اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر قابل اجمیری کا یوم وفات ہے۔

قابل اجمیری(پیدائش: 27 اگست 1931ء – وفات: 3 اکتوبر 1962ء)
——
قابل اجمیری : دشت غربت کا شاعر از عطا محمد تبسم
——
قابل اجمیری، کیسا نابغہ تھا، کیا بے مثل شاعر، اس کے شعر دل پر اثر کرتے ہیں۔ قابل اجمیری تقسیم کے بعد کراچی آ گئے۔ لیکن کوئی گھر بار نہ تھا۔ ماہر القادری مرحوم نے اپنے رسالے ”فاران“ کے دفتر میں سر چھپانے کی جگہ دیدی اس زمانے میں جگر صاحب کراچی تشریف لائے۔ ”فاران“ کے دفتر ہی میں ماہر القادری کے توسط سے قابل کا تعارف جگر صاحب سے ہوا حسبِ معمول جگر صاحب نے شعر سنانے کی فرمائش کی، قابل کے اشعار سن کر جگرؔ صاحب اتنے متاثر ہوئے کہ قابل کو اپنے ہمراہ حیدر آباد سندھ کے مشاعرے میں لے گئے۔ حیدر آباد سندھ میں اجمیر سے ترک وطن کر کے جانے والے مہاجرین کی اکثریت ہے۔ مشاعرے میں قابل کا تعارف خود جگرؔ صاحب نے کروایا۔ جگرؔ کے شاندار تعارف اور پھر قابلؔ کے کلام نے اہل حیدر آباد سندھ (ساتھ اہل اجمیر) کے دلوں کو تسخیر کر لیا۔ اگر چہ قابل اجمیری کی زندگی مختصر رہی، 31 سال کی عمر میں وہ اردو شاعری وہ بے بہا خزانہ دے کر ملک عدم روانہ ہوئے۔ اس کم عمری ہی میں انھوں نے جدید غزل پر اپنی قابلیت کی دھاک جما دی تھی۔ قابل 27 اگست 1931ء کو اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبد الرحیم تھا۔ وہ بیماری، ناداری، خود داری میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ٹی بی کا جاں لیوا مرض 3 اکتوبر 1962ء کو عین جوانی میں ان کی جہان فانی سے رخصت کا سبب بنا۔ ان کی شاعری کا دور بمشکل دس بارہ برس پر محیط ہے۔ لیکن جدید غزل کو انھوں نے عظیم سرمایہ دے دیا۔ قابل اجمیری کی آخری غزل بھی کمال شاعری ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید سلطان احمد اجمیری اور سید فخرالدین بلے , داستانِ رفاقت
——
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج تیرا قرض چُکا دیتے ہیں
حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دُعا دیتے ہیں
کوئے محبوب سی چُپ چاپ گزرنے والے
عرصہِ زیست میں اک حشر اُٹھا دیتے ہیں
——
قابلؔ اجمیری، اجمیر سے 24 کلومیٹر دور چرلی نامی قصبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کے عبدالرحیم ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ گھر کے معاشی حالات اچھے تھے۔ تقدیر میں لکھا تھا۔ اچانک یکے بعد دیگرے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت قابلؔ کی عمر لگ بھگ چھ ساڑھے چھ سال تھی۔ پہلے والدہ کا انتقال ہوا اور اس کے چھ ماہ بعد والد بھی دار جہان سے رخصت ہو گئے۔ دادا ( امیر بخش) زندہ تھے انہوں نے قابلؔ کی پرورش کی۔ قابل کے آباد و اجداد پٹھانوں کے دورِ حکومت میں اجمیر آ کر آباد ہوئے تھے۔ اعلیٰ فوجی خدمات کے عوض حکومت وقت نے انہیں بڑی بڑی جاگیریں عطا کیں۔ لیکن قابل کے حصہ میں غربت اور تنگدستی لکھی تھی۔ قابل نے ابتدائی تعلیم مدرسہ نظامیہ درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی میں حاصل کی۔ بچپن علمی و ادبی اور روحانی ماحول میں گذرا۔ چودہ پندرہ سال کی عمر سے قابل شعر موزوں کرنے لگے تھے، حضرت ارمان اجمیری سے مشورہ سخن کیا۔ بعد میں قابل مولانا عبد الباری معنی سے رجوع ہوئے۔ مولانا معنی کے فیضانِ صحبت نے قابل کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ مولانا معنی کی معیّت میں قابل نے پہلی بار اجمیر میں منعقد ہونے والے ایک آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اس مشاعرے میں ساغر نظامی، حفیظ جالندھری، سیماب اکبر آبادی اور جگر مراد آبادی بھی شریک تھے۔ قابل مختصر بحر میں حال دل کہنے پر قادر تھے۔
——
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
——
یہ بھی پڑھیں : قیسی رامپوری کا یومِ وفات
——
قابل نے حیدر آباد کی گلیوں، سڑکوں، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں دن گذارے ۔ گو وہ کسی ادبی حلقے سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کی شاعری پھول کی خوشبو کی طرح پھیلتی رہی۔ وہ محبت اور توجہ سے محروم تھے۔ آخری ایام انھوں نے ١٩٦٠ میں کوئٹہ کے ریلوے سینی ٹوریم میں گذارے۔ اسپتال کی ایک اسٹاف نرس نے قابل کی زندگی میں خوشیاں بکھیر دیں۔ شاعر کو جینے کا حوصلہ ملا، ایک اسٹاف نرس قابل کی زندگی میں داخل ہوئیں اور کچھ دنوں کے بعد بیگم نرگس قابلؔ بن گئیں۔ شادی سے پہلے بیگم قابلؔ تمام حالات سے بخوبی واقف تھیں کہ قابلؔ شاعر ہے اور وہ بھی اردو زبان کا، قابلؔ کا مرض جان لیوا ہے۔ قابلؔ کے پاس کوئی سرکاری یا غیر سرکاری عہدہ نہیں، جاگیر نہیں، کوئی بینک بیلنس نہیں لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے قابلؔ کا ہاتھ تھام لیا۔ اپنی پر خُلوص رفاقت سے قابلؔ کی زندگی میں اجالے بکھیر دیئے، اس میں جینے کا حوصلہ پیدا کیا۔ یہاں تک کہ شاعر ایک بار پھر پُکار اٹھا۔
——
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
——
1951ء کے بعد قابل سندھ میں ایک بلند قامت شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ ان کی شہرت عام ہوئی۔ عوام اس فنکار سے آشنا ہوئے، اس کی بیماری غربت پر صاحبِ اقتدار لوگوں کی توجہ مبذول کرائی گئی۔کراچی اور سندھ کے اخبارات میں ان کے علاج کے لیے اداریے لکھے گئے۔ اپیلیں شائع ہوئیں۔ اخباری مطالبات سے مجبور ہو کر پیرزادہ عبد الستار کی وزارت کے زمانہ میں جب پیر علی محمد راشد وزیرِ صحت تھے، حکومتِ سندھ نے سولہ ہزار روپے ان کے علاج پر خرچ کرنے کی منظوری دیدی اور علاج کے لئے اٹلی بھیجنے کا اعلان کیا۔ اس کے چند روز بعد ہی پیرزادہ کی وزارت ختم ہو گئی اور محمد ایوب کھوڑو کو وزارت بنانے کی دعوت دی گئی۔ عوام نے اس حکومت سے بھی مطالبہ کیا۔ کھوڑو صاحب کے زمانے میں دوبارہ یہ مسئلہ کیبنٹ میں پیش ہوا اور پھر ایک بار حکومت نے لبنان کے سینی ٹوریم میں علاج کے لئے بھیجنے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے کی کارروائی تقریباً مکمل ہو چکی تھی کہ ون یونٹ بن گیا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد حیدر آباد میں گورمانی گورنر مغربی پاکستان کی صدارت میں ایک مشاعرہ انجمن ترقی اردو کی طرف سے منعقد ہوا جس میں گور مانی صاحب نے وعدہ کیا کہ اس کام کو مغربی پاکستان کی حکومت پورا کرے گی۔ لیکن وہ وعدہ کبھی وفا نہ ہوا۔ اس زمانے میں بھی ان کا حوصلہ بلند تھا۔
——
ضبط غم کا صلہ نہ دے جانا
زندگی کی دعا نہ دے جانا
بیکسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کو کوئی آسرا نہ دے جانا
——
یہ بھی پڑھیں : قیسی رامپوری کا یومِ پیدائش
——
مفلسی اور بیماری کی حالت میں یہ جواں سال شاعر 31 سال کی عمر میں 3 اکتوبر 1962ء کو حیدر آباد میں انتقال کر گیا۔ حکومت سندھ نے انہیں ’’شاعر سندھ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ قابل اجمیری کے صاحبزادے ظفر قابل حیات ہیں اور اپنے والد کے سرمائے شاعری کے نگہباں ہیں۔ قابل اجمیری کے مجموعہ کلام میں، دیدہ بیدار، پہلا مجموعہ کلام 1963ء خونِ رگِ جاں، دوسرا مجموعہ کلام 1966ء اور کلیاتِ قابل 1992ء شامل ہیں۔ ان کے زندہ اشعار میں
——
وہ کب آئیں خدا جانے ستارو تم تو سو جاؤ
ہوئے ہیں ہم تو دیوانے ستارو تم تو سو جاؤ
کہاں تک مجھ سے ہمدردی کہاں تک میری غمخواری
ہزاروں غم ہیں انجانے ستارو تم تو سو جاؤ
گزر جائے گی غم کی رات امیدو تو جاگ اٹھو
سنبھل جائیں گے دیوانے ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں روداد ہستی رات بھر میں ختم کرنی ہے
نہ چھیڑو اور افسانے ستارو تم تو سو جاؤ
——
تڑپتی کوندتی ہر چیز قابلؔ دل نہیں ہوتی
حرارت کرمک شب تاب سے حاصل نہیں ہوتی
کچھ ایسا مطمئن ہوں اپنی ناکامیٔ پیہم سے
کہ جیسے رہروغم کی کوئی منزل نہیں ہوتی
شکستِ جام پر میخانہ سارا گونج اٹھتا ہے
مگر حیرت ہے آوازِِ شکستِ دل نہیں ہوتی
——
آسودہ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
ہم خاک اڑاتے پھرتے ہیں بازار مصر میں
رعنائی خیال کو ارزاں نہ کر سکے
آیا نہ اس کی شان تغافل میں کوئی فرق
ہم اعتبار گردش دوراں نہ کر سکے
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاج تنگئی داماں نہ کر سکے
قابلؔ فراق دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے
——
آبرو ہے قرینے والوں کی
اپنے لب آپ سینے والوں کی
مرنے والوں کو رو رہا ہے کیا
بیکسی دیکھ جینے والوں کی
بڑھ کے ساغر کو توڑ دے کوئی
روح تشنہ ہے پینے والوں کی
ہم تو پروردئہ تلاطم ہیں
مشکلیں ہیں سفینے والوں کی
——
یہ بھی پڑھیں : قابل اجمیری کا یوم وفات
——
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے؟
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو، میں مسکرایا تو کیا کرو گے؟
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے؟
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ، مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟
——
قابل اجمیری نے پاکستانی ادب کے مالا مال کیا ہے۔ وہ ہماری ادبی روایات میں ہمیشہ زندہ ہیں۔ ان کی حیات اور شخصیت پر ایک کتاب ”قابل اجمیری: شخصیت اور فن“ بھی شائع ہوئی ہے۔ بھارت میں ان کی شاعری پر پی ایچ ڈی کی جا رہی ہے۔ قابل اجمیری کی شاعری آج بھی اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کے دلوںمیں زندہ ہے لیکن تحقیقی اور تنقیدی سطح پر ان کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔
——
منتخب کلام
——
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
——
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
——
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
——
ہم نے اس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں
——
حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
——
کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی
——
یہ گردش زمانہ ہمیں کیا مٹائے گی
ہم ہیں طواف کوچۂ جاناں کیے ہوئے
——
وہ کب آئیں خدا جانے ستارو تم تو سو جاؤ
ہوئے ہیں ہم تو دیوانے ستارو تم تو سو جاؤ
کہاں تک مجھ سے ہمدردی کہاں تک میری غمخواری
ہزاروں غم ہیں انجانے ستارو تم تو سو جاؤ
گزر جائے گی غم کی رات امیدو تو جاگ اٹھو
سنبھل جائیں گے دیوانے ستارو تم تو سو جاؤ
ہمیں روداد ہستی رات بھر میں ختم کرنی ہے
نہ چھیڑو اور افسانے ستارو تم تو سو جاؤ
ہمارے دیدئہ بے خواب کو تسکین کیا دو گے
ہمیں لوٹا ہے دنیا نے ستارو تم تو سو جاؤ
اسے قابل کی چشم نم سے دیرینہ تعلق ہے
شب غم تم کو کیا جانے ستارو تم تو سو جاؤ
——
یہ بھی پڑھیں : میرے دل میں ہے یاد محمد میرے ہونٹوں پہ ذکر مدینہ
——
تڑپتی کوندتی ہر چیز قابلؔ دل نہیں ہوتی
حرارت کرمک شب تاب سے حاصل نہیں ہوتی
کچھ ایسا مطمئن ہوں اپنی ناکامیٔ پیہم سے
کہ جیسے رہروغم کی کوئی منزل نہیں ہوتی
شکستِ جام پر میخانہ سارا گونج اٹھتا ہے
مگر حیرت ہے آوازِِ شکستِ دل نہیں ہوتی
کوئی اس وقت دیکھے کشتۂ ضبط محبت کو
زبانِ حال بھی جب ترجمانِ دل نہیں ہوتی
بقید عقل آساں کام بھی آساں نہیں ہوتا
بہ فیض عشق مشکل بات بھی مشکل نہیں ہوتی
رخِ پرنور کے قرباں نگاہ مست کے صدقے
طبیعت شعر و ساغر کی طرف مائل نہیں ہوتی
ہنسی لب پرچمک آنکھوں میں اطمینان چہرے پر
کسی عنوان تصدیق شکستِ دل نہیں ہوتی
——
آسودہ شوق کا ساماں نہ کر سکے
جلوے مری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے
ہم خاک اڑاتے پھرتے ہیں بازار مصر میں
رعنائی خیال کو ارزاں نہ کر سکے
آیا نہ اس کی شان تغافل میں کوئی فرق
ہم اعتبار گردش دوراں نہ کر سکے
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاج تنگئی داماں نہ کر سکے
آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینت داماں نہ کر سکے
شائستہ نشاط ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
ہم جان رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے
کچھ اس طرح گذر گیا طوفان رنگ وبو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے‘
ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے ساتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے
یاروں نے دوستی کے تقاضے بدل دیئے
لیکن میری وفا کو پشیماں نہ کر سکے
قابلؔ فراق دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے
——
آبرو ہے قرینے والوں کی
اپنے لب آپ سینے والوں کی
مرنے والوں کو رو رہا ہے کیا
بیکسی دیکھ جینے والوں کی
بڑھ کے ساغر کو توڑ دے کوئی
روح تشنہ ہے پینے والوں کی
ہم تو پروردئہ تلاطم ہیں
مشکلیں ہیں سفینے والوں کی
دل ہی ٹوٹیں گے جام کے بدلے
انجمن ہے قرینے والوں کی
زخم دل بھی ہنسی اڑاتے ہیں
دامن چاک سینے والوں کی
ہم بہت یاد آئے ساقی کو
گفتگو تھی نہ پینے والوں کی
سہل کر دی ہیں مشکلیں کتنی
مرنے والوں نے جینے والوں کی
——
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے
میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گرِ صداقت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو میری ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
انکے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے
اسکی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سلامت ہے
——
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کروگے؟
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو، میں مسکرایا تو کیا کروگے؟
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے؟
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاوء، مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے؟
تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مسّلم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کرو گے؟
اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نہ کردہ سکونِ ساحل نہ راس آیا تو کیا کرو گے؟
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
پمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے؟
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے؟
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ