اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے ممتاز افسانہ نگار، مترجم، صحافی اور متعدد حوالہ جاتی کتب کے مولف سید قاسم محمود کا یوم وفات ہے۔

 

سید قاسم محمود(پیدائش: 17 نومبر 1928ء – وفات: 31 مارچ 2010ء)
——
اردو کے ممتاز افسانہ نگار، مترجم، صحافی اور متعدد حوالہ جاتی کتب کے مولف سید قاسم محمود 17 نومبر 1928ء کو کھرکھودہ ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 1951ء میں مجلس زبان دفتری، حکومت پنجاب سے بطور مترجم منسلک ہوئے۔بعدازاں وہ لیل و نہار، صحیفہ، کتاب، سیارہ ڈائجسٹ، ادب لطیف اور قافلہ کے مدیر رہے۔ 1970ء میں انہوں نے لاہور سے انسائیکلو پیڈیا معلومات کا اجرا کیا۔ 1975ء میں انہوں نے مکتبہ شاہکار کے زیر اہتمام شاہکار جریدی کتب شائع کرنا شروع کیں۔ 1980ء سے 1998ء تک وہ کراچی میں مقیم رہے جہاں انہوں نے ماہنامہ افسانہ ڈائجسٹ، طالب علم اور سائنس میگزین کے نام سے مختلف جرائد جاری کئے اور اسلامی انسائیکلو پیڈیا، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا ایجادات اور انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا شائع کئے۔ ان کے اسی نوع کے متعدد کام ان کی وفات کی وجہ سے ادھورے رہ گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : سکوں پہ واجب رہے وہ دل میں خرد پہ لازم رہے وہ حاضر
——
وہ ایک اچھے افسانہ نگاراور مترجم بھی تھے اور ان کے افسانوں کے مجموعے دیوار پتھر کی، قاسم کی مہندی اور وصیت نامہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔ 31 مارچ 2010ء کو سید قاسم محمود لاہور میں وفات پا گئے اور جوہر ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
سوانح سید قاسم علی
——
کہاجاتاہے۔”Unsung Heroes“غیر معمولی اور باصلاحیت انسانو کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جسے انگریزی زبان میں
یہ لوگ ان ہیروز سے مختلف ہوتےہیں جنہیں قدرے دیر سے یا بعد از مرگ شہرت ملتی ہے ۔ایسی ہی ایک مثال لئے آج میں آپ کے سامنے ہوں ۔
پاکستان میں بھی ایسی چند شخصیات ہیں جنہوں نے تحقیقی کاموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ یہ لوگ بظاہر گم نام ہیں لیکن علمی تاریخ میں ان کا کام زندہ جاوید ہے۔
نومبر 17 سنہ 1928 عیسوی کو ضلع روہتک کے ایک چھوٹے سےگاؤں کھر کھوہ میں جو دہلی سے28 میل کی دوری پر موجود تھا۔وہاں ایک زمیندار گھرانے میں ایک شخص "سید ہاشم علی”کےگھر ایک بچے کی دلادت ہوئ۔ حسب روایت بچے کو قرآن کی تعلیم کے لئے داخل مدرسہ کر دیا گیا۔ناظرہ کے بعد حفاظ کی فہرست میں ایک نا م اس بچہ کا بھی اس بچے کے باپ نے لکھواڈالااور یوں حفظ کی غرض سے مدرسہ کی تعلیم جاری رہی۔ 8 سپاروں کے حفظ کرنے کے بعد بھی تلاوت کرتے وقت تلفظ کی ادائیگی قاریوں کی سی نہ ہو پا رہی تھی کہ ایک دن استاد نے اس بچے کو اتنا مارا اتنا مارا کہ معصوم لہو لہان ہو گیا۔ گھر پر والد کو وجہ کا علم ہو ا تو مزید مار پڑھی کہ استاد کو شکایت کا موقع کیوں دیا گیا۔جبکہ والدہ نے ہمیشہ کی طرح نہ صرف ہمت بندھا ئی ان کی ہمت بندھائ بلکہ مدرسہ سے اٹھا کر اسکول میں داخل کروادیا۔
بچہ چونکہ 8 پارے حفظ کر چکا تھا لہذا اس کا حافظہ قوی اور دماغ وسیع اور سمجھنے کی صلاحیت شدید ہو چکی تھی کلاس میں نمایاں حیثیت حاصل ہوئی جلد ہی کلاس میں مقبول ہو کر مانیٹر کے عہدے پر فائز ہو گیا۔ چوتھی جماعت میں سکالر شپ کا امتحان ہوا۔ جس میں اُنھوں نے پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ وہ پنجاب کی تاریخ میں پہلے مسلمان بچے تھے جسے وظیفہ ملا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات نے خود کھر کھودہ سکول آکر انعام دیا۔ اُن دنوں قرار داد پاکستان کے بعد ہندو مسلم کشیدگی پیدا ہوچکی تھی۔ قاسم جس سکول میں زیر تعلیم تھے ،اُس میں دو چار طلبہ مسلمان جبکہ باقی نوے فیصد سے زیادہ کٹر ہندو جاٹ تھے۔ ساتویں جماعت میں ایک بار قاسم علی کے ایک ہندو ٹیچر نے مسلم تاریخ پڑھاتے ہوئے حضور اکرم کی شان میں گستاخی کی۔ مانیٹر ہونے کے ناتے قاسم سب سے آگے بیٹھتا تھا، اُس نے اُٹھ کر ٹیچر کے منھ پر تختی دے ماری،جس پر تمام کلاس قاسم پر ٹوٹ پڑی اور اتنا مارا کہ ہسپتال لے جانا پڑا۔ مارچ 1947 عیسوی میں ہنجاب یونیورسٹی میں میٹریکولیشن صوبے بھر میں اول رہ کر پاس ہوئے۔ہجرت سے پہلے مکتبہ جامعہ اور ہمدرد دواخانہ دہلی میں ملازمت کی۔
تاہم تقسیم کے بعد قاسم اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ ہجرت کے دوران اُن پر کیا گزری یہ الگ تفصیل ہے جو اُن کی کتابوں میں مطالعہ ہو سکتی ہے۔پہلے پرانا قلعہ مہاجر کیمپ دہلی اور پھر لاہور کے والٹن اور باؤلی مہاجر کیمپوں میں دسمبر 1947 عیسوی تک بطور رضاکار مہاجرین کی خدمت میں شامل رہے۔
1948 عیسوی میں لکڑہارا، بجلی کے لائن مینوں کا سیڑھی بردار ،اخبار فروشی ، اخبار "زمیندار” میں میں آنریری چپڑاسی، مولانا ظفر علی خان، مولانا مرتضی احمد خان میکش، مولانا اظہر امرتسری اور حاجی لق لق کا بے تنخواہ مددگار خصوصی بنے رہے۔
1949 عیسوی میں ماہنامہ "عالمگیر”ہفت روزہ "خیام” اور پبلیشر یونائیٹدکے شعبہ ریلوے بک اسٹال میں یکے بعد دیگرے باتنخواہ ملازمت شروع کی۔
1950 عیسوی تا 1951 عیسوی میں پنجاب یونیورسٹی میں کلرکی، پہلے ڈاکٹر ایم افضل کے نائب اور پھر” اردو دائرہ معارف اسلامیہ "کے اولین مدیر اعلیٰ پروفیسر علامہ محمد شفیع کے ماتحت مقرر ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اُن کے ٹکڑوں پہ شہنشاہوں کو پلتے دیکھا
——
حکومت پنجاب کی”مجلس زبان دفتری” میں بطور مترجم حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی رہی۔ افسانہ نگاری تصنیف وتالیف و ترجمہ کا آغاز ہوا۔ مشق سخن کے ساتھ ساتھ چکی کی مشقت بھی جاری رہی۔ صبح و شام کی جزوقتی نوکریاں "مکتبہ جدید”گوشہ ادب” ریلوے بک سٹال،ماہانامہ ہمایوں، ہہفت روزہ” قندیل” ہفت روزہ” اجالا” روزنامہ”خاتون، روزنامہ”امروز” روزنامہ”نوائے وقت” روزنامہ "امروز” میں شام و شب کی جزوقتی نوکریوں کے ساتھ ساتھ تکمیل تعلیم کیلئے بھی کوشاں رہے۔ ‘ ادیب عالم‘ ادیب فاضل یکے بعد دیگرے پاس کرکے بی اے کی ڈگری حاصل کی
(1949عیسوی تا 1956عیسوی)۔ سرکاری ملازمت ہمیشہ کیلئے ترک کر کے آزاد قلمی اختیار کی۔ نائب مدیر پندرہ روزہ ”صادق“ سید عابد علی عابد کے ہمراہ (1956عیسوی)۔ نائب مدیر ہفت روزہ ”لیل و نہار“ فیض احمد فیض اور سید سبط حسن کے ہمراہ (1965-1964عیسوی)۔ مدیر ”اردو انسائیکلوپیڈیا‘ فیروز سنز اور مدیر ماہنامہ ادب لطیف (1966-65عیسوی)۔ افسر انچارچ ”نیشنل بک کونسل“ بانی مدیر ماہنامہ ”کتاب“ اور مؤسس بزم کتاب (1966تا 1971عیسوی)۔ یونیسکو کے زیراہتمام ٹوکیو میں فن ادارت کے کورس کی تکمیل (1968عیسوی)۔ ”مینار پاکستان“ پر یادگار تختیوں کی تصنیف و تدوین اور نقش گری کا کام مختار مسعود کی ہمراہی میں (1970-1969عیسوی)۔ پاکستان کی سبز کتاب ”قائداعظم کا پیغام“ مرتب و شائع کی جو اب تک ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے۔ (1967ئ)۔ ”انسائیکلوپیڈیا معلومات“ کا قسط وار اجرا (1971ئ)”سیارہ ڈائجسٹ“ کی دوبارہ ادارت (1971عیسوی تا 1975عیسوی)۔ ذاتی اشاعتی ادارے ”مکتبہ شاہکار“ کا قیام۔ شاہکار جریدی کتب‘ اسلامی انسائیکلوپیڈیا اور بے بی انسائیکلو پیڈیا کا قسط وار اجرا(1975عیسوی )۔ حکومت پنجاب کی ”مجلس زبان دفتری“ کے رکن کی حیثیت سے دفتری اصطلاحات کی ڈکشنری مرتب کی (1977-76عیسوی) پندرہ روزہ ”قافلہ“ کے اجراءسے سیاسی صحافت میں عملی شرکت۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکی سخت مزاحمت کی۔ مارشل لاءسے شکست ہوئی اور مکتبہ شاہکار تباہ و برباد ہوگیا۔ کراچی کی جانب ہجرت ثانی کی۔ ماہنامہ ”عالمی ڈائجسٹ“ کے ادارے میں شمولیت (1980عیسوی)۔ ایک سال بعد ”شاہکار بک فاﺅنڈیشن“ کا ازسر نو قیام ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ”نوائے وقت“ کراچی کی ڈپٹی ایڈیٹری (1982-1981ئ)۔ ”اسلامی انسائیکلو پیڈیا“ یک جلدی کی اشاعت۔ ماہنامہ ”سائنس میگزین“ کا اجرا (1985ئ) انسائیکلو پیڈیا فلکیات گجراتی میں ”علم القرآن“ کی پارہ وار اشاعت برائے استفادہ مسلمانان بھارت (1996-95ئ)۔ ”انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا“ کی اشاعت۔ کراچی سے لاہور‘ ہجرت( 1997ئ) مشیر مطبوعات‘ اکادمی ادبیات پاکستان ( 1999-98ئ)۔ ادارہ ”الفیصل“ کے زیراہتمام ”اسلامی انسائیکلو پیڈیا “ اور انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا کے نئے ایڈیشنوں کی بار باراشاعت۔ سیرت انسائیکلو پیڈیا کی تدوین و تصنیف (2004-2000ئ)۔ ”قرآن انسائیکلو پیڈیا“ کے ساتھ ساتھ ”انسائیکلو پیڈیا احیائے اسلام“ کی تصنیف و تدوین کا کام بھی آخری وقت تک جاری رہا۔
تصانیف و تالیف
سید قاسم محمود کے افسانے
انسائیکلوپیڈیا آف قرآن
انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا
سیرت انسائیکلوپیڈیا
انسائیکلوپیڈیا تاریخ انسانیت
پاکستانی بچوں کا انسائیکلوپیڈیا
انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا
انسائیکلوپیڈیا سائنس
انسائیکلوپیڈیا ایجادات
انسائیکلوپیڈیا فلکیتات
بے بی انسائیکلوپیڈیا
معلومات
اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا
اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا
اُردو انسائیکلوپیڈیا
قاسم کی مہندی افسانے
چلے دن بہار کے افسانے
دیواد پتھر کی ناول
نواب محمد اسمٰعیل خان
بیسویں صدی اور آمریت
جنسی رسومات
بینادی معاشیات
سائنس کیا ہے
معاشیات کے جدید نظریے
اُنھوں نے اپنے بارے ایک واقعہ تحریر کیا ہے جس نے اُن کی زندگی بدل دی،وہ لکھتے ہیں کہ:”یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے، جن دنوں میَں نے موپاساں کے افسانوں کا ترجمہ کیا تھا، مکتبہ جدید کے مالک مجھے ساتھ لے کرسعادت حسن منٹو کے گھر دیباچہ لکھوانے گئے۔
منٹو صاحب نشے میں دھت تھے، اُنھوں نے مسودے پر ایک اُچٹتی نظر ڈالی، پھر اُسے اُٹھا کر میرے منھ پر دے مارا، کہنے لگے کہ تم کبھی بھی ترجمہ یا افسانہ نہیں لکھ سکتے”
——
یہ بھی پڑھیں : ماہِ میلاد ہے اک دعا مانگ لیں
——
قاسم محمود مزید لکھتے ہیں کہ:اُس رات میں واپس گھر نہیں آیابلکہ ساری رات راوی کنارے گزاری، صبح مجلس زُبان دفتری جاکر استعفا پیش کردیا، ادارے کے سیکرٹری حکیم احمد شجاع نے بہت روکا، لیکن میَں نے ایک نہ مانی اور کہا کہ نہیں میں منٹو کی طرح آزاد انسان بنوں گا۔ کسی کی نوکری نہیں کروں گا اور اب بڑا ادیب بن کر دکھاؤں گا۔”
سید قاسم محمود لکھتے ہیں کہ:”ایک مرتبہ مجلس زُبان دفتری والوں نے ملازمت کے لیے اشتہار جاری کیا،جس کی اہلیت ایم اے تھی۔وہ اُن دنوں میٹرک پاس تھے،مگر تحریری امتحان میں اوّل آنے پر اُس وقت کے گورنر سردار عبدالرب نشترنے اُن کی قابلیت و لیاقت کو دیکھتے ہوئے،ملازمت کے احکامات فرما دیئے،لیکن ساتھ ہی نوجوان قاسم کو ایک نصیحت کی اور فرمایا
تم جیسے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی تقدیر ہے،مگر یاد رکھو ہمارے اُردو اَدب میں شاعری اور جذبات نگاری تو بہت ہے،لیکن ٹھوس علمی مواد کا فقدان ہے،کوئی ڈھنگ کی لغت نہیں،کوئی انسائیکلو پیڈیا نہیں،ضرورت ہے کہ اِن کاموں کی جانب توجہ دی جائے سید قاسم محمود کا لکھنا ہے کہ سردار نشتر کی نصیحت اُنھیں کبھی نہیں بھولی اور اُن سے کیا گیا عہد ہی اُن کو لغات اور انسائیکلو پیڈیا جات کی تدوین و تالیف کی طرف لے گیااور اُنھوں نے ایک نہیں،بلکہ بے شمار انسائیکلوپیڈیازمرتب کیے، جن میں انسائیکلوپیڈ یا ایجادات، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلو پیڈیا سیرت، انسائیکلو پیڈیا احیائے اسلام، انسائیکلوپیڈیاقران کی تصنیف و تدوین بھی خاص بور پر قابل ذکر ہیں۔
یہ موت پورے عالم کی موت ہے۔ سولہ کروڑ عوام کو اس کا علم تک نہیں کہ ان کے درمیان سے ایک ایسا شخص اٹھ گیا کہ جس کا خلا صدیاں پر نہ کر سکیں گی، کیونکہ اس نے اپنے کام سے، اس قوم میں موجود صدیوں کا خلا پر کیا تھا۔ کیا عجیب شخص تھا۔ نہ ستائش کی پروا، نہ صلے کی تمنا۔ صاحبانِ اقتدار کی چوکھٹ سے کوسوں دور، اسی لیے اس کے مرنے پر کسی کا تعزیتی پیغام آیا، نہ چینلوں پر پٹی چلی، نہ اس کی زندگی اور کارناموں پر کوئی مختصر سی فلم بنا کر خبروں میں نشر کی گئی۔ ایک صحرا کے بگولے کی طرح وہ ایک دشت سے کسی دوسری نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ ایسے لوگوں کی قسمت میں یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ جاہل اشرافیہ، گنوار سرمایہ پرست حکمران، بزعم خود مقبول دانشور، سب ان کی محفل سے دور رہیں۔ یہ خود ان جیسے لوگوں کی ذہنی صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اس شخص نے اپنی زندگی میں جتنا کام کیا ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا کام کرنے کے لیے ہزاروں افراد پر مشتمل ادارے ہوتے ہیں جن کے دفاتر میں ہر سہولت میسر ہوتی ہے۔ لیکن اس شخص کے پاس تو عالم یہ تھا کہ کبھی گھر کا کل سامان بیچ کر قرض اتارو اور پھر رزق کی تلاش میں نوکری کرو۔ جو وقت بچ نکلے اس میں اپنے علمی کام میں جت جاؤ۔ کبھی بجلی ہے تو کبھی لالٹین یا موم بتی، لیکن قلم اور کاغذ کا رشتہ بدستور قائم۔ صبح تہجد کی نماز کے وقت اٹھنا اور پھر کام میں لگ جانا اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دن کب ڈھلا اور کب رات گہری ہو گئی۔
سید قاسم محمود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ”جو کام بڑی بڑی جماعتوں کے کرنے کا تھا وہ کام فرد واحد نے انجام دی” اس نےبے سر و سامان نے وہ کمال کیا جو قوموں کی تاریخ میں دھارا بدلنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دنیا میں پانچ ہزار سالہ تاریخ میں دو قومیں ایسی ہیں جنھوں نے علم کی بنیاد پر ترقی کی۔ ایک مسلمان اور دوسرے انگریز۔ مسلمانوں نے پوری دنیا کا تمام فلسفہ، سائنس، فلکیات، طب اور ادب سب کچھ اپنی زبان میںترجمہ کیا اور پھر اس علم سے اپنی پیاس بجھائی اور نئے تحقیقی سفر پر روانہ ہوئے اور چار صدیاں علم کے میدان پر حکومت کی۔ انگریزوں نے بھی عربی، فارسی، ہندی، فرانسیسی، جرمن اور روسی سب زبانوں کا علم انگریزی میں منتقل کیا، پیاس بجھائی اور تخلیقی سفر شروع کیا۔ کیونکہ تخلیق کے لیے اپنی زبان میں علم حاصل کرنا اور سوچنا ضروری ہے۔ یہ شخص جس کا نام سید قاسم محمود تھا۔ اس نے پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی دنیا کے ادب کا اردو میں ترجمہ شروع کیا۔ صرف دس سالوں کے اندر دنیا کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب ایسا ہو جس کا ترجمہ اس نے نہ کیا ہو۔ ٹالسٹائی، موپساں، شیکسپئر، فرائیڈ ،ایملی برونٹی، دوستوفسکی، چارلس ڈکنز ، ڈارون، ہٹلر،جان ماسٹرز، جان گالز وردی، ، ڈاکٹر روتھ بینی ڈکٹ، ٹی ایس ایلیٹ اور ڈاکٹر کینتھ واکر کتنے ایسے نام ہیںجن کی کتابوں کے ترجمے، اس سید نے عالمِ بے سرو سامانی میں کیے۔۔اُن کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے مولانا ابوالحسن ندوی، ڈاکٹر اسراراحمد، ڈاکٹر طاہر القادری، ڈاکٹر غلام علی الانہ، مرزا ادیب، ڈاکٹر وحید قریشی، رئیس امروہوی، انتظار حسین، مولانا کوثر نیازی، جمیل الدین عالی، مولانا صلاح الدین مرحوم نے جس انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ،اُس کے لیے اُن کتابوں اور شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا کی ورق گردانی ضروری ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز ادیب اور شاعر شہاب دہلوی کا یوم پیدائش
——
سید قاسم محمودنے روزنامہ ایکسپریس میں 2006 میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں اظہار کیا کہ "ایک سچے ادیب کو کسی بھی حکومت سے کوئی ایوارڈ نہیں لینا چاہئےادیب کو عوام کے ساتھ جینا چاہئے۔
سید محمود قاسم کون تھے؟
اگر یہ سوال آج کےکسی بھی نوجوان سے پوچھ لیں تو وہ تعجب کا اظہار کرے گااور اگر علم و تحقیق کے کسی شیدائی سے پوچھیں گے تو وہ ایک لمبی سرد آہ بھرے گا اس کے دل کا دکھی آئینہ کرچی کرچی ہو جائے گا اور ان کرچیوں کو اپنی پلکوں سے اٹھا کر واپس اپنےدل میں بسا لے گا۔
بے شک محمود قاسم ان لوگوں میں سے تھے جن پر یہ فقرہ خوب جچتا ہے کہ”اس عظیم ہستی کا خلاء کبھی پر نا ہو سکے گا”
وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے بچھر چکے ہیں مگر تحقیق اور تصنیف کی صورت میں ایسا انمول اثاثہ چھوڑ گئے ہیں کہ جو صدیوں تک ہماری رہنمائی کرتا رہے گا۔اور جسے پڑھ کر ان کی یادوں کے نقوش ہماری سوچ کی لہروں پر نقش ہوتے رہیں گے۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ:
سائنس میگزین میری محبت نہیں میرا فرض ہے۔ میں ادب کی آغوش میں پلا بڑھا ہوں، ادب سے میرا لگاؤ فطری ہے۔ یہ میگزین میں نے ایک قومی فریضہ جان کر نکالا ہے کیونکہ یہ میرا ایمان ہے کہ پاکستان ہو یا عالم اسلام، ملت صدیوں سے جس گہرے اندھے کنوین میں گری پڑی ہے اس سے اسے یہ سائنس کی رسی ہی باہر نکال سکتی ہے غرض اب سائنس ہی عالم اسلام کی واحد ذریعہ نجات ہے۔
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ