اردوئے معلیٰ

آج اُردو کے معروف نقاد اور محقق رام بابو سکسینہ کا یومِ پیدائش ہے ۔

رام بابو سکسینہ(پیدائش: 27 ستمبر 1896ء – وفات: 21 دسمبر 1957ء)
——
رام بابو سکسینہ 1896 ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے ۔ ایم اے 1918 ء میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے درجہ اول میں پاس کیا ۔
اسی برس ایل ایل بھی کا امتحان بھی اسی حیثیت سے پاس کیا ۔
1918 ء میں ڈپٹی کلکٹر نامزد ہوئے ۔
1922 ء میں مہاراجہ بڑودہ کے پرائیویٹ سیکرٹری ہو گئے ۔
اسی زمانہ میں مہاراجہ کچھ عرصہ کے لیے انگلستان چلے گئے اور رام بابو سکسینہ کو ان کی عدم موجودگی میں تاریخِ اردو ادب تیار کرنے کا وقت حاصل ہو گیا ۔
1927 ء میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کے ممبر بنے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظفر گورکھپوری کا یوم وفات
——
1931 ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں سرکاری عملہ کے ساتھ شرکت کی اور یورپ کی سیاحت کی ۔
1934 ء سے 1938 ء تک حکومتِ ہند کی جانب سے لیجسٹو کونسل میں چیف وہپ رہے ۔
1938 ء میں دوبارہ یورپ کی سیر کی ۔
یورپ کے بعض ادیبوں سے بھی ان کے تعلقات قائم ہو گئے تھے ۔ سکسینہ دوبارہ آئی سی ایس کے لیے نامزد ہوئے ۔
یو-پی میں ڈائریکٹر پبلسٹی اور سیکرٹری اطلاعات رہے ۔
حکومتِ ہند کی وزارتِ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری اور جائنٹ سیکٹری رہے ۔
انڈیا آفس لائبریری اور برٹش میوزیم کے لیے حکومتِ ہند کے وفد کے رکن نامزد ہوئے ۔
ہندوستان میں پی۔ای۔این سوسائٹی قائم کرنے والوں میں سے تھے ، ہندوستانی اکیڈمی کے قیام میں بھی شریک رہے ۔
1955 ء میں ساہتیہ اکیڈمی میں اردو کے نمائندہ کی حیثیت سے انتخاب ہوا ۔ ہند کی بے شمار کانفرنسوں کی صدارت کی ۔
ورلڈ اورینٹلسٹ کانفرنس برسلز کی سب کمیٹی کے چیئرمین بھی تھے ۔
21 دسمبر 1957 کو حرکتِ قلب بند ہو جانے سے اچانک انتقال ہوا ۔
——
تصانیف
——
تاریخِ اردو ادب
یورپین شعرائے اردو
اوراقِ پریشاں
مرقع شعرا
مثنیویاتِ میرؔ بہ خط میرؔ
اس کے علاوہ جب ان کا انتقال ہوا تو بعض کتابوں کے مسودات اشاعت کے لیے تیار تھے ۔ ان میں ایک اشاریت ( سمبلزم ) کے موضوع پر اور دوسری اردو فارسی کے ان شعرا پر مشتمل تھی جو ہندی میں بھی لکھتے تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ظریف جبل پوری کا یوم پیدائش
——
بقول سید احتشام حسین یہ دونوں کتابیں وفات کے وقت پریس میں تھیں ۔ نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوا ۔
اس کے علاوہ وہ ” انگلش مین آف لیٹرس سیریز ” کی طرز پر میر پر ایک کتاب ختم کر چکے تھے ۔ اسی نوعیت کی ایک کتاب سوداؔ پہ بھی لکھی تھی جس پر نظرِ ثانی کا کام باقی تھا ۔ غالباََ ان کی اشاعت کی نوبت ہی نہ آئی ۔
انیسؔ پر بھی اسی ڈھب کی ایک کتاب کا آغاز کر چکے تھے ۔ اردو ادب کی ایک مختصر تاریخ پی ۔ ای ۔ این کے لیے لکھ رہے تھے جو نامکمل رہی ۔
جدید اردو ادب پر دو جلدوں میں کتاب لکھنے کے لیے مواد فراہم کر لیا تھا اسے بھی عملی صورت نہ دے سکے ۔
——
قصیدہ از پریم لال شفا دہلوی
——
اک ادیب نامور اک افسر عالی مقام
ذات سکسینہ ہے جس کی رام بابو جس کا نام
جس نے اردو پر کیا ہے قابل تعریف کام
جس کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں خاص و عام
مختلف ممتاز عہدوں سے ہوا جو سرفراز
دور خدمت بھی گزارا جس نے با صد احتشام
اس نے انگلش میں لکھی اردو کی تاریخ ادب
پھر کیا اردو میں اس کو چھاپنے کا اہتمام
پھر یہی تاریخ ہندی ترجمہ ہو کر چھپی
غیر ملکوں میں بھی اس تالیف کا ہے احترام
ذکر اہل حرف ہے جس میں لکھی وہ بھی کتاب
اس میں سمجھایا انیسؔ و میرؔ و غالبؔ کا مقام
شاعروں کا حال لکھا ان کی تصویروں کے ساتھ
اور انگریزوں کا لکھا فارسی اردو کلام
حال اردو شاعران اہل یورپ کا لکھا
شاعران فارسی کا ہے الگ ہندی کلام
چھپ رہی ہے مثنویٔ میرؔ بھی با خط میرؔ
اب جدید اردو ادب کا ہو رہا ہے انتظام
اب کہیں اردو سے وابستہ ہو کوئی اجتماع
ہر جگہ اس کو بلاتے ہیں سبھی با احترام
اس نے دی اردو ادب کو زندگیٔ جاوداں
اور اردو سے شفاؔ زندہ رہے گا اس کا نام
——
بحوالہ کتاب : تاریخِ اردو ادب ، مصنف : رام بابو سکسینہ
شائع شدہ : 2007 ء ، حواشی و تعلیقات : تبسم کاشمیری
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ