اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف نعت گو اور مرثیہ گو شاعر نجم آفندی کا یوم وفات ہے

نجم آفندی(پیدائش: 1893ء – وفات: 21 دسمبر 1975ء)
——
نجم آفندی کا اصل نام میرزا تجمل حسین تھا۔ وہ 1893ء میں آگرہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کے والد بزم آفندی، دادا مرزا عباس علی ملیح، پردادا مرزا نجف علی بلیغ اور پردادا کے بھائی مرزا جعفر علی فصیح، سب شاعر تھے۔
مرزا جعفر علی فصیح کو حاجیوں کی خدمت کرنے پر سلطنت عثمانیہ کی جانب سے آفندی کا خطاب ملا اور یہی اس خاندان کے ناموں کا حصہ بن گیا تھا۔
خاندانی احوال کے زیر اثر نجم کم عمری سے شاعری کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی مشہور نظم در یتیم لکھنؤ میں سنائی تھی۔ اس نظم پر بولی لگائی گئی تھی اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے راجا راولپنڈی نے اسے 5,600 روپیوں میں خریدا تھا (جو 1910ء میں ایک چونکانے والی قیمت تھی)۔ رقم کی وصولی کے بعد نجم نے اسے یتیم خانے کے حوالے کر دیا تھا۔
ترقی آفندی نے پسند تحریک کے وجود میں آنے سے پہلے ہی نجم "کسان”، "مزدور کی آواز”، "ہماری عید” جیسے موضوعات کو اپنے شاعرانہ کلام کا حصہ بنا چکے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ماہر علم عروض مولوی نجم الغنی خان نجمی رام پوری کا یوم پیدائش
——
نجم آفندی اپنی زندگی کے بعد کے ایام میں خالصتًا مذہبی شاعری اور مرثیہ نگاری کے لیے خود کو وقف کر دیا تھا۔
نجم آفندی نے کئی مرثیے، نوحے، قصائد اور رباعیات لکھے تھے، جنہیں بعد میں کلیات کائنات نجم کے نام سے دو جلدوں میں شائع کیا گیا تھا۔
اپریل 1971ء میں نجم آفندی بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ وہ کراچی میں بس گئے۔ تاہم 21 دسمبر 1975ء کو کراچی ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے
——
نجم آفندی کی نعت نگاری از سید تقی عابدی
——
ڈاکٹر سید نواز حسن زیدی نے اپنی کتاب نجم آفندی فکر و فن میں نعتیہ رباعیات کے ذیل میں لکھا ہے کہ ” نجم آفندی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کسی رباعی میں بھی ایسی بات پیش نہیں کی جو قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو ۔ ان کے نزدیک عقیدت کا معیار یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مسلمہ معیار کو سامنے رکھ کر حضور کی مدح کی جائے نہ کہ محض عقیدت اور جذبات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسی باتیں منسوب کی جائیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
چانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ان کی رباعیات کسی نہ کسی آیتِ قرآنی کی وضاحت کر رہی ہیں ۔ نجم آفندی نے شمائلِ نبوی کے بیان کی بجائے ، آپ کی سیرت اور اسوہ پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے ۔ نجم آفندی نے جہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا ہے وہاں مسلمانوں کو ایسا راستہ بھی دکھایا ہے جس پر چل کر وہ دین اور دنیا کی بھلائی حاصل کر سکتے ہیں اور آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں ”
آج کے پُرآشوب دور میں جہاں اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کی بین الاقوامی تحریک جاری ہے وہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس کو بھی غلط بیانی اور دروغ گوئی کے ذریعے جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معاذ اللہ ایسے جابر حکمران کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے اور دوسرے ہاتھ میں تلوار کہ قرآن اگر موردِ قبول نہ ہو گا تو تلوا سے سر اتارا جائے گا ۔
چنانچہ اس دور میں نعتوں کی ضرورت اس لیے بھی ہو گئی ہے کہ ظلمتِ کفر و نفاق کو چراغِ مصطفوی سے دور کیا جا سکے ۔
نجم آفندی کے درجنوں نعتیہ اشعار ان مضامین پر موجود ہیں :
——
دو عالم پر ہے قبضۂ احمدِ مختار کیا کہنا
ترا قرآن کیا کہنا ، تری تلوار کیا کہنا
وہی ہے صحنِ مسجد اور وہی قصرِ حکومت ہے
خدائے پاک کے گھر میں ترا دربار کیا کہنا
——
خدا کے گھر میں اُس نے فقر کی مسند پہ شاہی کی
جہادِ زندگی میں کون ایسا مردِ میداں ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نجم الغنی خان کا یوم وفات
——
انسانیت ، انسان سازی اور مکارم الاخلاق پر اشعار دیکھیے
——
خدمت یہ کسی نبی ولی سے نہ ہوئی
وابستہ کسی پیمبری سے نہ ہوئی
کامل تھے سبھی مگر محمد کے سوا
اخلاق کی تکمیل کسی سے نہ ہوئی
——
صورت گرِ ازل نے ترے اعتبار پر
اک مشتِ خاک تھی جسے انساں بنا دیا
کہتی ہے ذہنیت یہ حجاز و عراق کی
تیرا ہی کام تھا کہ مسلماں بنا دیا
——
انساں کے خاکی پیکر میں اب شافعِ محشر آتے ہیں
جو دونوں جہاں کے مالک ہیں وہ بھیس بدل کر آتے ہیں
——
مکمل کر دیا انسان کا دستورِ حیات اُس نے
رسولِ آخری ہے حرفِ آخر لے کے آیا ہے
——
صرف مقطعوں میں ہی نہیں بلکہ نعتوں کے بہتے زلال میں بھی نجمؔ کے احساسات عجز و انکسار اور تعلّی کے کنول نظر آتے ہیں ۔
یہ طرزِ بیان صرف اور صرف مدحتِ نبوی کے لطفِ خاص سے عطا ہوتا ہے ۔
——
قطرہ نے لیں جو تیری محبت میں کروٹیں
بطنِ صدف میں گوہرِ غلطاں بنا دیا
یہ نطق کا شرف یہ طہارت زبان کی
اک اک حدیثِ دوست کو قرآں بنا دیا
——
غریبوں اور غربت سے متعلق چند اشعار دیکھیے
——
غریبِ قوم بن کر بن گیا ڈھارس غریبوں کی
امیرِ خلق ہو کر بھیس بدلا اُس نے غربت کا
——
بہت دولت لٹائی جس کے ہاتھوں نے غریبوں میں
مگر ہونے دیا دامن کو آلودہ نہ دولت سے
——
دنیا کے امن کے لیے کیا کوئی ایسی ہستی ہے جس نے صرف دفاعی جنگ کی اور مدینہ جیسے شہر میں دوسری اقلیتوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک برقرار رکھا :
——
رحمتِ عالم خلافِ امن جا سکتا نہیں
تھی دفاعی جنگ ہر جنگ و جدالِ مصطفیٰ
——
جہاں میں سب سے پہلے تو پیامِ امن لایا تھا
مساوات و محبت کے علمبردار کیا کہنا
——
یہ بھی پڑھیں : حرف حرف عزت ہو، لفظ لفط مدحت ہو
——
مساوات اور برادری بخصوص ملتِ اسلامیہ کے درمیان اتحاد پر نجم آفندی نے بڑے عمدہ اشعار نعت نگاری میں شامل کیے ہیں :
——
نوعِ بشر کو نظمِ مساوات سونپ کر
ہر دردِ اختلاف کا درماں بنا دیا
——
اخوت کی بِنا ڈالی اسی نے بزمِ ہستی میں
کسے معلوم تھا انسانیت کا کیا تقاضا ہے
——
جو عالم گیر پیغامِ اخوت لے کے آیا تھا
اُسی کی قوم ہے محروم احساسِ اخوت سے
——
شاعری کی دوسری اصناف کی طرح نعت کے اظہار اور ابلاغ میں وسعتِ فکری کو بڑا دخل ہے ۔ علامہ اقبال کے نعتیہ اشعار میں غضب کا خلوص ہے جس کی جھلک علامہ نجم آفدی کے کلام میں بھی نظر آتی ہے ۔
——
اُسے کرنا تھا رشتہ عبد کا معبود سے محکم
کہ اُس کو علم تھا انساں کی کمزوریِ فطرت کا
——
خالق کی مشیت پہ بھی کر ہی لیا قبضہ
کیا آ گئی انسانِ خدا ساز کے جی میں
تفریق پہ کس نے مجھے مامور کیا ہے
کیوں فرق کروں عشقِ خدا ، عشقِ نبی میں
——
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے بہرہ مند ہونے کی بجائے بعض لوگ فروعی اور غیر ضروری مسائل میں توانائی خرچ کردیتے ہیں ۔ معراجِ روحانی و جسمانی کے مباحث ، نوری یا خاکی ہونے کی ، فلسفہ اور دین و دنیا کے معمولی مسائل وغیرہ ۔ نجم آفندی کے چند اشعار ان کی پوری ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ۔
——
کچھ خبر بھی ہے تجھے نان و نمک کے سائل
اُس کے کُوچہ میں گدائی سے خدا ملتا ہے
——
بھٹک کر رہ گئے رستہ میں سقراطی بقراطی
تیری چوکھٹ پہ سجدے کر کے حکمت ناز کرتی ہے
——
یہ نامِ محمد یہ اندھیرے کا اجالا
سرنامۂ آیات ہے آیاتِ جلی میں
صدقے صنمِ ہند و صنادیدِ عجم ہیں
اللہ کی قدرت ہے لباسِ عربی میں
——
نعت میں منقبتی موضوعات کی رسم بھی بہت قدیم ہے ۔ عربی ، فارسی اور اردو نعت کی ابتدا ہی اس آمیزش کے ساتھ ہوئی ۔ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کی نعتوں میں اہلِ بیت کرام کی مدح و ثنا مسلسل نظر آتی ہے لیکن ان میں سب کی نسبت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود سے بتائی جاتی ہے ۔
یہاں یہ ذکر بھی عمدہ ہے کہ نجم آفندی کو نصیر الملت کی جانب سے شاعرِ اہلِ بیت کا خطاب دیا گیا تھا ۔
——
شاعر ہوں جن کا نجمؔ وہ ہیں وجہِ کائنات
ممکن ہے تا ابد میرا نام و نشاں رہے
——
یہ بھی پڑھیں : بفضل کبریا، نجم ھدی صدیق اکبر ہیں
——
ترے اسلاف سے اخلاف سے آگے نہیں کوئی
جہاں تک نسلِ آدم کی شرافت ناز کرتی ہے
——
منتخب کلام
——
نجمؔ مداحِ پیمبر کی بلندی کو نہ پوچھ
خاک پر بیٹھے تو سر عرش سے جا ملتا ہے
——
جب مدحِ پیمبر کرتا ہوں وہ زورِ سخن بڑھ جاتا ہے
اے نجمؔ سلامی دینے کو الفاظ کے لشکر آتے ہیں
——
میں سمجھا آدمی کا احسنِ تقویم ہو جانا
یہی صورت ہے جس پر حق کی صنعت ناز کرتی ہے
میں اپنے شعر لے کر نجمؔ اس منزل میں کیا جاؤں
جہاں قرآن کی ایک ایک آیت ناز کرتی ہے
——
نگاہِ اہلِ ظاہر میں وہ اُمّی تھا مگر ایسا
کتابِ زیست میں اصلاح دی ہے دستِ قدرت سے
——
وہ اک نورِ مجسم تھا مگر اے ابنِ آدم سُن
تری سیرت بنانے کو اُٹھایا بار صورت کا
——
اُسے انسان کے اخلاق کی تکمیل کرنی تھی
علیؑ آفاق میں پہلا ثمر تھا اس کی محنت کا
——
ذبیح اللہ شامل تیرے اسلافِ مقدس میں
شہیدِ کربلا ہے تیرا ورثہ دار کیا کہنا
——
کیا تقویٰ کو شامل اس نے تہذیب و تمدن میں
نعمت گر نہیں تو منعم و مزدور یکساں ہے
——
خبر کیا تجھ کو تعلیمِ محمد مصطفیٰ کیا ہے
یہ حُسنِ احتیاط ایک امتزاجِ دین و دنیا ہے
——
جان ہے تیری امانت ، دل برائے مصطفیٰ
مجھ میں میرا کچھ نہیں ہے ، اے خدائے مصطفیٰ
——
مسکراہٹیں سیکھیں قہر کی نگاہوں سے
داد سرکشی لے لی ہم نے کج کلاہوں سے
کیا کہیں محبت کا راز کم نگاہوں سے
ہم نے دل بنائے ہیں آنسوؤں سے آہوں سے
اپنی معرفت کا ہم ایک دن سبق دیں گے
دیکھتے چلے جاؤ اجنبی نگاہوں سے
اس کے حق کا مجرم ہوں پھر بھی اس کی رحمت ہے
خود بچا لیا مجھ کو مبتذل گناہوں سے
فرش پر ہے تخت ان کا عرش پر دماغ اپنا
کیا فقیر رہتے ہیں دب کے بادشاہوں سے
سارے مسئلے ہل ہیں مسلک محبت میں
ان کی راہ ملتی ہے بے شمار راہوں سے
نجمؔ یہ نشانی ہے اہل دل کی دنیا میں
ہم کو خاص نسبت ہے غم کی بارگاہوں سے
——
ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور
پھر ٹھہر گیا قافلۂ درد سنا ہے
شاید کوئی رستے میں مری طرح گرا اور
اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور
منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور
اللہ گلہ کر کے میں پچتایا ہوں کیا کیا
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور
کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور
دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور
یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور
——
یہ بھی پڑھیں : مولوی نجم الغنی خان نجمی رام پوری کا یوم وفات
——
لے لوں گا جان دے کے محبت جہاں ملے
کچھ دن میں شاید اور یہ سودا گراں ملے
اے کاروان عشق و وفا کے مسافرو
کہنا مرا سلام بھی منزل جہاں ملے
ہموار کر مزاج بہار و خزاں سے دل
ممکن نہیں مزاج بہار و خزاں ملے
یہ منزلت بھی حصہ دشمن میں آئے کیوں
ہم سر نہ پھوڑ لیں جو ترا آستاں ملے
پہلے ہی سے دلوں کے نہ ملنے کا ڈھنگ تھا
جس موڑ پر ملے ہیں وہ دامن کشاں ملے
میں نے کیا ہے ایک ہی عنوان سے خطاب
کس کس کے روپ میں نہ مرے مہرباں ملے
کیوں جائے نجمؔ ایسی فضا چھوڑ کر کہیں
رہنے کو جس کے گلشن ہندوستاں ملے
——
محبت کی وہ آہٹ پا نہ جائے
اداؤں میں تکلف آ نہ جائے
تری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی ہیں
کریں کیا جب تجھے دیکھا نہ جائے
کہیں خود بھی بدلتا ہے زمانہ
زبردستی اگر بدلا نہ جائے
محبت راہ چلتے ٹوکتی ہے
کسی دن زد میں تو بھی آ نہ جائے
وہاں تک دین کے ساتھی ہزاروں
جہاں تک ہاتھ سے دنیا نہ جائے
ترے جوش کرم سے ڈر رہا ہوں
دل درد آشنا اترا نہ جائے
کہاں تم درد دل لے کر چلے نجمؔ
مزاج درد دل پوچھا نہ جائے
——
حوالہ جات
——
اقتباسات و شعری انتخاب از علامہ نجم آفندی کی نعتوں کا مجموعہ : دربارِ رسالت
تحریر : سید تقی عابدی ، شائع شدہ 2006 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ