اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر ساحر شیوی کا یومِ پیدائش ہے ۔

ساحر شیوی(پیدائش: 29 دسمبر 1936ء – وفات: 17 اکتوبر 2020ء)
——
ساحر شیوی 29؍دسمبر 1936ء کو شیو، ضلع رتناگری، صوبہ مہاراشٹر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔
ساحر شیوی کوکن(مہاراشٹر) سے تعلق تو رکھتے تھے مگر انہوں نے اُردو زبان کوحرزِ جاں بنا رکھا تھا۔ عبد اللہ جو اُردو دُنیا میں ساحرؔ شیوی کے نام سے معروف و مشہور ہوئے 29 دسمبر 1936 کو شیو ؔنامی ایک گاؤں میں جنمے تھے جو رتنا گیری کے تعلقہ کھیڈ میں واقع ہے۔
وہ اُردو کے کئی اہم رسائل اور جرائد کے سرپرست اورمدیر ہی نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنا کثیر سرمایہ اُردو کے رسائل پر لگایا۔ ممبئی سے شائع ہونے والا( سہ ماہی) ترسیل اور لیوٹنؔ سے’پروازؔ انہی کے زیرادارت و سرپرستی شائع ہوتے رہے ہیں۔ یاد آتا ہے کہ انگلینڈ ہی سے ایک رسالہ ’سفیر اُردو ‘ بھی ساحر شیوی ہی کی اعانت سے ایک مدت شائع ہوتا رہا، جس کے کئی شعرا و ادبا کے گوشے یادگار ہیں اور یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ یہ تمام رسائل ساحر شیوی ہی کے دم سےجاری رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساحر لکھنوی کا یومِ وفات
——
ساحر شیوی شعرا و ادبا کی اعانت میں ہمیشہ پیش پیش رہے بلکہ کئی قلم کاروں کی کتابوں کی اشاعت میں اُن کا بنیادی کردار رہا ہے۔
’’ کوکن رائٹر گلڈ‘ جیسا ادارہ بھی انہی کے ذہن کی اُپج ہے۔ ساحر ؔ شیوی ،سیماب اسکول کے ممتاز استاد مولانا قمر نعمانی سہسرامی کے حلقۂ تلمذ کے ایک ممتاز شخص تھے ، انہوں نے کالیداس گپتا رضاؔ سے بھی مشورہ ؔ سخن کیا۔ساحر شیوی کےکئی شعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جن کے نام ، وادیٔ کوکن، کوکن کی خوشبو، دوہے کوکن کے اور کوکن میرا مہان، ہیں ان کتابوں کے ناموں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انھیں اپنے وطن سے کس قدر محبت تھی۔
ساحر شیوی کے فن و شخصیت پر کئی کتابیں اور مختلف رسائل کے خصوصی گوشہ و نمبر بھی شائع ہوئے ہیں۔
——
ساحر شیوی کی دوہا نگاری (قرآن کے تناظر میں) از ظہیر دانش
——
دوہے کا مخصوص مزاج، مخصوص آہنگ اور مخصوص انداز ہے۔ دوہا آسانی سے شاعر کی گرفت میں آ نہیں پاتا تا آنکہ شاعر دوہے کے مزاج سے کامل طور پر شناسا نہ ہو جائے، دوہا کہنا سمندر کو کوزے میں سمونے کے مترادف ہے۔ اردو میں بہت سے دوہا نگاروں نے اپنی مخصوص شناخت بنائی ہے، جن میں جمیل الدین عالی، بھگوان داس اعجاز اور ڈاکٹر فراز حامدی نے مخصوص پہچان بنائی ہے، ڈاکٹر فراز حامدی نے دوہے کی بڑی اچھی تعریف کی ہے اتنی اچھی کہ دوہے کی اس سے بہتر تعریف شاید نا ممکن ہے۔
——
تیرہ گیارہ ماترہ، بیچ بیچ و شرام
دو مصرعوں کی شاعری، دوہا جس کا نام
——
ہند و پاک کے ممتاز دوہا نگاروں میں ساحرؔ شیوی کا شمار ہوتا ہے، انہیں منفرد دوہا نگار کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، ان کے دوہوں سے ان کا مخصوص مزاج اور آہنگ جھلکتا ہے۔ وہ جس میدان کی طرف بھی گئے، کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ انہوں نے ماہیے لکھے، سین ریوز لکھے، ہائیکو لکھے، افسانے لکھے، دوہے لکھے، تعجب کی بات یہ ہے کہ ہر صنف کو انہوں نے کامیابی کے ساتھ برتا، انہوں نے ہر صنف کی اصل روح سمجھی، اور جو بھی لکھا پوری محنت، لگن اور کوشش سے لکھا۔
ساحرؔ شیوی نے حمدیہ دوہے بڑے اچھے لکھے ہیں۔ آسمان و زمین کی ساری مخلوق، ساری کائنات، سارے جمادات، نباتات، حیوانات اللہ کی کبریائی، اس کی عظمت، اس کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔ فرشتے انسان کی پیدائش سے قبل ہی اس کی حمد و ثنا بیان کرتے رہے ہیں۔ تسبح لہ السمٰوات السبع والارض ومن فیہن وان من شیِ الا یسبح بحمدہ (اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں، اور ہر چیز اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔) اردو زبان کے بیشتر شعراء نے حمد و مناجات پر مشتمل کلام عبادت سمجھ کر کہا ہے، حمد میں با خدا دیوانہ باشد والا معاملہ ہوتا ہے، حمد میں جتنا زیادہ مبالغہ ہو گا اتنا ہی اسے مستحسن سمجھا جائے گا۔ ساحرؔ شیوی کے حمد و مناجات پر مشتمل کلام کی اپنی الگ انفرادیت اور خصوصیت ہے، انہوں نے بڑے انوکھے انداز میں اپنے آقا و مولیٰ کی بڑائی بیان کی ہے:
——
کوئی کہے رحمن تجھے، کوئی کہے بھگوان
پوجا تیری جو کرے، ہے وہ ہی انسان
——
تیری ذات قدیم ہے تیری ذات عظیم
بیشک تو رحمن ہے تجھ سا نہیں رحیم
——
یا رب تو رکھنا مری قسمت کو بیدار
مجھ عاصی کو بخش دے عزت کی دستار
——
یا رب ہم پر ہے ترا کتنا بڑا احسان
تو نے بنایا ہے ہمیں اک مومن انسان
——
اس نے بن مانگے دیا مجھ کو سکھ بھنڈار
ساحرؔ اس کا شکریہ جس کا کل سنسار
——
بیشک ایسے لوگ ہیں جنت کے مہمان
جو اللہ کی راہ میں ہوتے ہیں قربان
——
یا رب ہم پر رحم کر بچ جائے ایمان
انسانوں کے بھیس میں پھرتے ہیں شیطان
——
یہ بھی پڑھیں : خادم رزمی کا یوم وفات
——
حمد کے بعد نعت کا نمبر آتا ہے، نعتیہ کلام کہنا ویسے مشکل کام ہے، مگر نعتیہ دوہے کہنا اس سے مشکل عمل ہے۔ اس میں با محمد ہوشیار والا معاملہ ہوتا ہے۔ صحابۂ کرام میں بیشتر شعراء نے نعت کہی ہے۔ جیسے حسان بن ثابتؓ نے کہا ہے:
——
خلقت مبرأ من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاءٗ
——
شیخ سعدیؒ کی یہ رباعی آج بھی نعت کی بہترین مثال کہی جا سکتی ہے:
——
بلغ العلیٰ بکمالہ،
کشف الدجیٰ بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہٖ
صلو علیہ و آلہٖ
——
آپ علیہ السلام کی شان میں خالق کونین بھی رطب اللسان ہے: وانک لعلیٰ خلق عظیم (بیشک آپ اخلاق کے بلند مرتبے پر فائز ہیں ) نعت کہنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ساحرؔ شیوی نے بڑی کامیابی کے ساتھ نعت کہی ہے، موصوف کے اکثر نعتیہ دوہوں میں نبیِ کریم کی اطاعت کا پیغام ملتا ہے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی) وما اٰتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (رسول تمہیں جو چیز دیں اسے لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ) ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک مع الذین أنعم اللّٰہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، اصدقاء، شہداء ور صالحین) ساحرؔ شیوی کے وہ دوہے ملاحظہ کریں جن میں اطاعت رسول کے اشارے ملتے ہیں:
——
آپ ہی رہبر ہیں مرے، جس رستے بھی جاؤں
آپ کی مرضی کے بنا کیسے قدم بڑھاؤں
——
میں ہوں تابع آپ کا آپ مری پہچان
اے محبوب کبریاء! آپ پہ میں قربان
——
اس سے کوسوں دور ہے ہر دکھ ہر آزار
ساحرؔ طاعت میں تری رہتا ہے سرشار
——
قابل طاعت ہیں فقط آپ ہی کے احکام
قرآں دیتا ہے ہمیں صرف یہی پیغام
——
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (بیشک آپ صراط مستقیم کی رہنمائی کرتے ہیں) یعنی ہدایتِ ارشاد نبی کے ہاتھ میں ہے:
——
آپ ہی رہبر ہیں مرے، جس رستے بھی جاؤں
آپ کی مرضی کے بنا کیسے قدم اٹھاؤں
——
عرب قبل اسلام جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، رسول رحمت کے ورود کے بعد سارے اندھیارے دور ہو گئے، بد بخت نیک بخت بن گئے، بھٹکے ہوئے راہ پا گئے، جہنمی جنتی ہو گئے، وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (ہم نے تو آپ کو تمام جہانوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے) اس موضوع پر ساحرؔ صاحب کے خیالات دیکھیں:
——
باطل کے خیمے سبھی ہونے لگے اجاڑ
جب رحمت کی آ گئی چھل چھل کرتی باڑ
——
رحمت بن کے آئے جب نبیوں کے سردار
آپ کے دم سے بن گیا صحرا بھی گلزار
——
عالم جن سے آشنا رحمت جن کی عام
کیسے بھولے آدمی ان کا پیارا نام
——
یہ بھی پڑھیں : افضل گوہر راؤ کا یومِ پیدائش
——
حمدیہ اور نعتیہ دوہوں کے بعد عام دوہوں کی طرف آتے ہیں، جن میں انہوں نے مختلف معاشرتی کروب کو ظاہر کیا ہے۔ زندگی میں خوشی و غم، مصیبت و راحت، سکھ دکھ آتے رہتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں عام انسان کو ان سے پالا پڑتا ہے۔ زندگی میں جہاں مشکلیں ہیں وہاں آسانیاں بھی ہیں۔ اور جہاں آسانیاں ہیں وہاں مشکلات بھی ہیں۔ ان مع العسر یسراً فان مع العسر یسراً ؂
——
عیش ہو یا کہ رنج، نفرت ہو یا پیار
جیون کے اسٹیج پر سب کچھ ہے بے کار
——
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ان اللّٰہ مع الصابرین (بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ) واصبر فان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین (اور صبر کیجیے! بیشک اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا)
——
ساحرؔ صبر و ضبط کو کر کے اپنی ڈھال
آلودہ ماحول میں زندہ ہوں تا حال
——
اہل زر کی تنگ دلی، تنگ نظری، خود غرضی کی طرف کس لطیف انداز میں اشارہ کیا ہے۔ ؂
——
اس سے یہ امید کیوں مل جائے گا پیار
بے مطلب مزدور سے کب ملتا ہے زر دار
——
ساحرؔ شیوی صاحب کی ایک حمدیہ دوہا غزل پیش کر رہا ہوں۔ ؂
——
گر ہے گل میں تازگی یا رب تیری شان
مہر و ماہ میں روشنی یا رب تیری شان
بخشی کلیوں کو ہنسی یا رب تیری شان
دی بو کو آوارگی یا رب تیری شان
ہم کو بخشی زندگی یا رب تیری شان
دل بھی تیرا جان بھی یا رب تیری شان
بخشی ایسی دلکشی یا رب تیری شان
دھرتی جنت بن گئی یا رب تیری شان
بخشی سب پر برتری یا رب تیری شان
یہ عظمت انسان کی یا رب تیری شان
جب بھی چاہی ڈھونڈ لی یا رب تیری شان
ذرے ذرے سے ملی یا رب تیری شان
—–
یہ بھی پڑھیں : قیوم نظر کا یومِ پیدائش
——
ایسی سنگلاخ اور مشکل زمین میں ایسے کامیاب اور سلاست بھرے دوہے ساحرؔ شیوی جیسا قادر الکلام شاعر ہی کہہ سکتا ہے۔ بلا شبہ ساحرؔ شیوی دور حاضر کے ممتاز شاعر ہیں۔ انہوں نے جن اصناف کو بھی چھوا، انہیں انفرادیت اور اعتبار بخشا ہے۔ مستقبل میں ادبی تاریخ لکھنے والا مورخ ساحرؔ صاحب کے کلام، ان کے فن اور کام کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کر سکتا۔
——
یا رب تجھ سے ہے دعا عزت عظمت پائے
اپنے دوہوں کے سبب ساحرؔ شہرت پائے
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
زمیں بھی ہے تری آسماں بھی تیرا ہے
یہاں بھی راج ترا ہے وہاں بھی تیرا ہے
یہ سارے لعل و جواہر تری ہی کان میں ہیں
مہ و نجوم کا یہ کارواں بھی تیرا ہے
ہے آستانہ مدینے میں تیرے دلبر کا
جو مکہ میں ہے وہ پاک آستاں بھی تیرا ہے
گزر رہی ہے تری رحمتوں کے سائے میں
جہاں بھی تیرا نظامِ جہاں بھی تیرا ہے
خوشی کی فصل رہے یا رہے غموں کی رُت
بہار تیری ہے دورِ خزاں بھی تیرا ہے
ترے اشارے پہ چلتا ہے لاکھ ہو طوفاں
سفینہ بھی ہے ترا بادباں بھی تیرا ہے
کہیں پہ پھول کہیں خار و خس ہیں جلوہ نما
یہ دشت بھی ہے ترا گلستاں بھی تیرا ہے
غموں کی دھوپ میں دن گزارے ہیں ہم نے
ہمارے سر پہ مگر سائباں بھی تیرا ہے
نواز ساحرِؔ بے بس کو اپنی رحمت سے
کہ اس کی زیست کا سود و زیاں بھی تیرا ہے
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
کُفر کی کالی گھٹاؤں کو ہٹانے والے
بُت پرستوں کو نئی راہ دکھانے والے
مشعلیں دینِ الہیٰ کی جلانے والے
اُس کے صحراؤں کو گلزار بنانے والے
بھولے بھٹکے کو راہِ راست پہ لانے والے
خوابِ غفلت سے بہر گام جگانے والے
اپنے کاندھے پہ یتیموں کو بٹھانے والے
اپنے سینے سے غریبوں کو لگانے والے
ناتوانوں کی تب و تاب بڑھانے والے
اپنے مہمانوں کے عیبوں کو چھپانے والے
دہر میں شمعِ ہدایت کے جلانے والے
دل میں قرآن کی عظمت کو بڑھانے والے
بے خطر جنگ کے میدان میں آنے والے
قوم کی ڈوبتی کشتی کو بچانے والے
ہر گھڑی پرچمِ اسلام اٹھانے والے
جام وحدت کا شب و روز پلانے والے
علم و اخلاق کے اسباق سکھانے والے
ڈنکا ہر سمت صداقت کا بجانے والے
پیار اور امن کا پیغام سنانے والے
حشر میں آتشِ دوزخ سے بچانے والے
لڑکیوں کے لیے حق اُن کا دلانے والے
دفن زندہ انہیں ہونے سے بچانے والے
یہ شرف اور نبی کو نہ ملا گیتی میں
شبِ معراج میں افلاک پہ جانے والے
کیا بیاں مجھ سے ہوں اوصافِ رسولِ اکرم
مجھ میں ہمت کہاں اے مجھ کو بنانے والے
اُن کے پیغام سے ساحرؔ ہے زمانہ روشن
یاد رکھیں گے نہ کیوں اُن کو زمانے والے
——
سرکار دو عالم کی جس پر بھی نظر ہو گی
اس شخص کی ہر ساعت پھولوں میں بسر ہو گی
مایوس نہیں لوٹا کوئی درِ خضرا سے
شب لاکھ اندھیری ہو ، اس کی بھی سحر ہو گی
——
دے کے خوشی خریدتا ہوں ان کے رنج و غم
کیا دوستوں کے واسطے کرتا نہیں ہوں میں
——
پہلو میں جس کے دل نہیں دردِ جگر نہیں
وہ آدمی کا عکس ہے اصل بشر نہیں
——
سائے کی جستجو میں کہاں دربدر پھروں
کھڑکی سے تو بھی گھر میں مرے آ رہی ہے دھوپ
——
ساحرؔ نظر آئے ہیں آثارِ سحر مجھ کو
شاید مری دنیا میں چمکے گا نیا سورج
——
ہر گام پہ پڑتی ہے ضرورت بھی اسی کی
ساحرؔ کو زمانے سے شکایت بھی بہت ہے
——
وہ بوجھ ہی رہے گا زمانے کے دوش پر
وہ شخص جس کے ہاتھ میں کوئی ہنر نہیں
——
میں نے اسے سنوارا ہے جتنا بھی ہو سکا
اب زندگی کو مجھ سے شکایت نہیں رہی
——
رو رو کے گئے ہوں گے اب نیند کی بانہوں میں
بچوں کے سسکنے کی آواز نہیں آتی
——
کبھی ہے پھول کبھی خارزار ہے ساحرؔ
کبھی ہے موم کبھی خشت و سنگ ہے دنیا
——
افراطِ زر کا خوف کبھی مفلسی کا خوف
مرنے سے ہے زیادہ مجھے زندگی کا خوف
——
آدمی کا ہے فسانہ خاک سے
ہے ازل سے دوستانہ خاک سے
آپ کے چہرے پہ رونق ہے بہت
کیا کوئی نکلا خزانہ خاک سے
میں کسی کا بھی رہوں محتاج کیوں
پا رہا ہوں آب و دانہ خاک سے
اک قدم بھی کیا اٹھے اس کے بغیر
چل رہا ہے یہ زمانہ خاک سے
زہر بھر دے جو تمہارے خون میں
مت اگاؤ ایسا دانہ خاک سے
جینا مرنا ہے لحد کی خاک میں
میرا روشن آستانہ خاک سے
ساحرؔ عالم آشکارا ہو گیا
پیار تیرا والہانہ خاک سے
——
ہر ایک لفظ اُس کا دعا کی طرح لگا
اور جو کرم کیا وہ خدا کی طرح لگا
بے چین دل و دماغ ، پریشان آنکھ نم
گذرا جو آج دن وہ سزا کی طرح لگا
ہے کون اور آیا کہاں سے خبر نہیں
وہ دیکھنے میں اہلِ وفا کی طرح لگا
چھوٹا سا اک پہاڑ ہے جو میرے گاؤں میں
مجھ کو عزیز کوہِ صفا کی طرح لگا
اس کے فریب میں بھی نظر آئی روشنی
وہ راہزن تھا راہِ نما کی طرح لگا
محسوس کر رہا تھا میں اس کے وجود کو
آنکھوں سے دور ہو کے ہوا کی طرح لگا
بے بس سمجھ کے مجھ پہ جو احسان کر گئے
وہ ہر کرم تمہارا جفا کی طرح لگا
دن رات سامنا تھا مرا سانحات سے
یہ دورِ زیست مجھ کو بلا کی طرح لگا
جو میرا کرب دیکھ کے ہمدرد ہو گیا
اس کا وجود کالی گھٹا کی طرح لگا
اچھا تھا یا برا تھا مسیحا مرا مگر
ساحرؔ خلوص اُس کا دوا کی طرح لگا
——
حق بات کرنے والے سرِ دار آ گئے
راہِ خدا میں صاحبِ ایثار آ گئے
جو خوش تھے زیرِ سایۂ دیوار آ گئے
بیزار ہم تھے ، زیست سے بیزار آ گئے
اس آس میں کہ آئے گا رحمت کو اُس کی جوش
ظلمت میں روشنی کے طلبگار آ گئے
بازارِ سیم و زر ہے کہ بازارِ حسن ہے
پل بھر میں دیکھو کتنے خریدار آ گئے
یہ نفرتوں کی آندھی اُکھاڑے گی شہر کو
ہر موڑ پہ چھپے ہوئے عیّار آ گئے
نکلا زباں سے لفظ جو موتی سے کم نہ تھا
سچ جُرم ہے تو مرنے کو تیار آ گئے
دستک ہی دیں کہ کھولنے کوئی تو آئے گا
مدت سے ہم قریبِ درِ یار آ گئے
ساحرؔ وہ ہوں گے بزمِ سخن میں غزل سرا
لو شام سے ہی تشنۂ دیدار آ گئے
——
حوالہ جات
——
شعری انتخاب از ابھی منزل نہیں آئی ، مصنف ساحر شیوی
شائع شدہ : 1996 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ