اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف صحافی اور شاعر راج نرائن راز کا یوم وفات ہے

 راج نرائن راز
(پیدائش: 27 اکتوبر 1930ء – وفات: 8 نومبر 1998ء)
——
راج نرائن راز 27 اکتوبر 1930 کو بلوچستان (پاکستان) کی ایک چھوٹی سی غیر معروف بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 8 نومبر 1998 کو ٹیکساس(امریکہ) میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں پائی۔ تقسیم وطن کے بعد ان کا خاندان جھانسی میں آباد ہوگیا۔ انھوں نے دہلی یونی ورسٹی سے ایم۔ اے (اردو) کیا۔ کچھ عرصہ اخباروں میں کام کیا اور پھر جلد ہی انڈین انفارمیشن سروس میں آگئے جہاں مختلف عہدوں پر کام کرتے ہوئے اردو کے مشہور رسالے ’’آجکل ‘‘ کے مدیر بنے اور اسی منصب سے ریٹائر ہوئے۔
رازؔ صاحب کے تین مجموعہ ہائے کلام ’’چاند اساڑھ کا‘‘، ’’لذّت لفظوں کی‘‘ اور ’’احساس کی دھنک‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ اور دوسری نثری تخلیقات ’’منور لکھنوی: فن اور شخصیت‘‘ اور ’’خواجہ احمد عبّاس: افکار، گفتار اور کردار‘‘ بھی شائع ہوچکی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : راج نرائن راز کا یوم وفات
——
راج نرائن راز صاحب اردو زبان وادب کے ایک بے لوث خادم تھے جنھوں نے ساری زندگی اردو کی خدمت کی۔ وہ ایک نہایت اچھے شاعر، صاحبِ اسلوب نثر نگار اور دور اندیش صحافی تھے، نیز وہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی ایک نمائندہ شخصیت بھی تھے۔
——
ہم عصروں کی رائے
——
سجاد نقوی ” اوراق ” ، لاہور
شاعری اگر محض چیستاں اور بھول بھلیاں بن کر رہ جائے تو پھر ادب میں قاری کے وجود کی نفی ہو جائے گی ۔ اسی طرح شعر اگر خارجیت کی ترجمانی پر ہی مامور کر دیا جائے تو اس صورت میں بھی سطحی جمالیاتی حظ کی تسکین تو ہو جائے گی مگر قاری کا ذہن دریافت کی خوشی سے محروم رہے گا ۔ نظم کی حد تک میں ان دو گروہوں کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوں ۔
ان دونوں انتہاؤں کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا حلقہ بھی ہے جو نظم میں ابہام کا قائل تو ہے مگر اس حد تک کہ قاری کو معنی کے دُرِ نایاب کی تلاش میں زیادہ پٹخنیاں نہ کھانی پڑیں بلکہ اسے ایک آدھ غوطے میں ہی یہ موتی حاصل ہو جائے ۔
راج نرائن راز اسی تیسرے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ راز جدید علامتوں میں یقینِ کامل رکھتے ہیں ۔ تلاش ، جستجو اور بے قراری ان کی شاعری کی مبادیات ہیں چنانچہ وہ نئے زمانے کے اضطراب کو جب اپنے مثبت زاویۂ فکر سے دیکھتے ہیں تو یہ علامتیں فرد کی ذات سے اُبھر کر پورے معاشرے کی نمائندہ بن جاتی ہیں ۔
اس لحاظ سے راز کسی خاص فرقے یا کسی خاص خطے کے شاعر نہیں ہیں بلکہ ان کا پیغام رنگ ، نسل اور ذات سے ماورا ایک عام انسانی اپیل کا حامل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں دردمندی کا ایک مخصوص رحجان نظر آتا ہے جو انہیں ابنِ آدم کے زوال پر ہر وقت مضطرب رکھتا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : آنند نرائن ملا کا یوم وفات
——
رشید امجد ” اردو زبان ” سرگودھا
——
راج نرائن راز کی علامتیں ان کی ذات کے اُفق سے ابھرتی ہیں اور پھیل کر پوری کائنات کو اپنے حلقہ میں لے لیتی ہیں ۔ اُن کے یہاں علامت جامد پتھر بن کر نہیں رہتی بلکہ وہ مصری کی ڈلی کی طرح ہمارے منہ میں ذائقہ پیدا کر کے گُھل جاتی ہے ۔ اُن کی علامتیں خود بخود متحرک ہو کر معنی کی پھلجڑی چھوڑتی ہوئی ذہن میں پیوست ہو جاتی ہیں ۔
——
عمیق حنفی سہ ماہی ” محور ” دہلی
——
اِن نظمون کا شاعر بڑی ہی دقیق تکنیک کے تجربے کر رہا ہے ۔ اس عہد کے پیچیدہ مسائل کے احساس کے اظہار اور زبان و بیان اور اسلوب کی سادگی کے مابین ایک نئے رشتے کی تلاش میں ہے ۔ تجرید و تجسیم ، تمثیل و تعبیر ، بیان و تصویر کے بیچ کی پگڈنڈی پر اس کا سفر دلچسپ ہے ۔
اُس کی نظموں میں لوک گیتوں کی سادگی ، پُرکاری ، تازگی ، شگفتگی اور پُراسرار معنویت ہے ۔
اس میں ایک نئے انداز کی نغماتی تشویق بھی ہے ۔
عام بول چال کی زبان سے الفاظ اور علامیوں کا چناؤ اور بظاہر سادہ و معصوم الفاظ کا اشاریاتی استعمال ہماری زبان کے شعری امکانات کو منور کرتا ہے ۔
یہ شاعر نظموں میں خیال کو نہ تو عام رٹ کی طرح منطقی رشتوں میں باندھتا ہے نہ رُویائی علامتوں سے رُوشناس کرواتا ہے ۔
نہ آزاد تلازمۂ خیال میں بہتا ہے اور نہ تشبیہہ و استعارہ اور تمثال کا سہارا لیتا ہے ۔
اس کا طریقِ کار تجریدی بھی نہیں ہے کیوں کہ ان نظموں میں تصویریں اور نقوش بڑے واضح ہیں ۔ ہر چند کہ وہ بھی اشاریے اور علامیے بن گئے ہیں ۔
اس نے خیال کو اظہار سے روشناس کروانے کی ایک نئی راہ نکالی ہے جس پر کسی اصطلاحی نام کی تختی لگانا فی الفور میرے لیے دشوار ہے ۔
——
نمونہ کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
موجِ انفاس کو روانی دے
رات کوئی تو داستانی دے
آنکھ منظر کُشا ، نئے پل پل
اپنے ہونے کی کچھ نشانی دے
حمد لکھوں سنہرے لفظوں میں
آبِ زرّیں دے زربیانی دے
آٹھواں رنگ جس کا عنواں ہو
ایسی تازہ ، نئی کہانی دے
نغمے ، طائر ، شجر زمیں پیوست
تُو انہیں موسمِ آسمانی دے
ہاتھ شل ، پانی بے طرح ٹھہرا
کشتیاں دے تو بادبانی دے
کتنی گرمی لہو میں ہے ، دیکھوں
مرحلہ کوئی امتحانی دے
میں جسے رازؔ کہہ سکوں اپنا
کوئی ہم خواب ، کوئی ثانی دے
——
میں رازؔ چمکتا ہوا جھومر تھا کسی کا
اب شب کے سمندر میں کہیں ڈوب رہا ہوں
——
ہاتھ شمشیر پہ ہے ، ذہن پس و پیش میں ہے
رازؔ ! کن یاروں کے مابین کھڑا ہوں ، میں بھی
——
آنکھ جگمگ سی ، لرزتے ہوئے لب ، گال شفق
کیسے کہہ دوں کہ یہ اصنام خیالی ٹھہرے
——
یہ بھی پڑھیں : چکبست لکھنوی کا یومِ پیدائش
——
شاید ہوائے تازہ کبھی آئے اس طرف
رکھا ہے میں نے گھر کا دریچہ کُھلا ہوا
——
آؤ بنائیں کشتیاں کاغذ کی چل کے رازؔ
پُروا چلی ہے ، جُھوم کے بادل اُٹھا بھی ہے
——
اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں
پیشِ نگاہ جیسے کوئی آئینہ نہ ہو
——
اشعار رنگ روپ سے محروم کیا ہوئے
الفاظ نے پہن لیے معنی نئے نئے
——
سوچیے گرمئ گفتار کہاں سے آئی
لب بہ لب خواہش اظہار کہاں سے آئی
کس حنا ہاتھ سے آنگن ہے معطر اتنا
وقت خوش ساعت بیدار کہاں سے آئی
ہاں یہ ممکن ہے نیا موڑ ہو پھولوں جیسا
پھر یہ پازیب کی جھنکار کہاں سے آئی
خون میں نشۂ اظہار کا خنجر پیوست
درمیاں چپ کی یہ تلوار کہاں سے آئی
ہم خرابے کے مسافر ہیں ہمارے دل میں
آرزوئے در و دیوار کہاں سے آئی
سوچتا ہوں کہ خوش انداز دلوں میں اے رازؔ
شورش خوئے دل آزار کہاں سے آئی
——
کوئی پتھر ہی کسی سمت سے آیا ہوتا
پیڑ پھل دار میں اک راہ گزر کا ہوتا
اپنی آواز کے جادو پہ بھروسا کرتے
مور جو نقش تھا دیوار پہ ناچا ہوتا
ایک ہی پل کو ٹھہرنا تھا منڈیروں پہ تری
شام کی دھوپ ہوں میں کاش یہ جانا ہوتا
ایک ہی نقش سے سو عکس نمایاں ہوتے
کچھ سلیقے ہی سے الفاظ کو برتا ہوتا
لذتیں قرب کی اے کاش ہمیشہ رہتیں
شاخِ صندل سے کوئی سانپ ہی لپٹا ہوتا
——
کیا بات ہے کہ بات ہی دل کی ادا نہ ہو
مطلب کا میرے جیسے کوئی قافیا نہ ہو
گلدان میں سجا کے ہیں ہم لوگ کتنے خوش
وہ شاخ ایک پھول بھی جس پر نیا نہ ہو
ہر لمحہ وقت کا ہے بس اک غنچۂ بخیل
مٹھی جو اپنی بند کبھی کھولتا نہ ہو
اب لوگ اپنے آپ کو پہچانتے نہیں
پیش نگاہ جیسے کوئی آئینا نہ ہو
وحشی ہوا کی روح تھی دیوار و در میں رات
جنگل کی سمت کوئی دریچہ کھلا نہ ہو
——
آرا و شعری انتخاب از دھنک احساس کی ، مصنف : راج نرائن راز
شائع شدہ : 1988 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ