اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعرہ محترمہ صفیہ شمیم ملیح آبادی کا یوم پیدائش ہے

صفیہ شمیم ملیح آبادی(پیدائش: 27 مارچ 1920ء – وفات: 20 ستمبر 2008ء)
——
نام صفیہ تخلص شمیم،
خواتین شعرا میں ایک نامور نام ۔
محترمہ صفیہ شمیم ملیح آبادی کی ولادت 27 مارچ 1920 ء کو ملیح آباد میں ایسے گھرانے میں ھوئی جو معزز و مقتدر ھونے کے علاوہ نہایت باذوق گھرانا تسلیم کیا جاتا تھا ۔
جس میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آ رھی تھی ۔ چنانچہ شمیم صاحبہ کے مورث اعلیٰ حسام الدولہ تہور جنگ نواب فقیر محمد خان گویا سے لیکر آپ کے پرنانا نواب محمد احمد خان احمد تعلقدار کسمنڈی اور نانا نواب بشیر احمد خان تعلقدار ملیح آباد تک کوئی بزرگ ایسا نہیں ھے جو صاحبِ دیوان شاعر نہ ھو ۔
پھر سب سے آخر میں محترمہ کے حقیقی ماموں شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کے نام سے تو کون واقف نہیں ھے ۔ غرضیکہ اس خاندانی تعلق کی موجودگی میں شمیم صاحبہ کا شعری ذوق بجا طور پر موروثی کہلانے کا مستحق ھے ۔
محترمہ صفیہ شمیم ملیح آبادی صاحبہ کا قیام عموما لکھنؤ میں رھا اور وھیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اور اس کے بعد گھر پر علمی شوق پورا کرتی رھیں ۔ اور یہیں انہیں وہ ادبی صحبتیں نصیب ھوئیں جن کی بدولت ان کا فطری شاعرانہ مذاق پروان چڑھا ۔ تقسیم ھند کے بعد آپ اپنے شریک حیات کے ساتھ پاکستان تشریف لے آئیں ۔ اور راولپنڈی میں قیام پذیر ھوئیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور نقاد، افسانہ نگار اور مترجم ممتاز شیریں کا یومِ پیدائش
——
آپ کا کلام مختلف ادبی رسائل ” ماہِ نو ، ساقی ، مخزن اور ھمایوں وغیرہ میں اکثر شائع ھوتا رھا ۔ صفیہ شمیم صاحبہ نے دس سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ۔ وہ حضرت جوش ملیح آبادی کے رنگ سے خاصی متاثر تھیں ۔ محترمہ شمیم غزل ، نظم ، رباعی غرضیکہ ھر صنف میں طبع آزمائی کرتی رھیں ۔ آپ کے کلام میں رومانوی عنصر غالب ھے مناظر فطرت کی تصویرکشی میں آپ کو کمال حاصل تھا یہی وجہ ھے کہ اپنے دور میں ان کا مقام صف اول کی شاعرات میں کیا جاتا تھا ۔
آپ پاسبان کی نائب مدیرہ اور صبح نو کی مدیرہ بھی رھیں ۔ آپ کا انتقال راولپنڈی میں 20 ستمبر 2008 ء کو ھوا۔
——
تصانیف
——
نوائے حجاز
گریہ و تبسم ۔۔۔ رباعیات
آھنگِ شمیم ۔۔۔ نظمیں
——
منتخب کلام
——
کر دیا بادِ خزاں نے خاک سارا گلستان
لب ہلے ہی تھے کلی کے مسکرانے کیلئے
اے ہم نشین نہ چھیڑ حکایتِ رنگ و بو
مدت ہوئی کہ بھول چکے ہم بہار کو
——
اک نگاہِ کرم کی حسرت میں
زندگانی گذار دی ہم نے
——
بے خبر منزلِ مقصود نہیں دور مگر
عالمِ ہوش سے ہستی کو گذر جانے دے
——
اللہ ری بے نیازئ آشفتگانِ شوق
دامن بچا کے دیرو حرم سے گذر گئے
——
وہ بھی دل پر گذر گیا عالم
دل میں طوفانِ اشک ، لب پہ مہرِ سکوت
——
بجھی بجھی سی سہی شمع زندگی لیکن
ضمیرِ عشق میں سرمایۂ شرار ہیں ہم
بایں کشا کش حرماں بایں غمِ دوراں
کسی کے چشمِ کرم کے امیدوار ہیں ہم
——
بہاریں آئیں بھی اور ہو گئیں رخصت مگر اب تک
گلستاں میں گلوں کی چاک دامانی نہیں جاتی
کسی کا نام سن کر ضبط کے باوصف پہروں تک
مرے بے نور چہرے کی درخشانی نہیں جاتی
——
بہار نو کی پھر ہے آمد آمد
چمن اجڑا کوئی پھر ہم نفس کیا
——
دشت گلزار ہوا جاتا ہے
کیا یہاں اہل وفا بیٹھے تھے
——
ہونا ہے درد عشق سے گر لذت آشنا
دل کو خراب تلخیٔ ہجراں تو کیجیے
——
ہوش آیا تو کہیں کچھ بھی نہ تھا
ہم بھی کس بزم میں جا بیٹھے تھے
——
جس کو دل سے لگا کے رکھا تھا
وہ خزانہ لٹا گئے آنسو
——
رونا مجھے خزاں کا نہیں کچھ مگر شمیمؔ
اس کا گلہ ہے آئی چمن میں بہار کیوں
——
امیدیں مٹ گئیں اب ہم نفس کیا
نشیمن کی خوشی رنج قفس کیا
بسر کانٹوں میں ہو جب زندگانی
بہار خندۂ گل یک نفس کیا
مری دیوانگی کیوں بڑھ رہی ہے
بہار آئی چمن میں ہم نفس کیا
نہ ہو جب رنگ آزادی چمن میں
تو پھر اندیشۂ قید قفس کیا
بہار نو کی پھر ہے آمد آمد
چمن اجڑا کوئی پھر ہم نفس کیا
——
گر ہے نئے نظام کی تخلیق کا خیال
آبادیوں کو نذر بیاباں تو کیجیے
گر جلوۂ جمال کی دل کو ہے آرزو
اشکوں سے چشم شوق چراغاں تو کیجیے
ہونا ہے درد عشق سے گر لذت آشنا
دل کو خراب تلخیٔ ہجراں تو کیجیے
اک لمحۂ نشاط کی گر ہے ہوس شمیمؔ
دل کو ہلاک حسرت و ارماں تو کیجیے
——
شمع امید جلا بیٹھے تھے
دل میں خود آگ لگا بیٹھے تھے
ہوش آیا تو کہیں کچھ بھی نہ تھا
ہم بھی کس بزم میں جا بیٹھے تھے
دشت گلزار ہوا جاتا ہے
کیا یہاں اہل وفا بیٹھے تھے
اب وہاں حشر اٹھا کرتے ہیں
کل جہاں اہل وفا بیٹھے تھے
——
وہ حسرت بہار نہ طوفان زندگی
آتا ہے پھر رلانے کو ابر بہار کیوں
آلام و غم کی تند حوادث کے واسطے
اتنا لطیف دل مرے پروردگار کیوں
جب زندگی کا موت سے رشتہ ہے منسلک
پھر ہم نشیں ہے خطرۂ لیل و نہار کیوں
جب ربط و ضبط حسن محبت نہیں رہا
ہے بار دوش ہستئ ناپائیدار کیوں
رونا مجھے خزاں کا نہیں کچھ مگر شمیمؔ
اس کا گلہ ہے آئی چمن میں بہار کیوں
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ