر کسی کو تو سمجھو خبر نہیں
موجود ہو تو کس لیے مفقود ہو گئے
کن جنگلوں میں جا کے بسے ہو خبر نہیں
اتنی خبر ہے پھول سے خوشبو جدا ہوئی
اس کو کہیں سے ڈھونڈھ کے لاؤ خبر نہیں
دل میں ابل رہے ہیں وہ طوفاں کہ الاماں
چہرے پہ وہ سکون ہے مانو خبر نہیں
دیکھو تو ہر بغل میں ہے دفتر دبا ہوا
اخبار میں جو چھاپنا چاہو خبر نہیں
نوک زباں ہیں تم کو شرابوں کے نام سب
لیکن نشے کی بادہ پرستو خبر نہیں
کاغذ زمین شور قلم شاخ بے ثمر
کس آرزو پہ عمر گزارو خبر نہیں
سیدؔ کوئی تو خواب بھی تصنیف کیجیے
ہر بار تم یہی نہ سناؤ خبر نہیں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ