اردوئے معلیٰ

Search

آج تحریک پاکستان کی مشہور خاتون رہنما، سفارت کار اور معروف ادیبہ بیگم ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ کا یومِ وفات ہے۔

 

شائستہ اکرام اللہ(پیدائش: 22 جولائی 1915ء – وفات: 10 دسمبر 2000ء)
——
بیگم شائستہ اکرام اللہ کا نام شائستہ اختر بانو سہروردی ہے۔ وہ ۲۲؍جولائی ۱۹۱۵ء؁ کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ نواب عبد للطیف کی پوتی تھیں اور والد لیفٹیننٹ کرنل حسّان سہروردی ایک سرجن تھے۔آپ برطانوی وزیر ہند کے مشیر رہے اوربعد میں کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے۔ شائستہ ان کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ انھوں نے لوریٹو ہاؤس کلکتہ سے اسکولی تعلیم حاصل کی پھر کلکتہ یونیورسٹی سے بی اے آنرس کیا۔ ۱۹۳۳ء؁ میں ان کی شادی بھوپال کے محمد اکرام اللہ سے ہو گئی۔ شادی کے بعد ان کی تعلیم اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز،SOAS لندن یونیورسٹی سے ہوئی۔وہ پہلی مسلم خاتون ہیں جن کو ۱۹۴۰ء؁میں لندن یونیورسٹی سے Ph.Dکی سند تفویض ہوئی۔انھوں نے درج ذیل عنوان سے اردو ناول اور افسانوں کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا ؏
A CRITICAL SURVEY OF THE DEVELOPMENT OF URDU NOVEL AND SHORT STORIES
شائستہ کی دیگر تصنیفات حسب ذیل ہیں ؏
——
LETTERS TO NEENA, published in 1951. (لیٹرز ٹو نینا)
BEHIND THE VEIL, published in 1953. (بیہائینڈ دی ویل)
FROM PURDAH TO PARLIAMENT,published in 1963. فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ (اردو ترجمہ پردے سے پارلیمنٹ تک))
HUSEYN SHAHEED SUHARWARDY:A BIOGRAPHY:published in 1991.
ENGLISH TRANSLATION OF MIR’ATUL UROOS
اے کریٹیکل سروے آف دی ڈیولپمنٹ آف دی اردو ناول اینڈ شارٹ اسٹوری
دلی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے
——
انھوں نے FROM PURDAH TO PARLIAMENTکا اردو ترجمہ کیا تاکہ عام لوگ اسے پڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ سفرنامہ اور دلی کی بیگمات کی کہاوتیں اور محاورے اردو میں ہیں۔بیگم شائستہ اکرام شادی سے پہلے شائستہ اختر سہروردی کے نام سے افسانے لکھا کرتی تھیں۔ان کے افسانے اس وقت کے موقر جریدوں جیسے ہمایوں، ادبی دنیا، عصمت، تہذیب ، عالمگیروغیرہ میں مستقل شائع ہوتے تھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’ کوشش ناتمام ‘کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔’شائستہ سہروردی اکرام اللہ کی منتخب تحریریں
——
یہ بھی پڑھیں : پکارا ہم نے جو ” اُن ” کو
——
۔ماہنامہ عصمت ، ۱۹۳۴ء؁ سے ۱۹۸۸ء؁ تک ‘ان کے مضامین کا مجموعہ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔
شائستہ کا تعلق ایک متمول اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ان کے دادا بحر العلوم مولانا عبید اللہ عبیدی سہروردی مدناپور کے باشندے تھے ۔انھوں نے مدرسۃ العالیہ سے تعلیم حاصل کی ۔۱۸۸۵ء؁ میں ڈھاکہ میں آپ کا انتقال ہوا۔آپ اینگلو اسلامک اسٹڈیز کے حامی تھے۔آپ نے ہی بنگال میں تعلیم نسواں کے لئے موافق فضا تیار کی۔آپ کے دو بیٹے حسّان سہروردی ، عبد اللہ المامون سہروردی اور ایک بیٹی خجستہ اختر بانو تھیں۔پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی (۱۲؍ ستمبر ۱۹۵۶ء؁ تا ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء؁) بیگم خجستہ اختر بانو کے صاحبزادے تھے۔بیگم خجستہ اختر پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جنھوں نے سینیر کیمبرج پاس کیا تھا۔ وہ اردو رسائل میں لکھا کرتی تھیں۔شائستہ کا نانہال نوابین کا گھرانہ تھا اور ان کی والدہ ایک روایتی خاتون تھیں۔شائستہ سہروردی محمد اکرام اللہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔محمد اکرام اللہ ہندوستان کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ان کے والد خان بہادر حافظ محمد ولایت اللہ کا تعلق بھوپال کے شاہی خاندان سے تھا۔ان کی پیدائش ۱۹۰۳ء؁ میں بھوپال میں ہوئی۔اکرام اللہ ۱۹۳۴ء؁ میں انڈین سول سروسیزمیں آ گئے۔ ۱۹۴۵ء؁ کے آس پاس انھوں نے اقوام متحدہ لندن اور سان فرانسسکو میں preparatory commissionمیں اہم خدمات انجام دیں۔پاکستان کے قیام کے بعد آپ بھوپال سے کراچی منتقل ہو گئے۔محمد علی جناح نے خارجہ سیکریٹری کا عہدہ آپ کے سپرد کیا۔آپ نے اقوام متحدہ میں کئی مرتبہ پاکستان کی قیادت کی۔ آپ کینیڈا اور یو کے میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے اور پرتگال اور فرانس کے سفیر بھی بنائے گئے۔Common wealth Economic Committeeقائم کرنے میں اکرام اللہ پیش پیش رہے۔وہ کامن ویلتھ سیکریٹری جنرل بھی منتخب ہوئے اور اسی عہدے پر رہتے ہوئے ۱۹۶۳ء؁ میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔آپ کے چھوٹے بھائی محمد ہدایت اللہ ۱۹۶۸ء؁ سے ۱۹۷۰ء؁ تک ہندوستان کے چیف جسٹس اور ۱۹۷۹ء؁ سے ۱۹۸۴ء؁ تک نائب صدر جمہوریہ ہند رہے۔کچھ وقت تک آپ نے کار گذار صدر جمہوریہ کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔۸۶؍برس کی عمر میں ۱۹۹۲ء؁ میں ہدایت اللہ کا انتقال ہو گیا۔شائستہ اکرام اللہ کا ایک بیٹا انعام اکرام اللہ(۱۹۳۴ء؁ سے ۲۰۰۴ء؁) اور تین بیٹیاں ناز اشرف(۱۹۳۸ء؁)، سلمیٰ سبحان(۱۹۳۷ء؁ سے ۲۰۰۳ء؁) اور ثروت (۱۹۴۷ء؁)ہیں۔ناز اشرف مشہور آرٹسٹ ہیںجب کہ سلمیٰ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ رحمٰن سبحان کی ہمسر بنیں۔ثروت اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن بن طلال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : واقفِ آدابِ محفل بس ہمیں مانے گئے
——
سہروردی خاندان ہمیشہ سیاست میں سرگرم رہا۔شائستہ نے بہت چھوٹی عمر سے ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔۱۹۳۱ء؁ میں جب وہ محض سولہ برس کی تھیں تب انھوں نے پہلے عوامی جلسے کو خطاب کیا۔جد و جہد آزادی میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس دوران ان کے شوہر ملازمت کے سلسلے میں دہلی منتقل ہوئے تو وہ محمد علی جناح کے رابطے میں آئیں اور مسلم لیگ میں باضابطہ طور پر شامل ہو گئیں۔فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر ویمن اسٹوڈنٹس فڈریشن آف مسلم لیگ قائم کی اور خواتین کو مسلم لیگ سے جوڑنا شروع کر دیا۔تحریک پاکستان کی وہ زبردست حامی رہیں۔قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہو گیا۔۱۹۴۷ء؁ کی پاکستان اسمبلی میں دو خاتون ایک بیگم جہان آرا شاہنواز اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ شامل کی گئیں۔شائستہ نے اسمبلی کی کاروائی کو کراچی کے ساتھ ڈھاکہ میں بھی چلانے کی مانگ کی۔ان دونوں خواتین نے پاکستانی پارلیمنٹ میں Islamic Personal Law of Shariatنافذ کرانے کے لئے جان لگا دی۔اس میں خواتین کے جائیداد میں حصے، خواتین اور مردوں کو یکساں حقوق، ایک جیسی مزدوری، برابر مواقع اور برابر مرتبے کی مانگ تھی۔اس کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔بالآخر ۱۹۴۸ء؁ میں یہ قانون پاس ہوااور ۱۹۵۱ء؁ میں نافذ کر دیا گیا۔انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے رشتے استوار کرنے کے لئے Common Heritageکا آئیڈیا بھی پیش کیا۔شائستہ نے حقوق انسانی کے لئے ۱۹۴۸ء؁ میں اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی۔وہ ۱۹۶۴ء؁ سے ۱۹۶۷ء؁ تک مراقش میں پاکستان کی سفیر رہیں۔انھوں نے خواتین کے لئے اس وقت صدائے احتجاج بلند کی جب سماج میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ایک خاتون اپنے دماغ کا استعمال کر سکتی ہے، اس بات کو مرد حضرات قبول نہیں کر پا رہے تھے۔شائستہ نے ثابت کیا کہ وہ ہر میدان میں دم خم کے ساتھ اپنی بات نہ فقط رکھ سکتی ہیں بلکہ منوا سکتی ہیں۔ انھوں نے خواتین کی پردے کی پابندی کے خلاف احتجاج کیا اور اس موضوع پر ایک کتاب Purdah to Parliamentلکھی جو کافی حد تک ان کی اپنی داستان پر مشتمل ہے۔
Empowered Women Empower Womenکا قول دراصل شائستہ کی شخصیت پر صادق آتا ہے۔ان کا زمانہ وہی ہے جو عصمت چغتائی(۲۱؍اگست ۱۹۱۵ء؁ تا ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء؁)، رشید جہاں (۲۵؍ اگست ۱۹۰۵ء؁ تا ۲؍جولائی۱۹۵۲ء؁)، قرأۃ العین حیدر ۲۰؍ جنوری ۱۹۲۷ء؁ تا ۲۱ اگست ۲۰۰۷ء؁) وغیرہ کا ہے۔
شائستہ نے اپنے تحقیقی مقالے میں صنف کے اعتبار سے پہلا ناول، ناول کی صنف کا ارتقاء اور اس کی ہیئت، ناول نگاری کے لئے مغرب سے رابطہ اور ادب پر مغربی افکار کے اثرات ، فورٹ ولیم کالج کا نثر کے فروغ میں اہم کردار، سرشار کا فسانہ آزاد، نذیر احمداور شرر یعنی ۱۸۳۶ء؁ سے لے کر ۱۹۲۶ء؁ تک کا عرصہ، ان مذکورہ حضرات کی اتباع کرتے ہوئے ناول نگاری، راشد الخیری، خواتین ناول نگار، صنف افسانہ، یوروپ میں اس کی پہل، اودھ پنچ کے اسکٹ یا طنزیے، مکمل افسانے، خواتین افسانہ نگار ، پریم چند اور ان کی تقلید میں لکھے گئے افسانے، ادب میں سوشلسٹ رجحان، مزاح نگاری اور ناول اور افسانے کے مستقبل جیسے وقیع عنوانات پر گفتگو کی ہے۔ذیل کی سطور میں اجمالاً ان پر روشنی ڈالتے ہوئے خواتین ناول نگار اور افسانہ نگاروں کے نام اور ان کی تخلیقات درج کی گئی ہیں۔شائستہ نے ناول ہو یا افسانہ ، ان کے کرداروں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔یہ تحقیقی مقالہ ۱۹۴۰ء؁ میں لکھا گیا لیکن اردو ناول اور افسانے کے اول نقوش سے واقفیت کے لئے اس کا مطالعہ سود مندثابت ہو گا۔
——
یہ بھی پڑھیں : یہ اکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا
——
شائستہ اکرام اللہ اردو ناول پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ رچرڈسن کا ناول پامیلا پہلا مکمل ناول ہے جو ۱۷۴۲ء؁ میں شائع ہوا نیز ناول نگاری روس میں اپنے کمال کو پہنچی۔کوئی انگریز ناول نگار ٹالسٹائے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ان کے مطابق ناول کی ہیئت میں پلاٹ کیریکٹر سبک تحریر اور تخلیق کار کا اپنا نظریہ شامل ہوتے ہیں۔ہندوستان میں ناول نگاری کی شروعات مغرب سے رابطے میں آنے کے بعد ہوئی۔اس وقت شاعری اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی۔انگریزوں کی آمد نے مغرب کے درواکئے تو نئے خیالات بھی ان کے ساتھ داخل ہونے شروع ہو گئے۔شاعری جو ترک دنیا کی ترغیب دیتی تھی ، اب وہ خیال جاتا رہا۔ لوگوں کے ذہن میں دنیا میں رہ کر دنیا کو سمجھنے کا خیال سرایت کر گیا۔اس خیال کے اظہار کے لئے نثرزیادہ موزوں تھی۔نثر کو اظہار کا ذریعہ بنا کر سر سید احمد خاں اور مولانا حالی جیسی شخصیات ادب کے منظر نامے پرنمودار ہوئیں۔اس طرح مغرب کے ذریعہ اردو ادب میں ایک انقلاب آ گیا ۔ اس انقلاب نے نہ فقط فکری سطح پر بلکہ عملی سطح پر فورٹ ولیم کالج کی شکل میں اپنے پرچم نصب کر دئے۔یہی فورٹ ولیم کالج نثر نگاری کے فروغ کااولین مرکز قرار پایا۔اس کا خاص مقصد انگریز ملازمین کو مقامی زبان سے آشنا کرنا تھا۔فورٹ ولیم کالج سے پہلے نثر میں جو مواد ملتا تھا وہ دکن کی مذہبی تحریریں تھیں۔ہر زبان کی خوبی ہے کہ ا س میں شعر نثر سے پہلے آتا ہے اسی لئے رومانس کو قلمبند کرنے کی ابتدا مثنوی سے ہوئی۔نثر میں طلسم ہوشربا اور فسانہ عجائب جیسی تخلیقات منظر عام پر آئیں۔اس کے بعد پنڈت رتن ناتھ سرشار نے فسانہ آزاد پیش کی۔نذیر احمد اور شرر کے ناول ، ابتدائی ناول ہیں۔ پھر ان کی اقتدا میں ناول لکھے گئے۔ان تخلیق کاروں میں منشی سجاد حسین، قاری سرفراز حسین، راشد الخیری وغیرہ کے نام شامل ہیں۔اسی زمانے میں کئی خواتین ناول نگار نے اپنی موجودگی درج کرائی۔ان کے ناول سماجی نوعیت کے ہیں جو اصلاح کی غرض سے لکھے گئے۔انھیں اس وقت بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ان میں محمدی بیگم کا نام سب سے اہم ہے۔یہ خواتین اخبار کی پہلی خاتون ایڈیٹر تھیں اس لئے ان کی تخلیقات زیادہ مقبول ہوئیں۔ان پر نذیر احمد کا رنگ حاوی ہے۔ انھوں نے کم و بیش دس کتابیں لکھیں جن میں زیادہ تر گھریلو تعلیم اور کام کاج پر زور دیا گیا ہے۔فقط تین ایسی تخلیق ہیں جنھیں ناول کہا جاسکتا ہے ۔شریف بیٹی، صفیہ بیگم اور آجکل۔چندن ہار کا شمار افسانوں کے زمرہ میں ہو سکتا ہے یا یہ موپانسا کے نیکلیس کا ترجمہ ہے۔نظر سجاد حیدر نے چار ناول اور متعدد افسانے لکھے۔وہ بہت کم عمر کی تھیں تبھی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ان کے مضامین عصمت میں مسلسل شائع ہوتے تھے۔عباسی بیگم نے ایک ناول زہرہ بیگم کے عنوان سے لکھامگر تہذیب میں آپ کے مضامین اکثر شائع ہوتے۔والدہ افضل علی کا ناول گدڑی کا لعل پہلے شریف بی بی میں قسط وار چھپا اس کے بعد ۱۹۱۱ء ۔۱۹۱۲ء کے آس پاس کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔ اسی دور کے دو اور ناولوں کا ذکر شائستہ کرتی ہیں جن میں خواتین تخلیق کار نے اپنے نام درج نہیں کئے ہیں۔یہ دو ناول روشنک بیگم اور شوکت آرا بیگم کے عنوان سے ہیں۔ایک اور ناول حسن آرا بیگم کی تخلیق کار بیگم شاہ نواز ہیں ۔ ان کے بھی مضامین تہذیب نسواں میں کثرت سے شائع ہوئے۔ان کے علاوہ ضیاء بانو بیگم کا ناول انجام زندگی ، مسز خدیو جنگ کا انوری بیگم اور مسز ہمایوں مرزا کا ناول سر گذشت ہاجرہ بھی اسی زمانے کی تخلیقات ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
افسانے یا شارٹ اسٹوری کے بارے میں شائستہ فرماتی ہیں کہ افسانہ کم الفاظ میں زیادہ دلچسپی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ہندوستان میں افسانہ نگاری کی ابتداء سے قبل افسانہ یوروپین ادب میں اپنی موجودگی درج کرا چکاتھا۔سب سے پہلے فرانس نے اس صنف کو ادب کا درجہ دے دیا ۔اردو کے شروعاتی افسانہ نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، احمد علی، ایم اسلم، نیاز فتحپوری، حجاب اسمٰعیل، راشدہ ظفر، علی عباس حسینی وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔اکثر ناول نگاروں کو افسانہ نگاری میں بہتر شناخت ملی۔ان کو ۱۸۷۷ء؁ سے شائع ہونے والے اودھ پنچ نے بہت سہارا دیا۔اودھ پنچ خواتین کا مذاق اڑاتا تھا۔مثلاً منشی سجاد حسین نے اپنی اسکٹ میں کانفرنس اور میٹنگ اٹینڈ کرنے والی خواتین کو انڈے بچے والی چیل چلہار کہا۔منشی جوالا پرساد برق نے مردوں والے کام کر نے والی خواتین کے بارے میں کہا ۔۔’دوگنا رنج و عذاب است جان ladyرا۔ بلای فرقت پردہ و صحبت پردہ ، کالی بیوی گوری بیوی جیسی اسکٹ میں خواتین کی تضحیک کی گئی۔
۱۹۰۰ء ؁سے ۱۹۲۵ء ؁تک مخزن میں شائع ہونے والی خواتین افسانہ نگاروں میں عباسی بیگم اور نظر سجاد حیدر دو اہم نام ہیں۔ان کے افسانے تہذیب ، عصمت اور تمدن میں بھی دستیاب ہیں۔ عباسی بیگم کے مشہور افسانوں میں گرفتار قفس، جو پردے کے موضوع پر ہے ۱۹۱۵ء؁ میں شائع ہوا۔ظلم بیکساں ،خواتین پر مرد حضرات کے مظالم کو لے کر لکھا گیا ہے ۔اس کے علاوہ ایک افسانہ دو شاہزادیاں عنوان سے ہے۔
نظر سجاد حیدر کے خون ارمان ،حور صحرائی ، نیرنگ زمانہ ، حق بہ حقدار وغیرہ اچھے افسانے ہیں۔ گو کہ ان کے دو ناول اختر النساء اور حرماں نصیب میں ان کی اپنی داستان نظر آتی ہے۔ تہذیب میں اکثر خواتین کے اچھے افسانے شائع ہوتے تھے۔جیسے انجمن آرا کا ریل کا سفر۱۹۱۵ء؁، آصف جہاں کے کئی افسانے شش و پنج ۱۹۱۵ء؁ ، تیسری تاریخ کا چاند ۱۹۱۸ء؁ ، مشق ستم اور سالگرہ ۱۹۲۰ء؁ ، کوکب از سعیدہ ۱۹۱۹ء؁ ، ۔کئی اچھے افسانے ایسے شائع ہوئے جن میں تخلیق کار کا نام درج نہیں ہے جیسے ندامت ۱۹۲۴ء؁ ، مرتا کیا نہ کرتا ۱۹۲۵ء؁ ، عجلت بیجا ۱۹۲۵ء؁ وغیرہ۔ بغدادی بیگم نے بھی کئی افسانے لکھے اور تاج النساء جو رنج و راحت کی تخلیق کار ہیں وہ بھی مستقل لکھتی رہیں لیکن کسی کا مجموعہ نہ شائع ہو سکا۔یہاں ایک نام خاتون اکرم کا ابھرتا ہے جن کے افسانوں کا مجموعہ گلستان خاتون کے نام سے شائع ہوا۔اس کے علاوہ دو طویل کہانیاں پیکر وفا اور بیچاری بیٹی بھی چھپیں۔ گلستان خاتون کے تمام افسانے ۱۹۱۸ء؁ سے ۱۹۲۰ء؁ کے درمیان کے ہیں جب خاتون اکرم کی عمر مشکل سے ۱۸۔۲۰ برس رہی ہوگی۔ان پر پریم چند کا بھرپور اثر نظر آتا ہے۔اس کی مثال ان کی بلاے آمدنی اور آرزو پر قربان کہانیاں ہیں۔ اگلا نام امت الوحی کا ہے جن کے افسانے دلچسپی سے بھرپور ہوتے تھے اور ان کے انجام قاری کو چونکاتے تھے۔شہید وفا ان کا مشہور افسانہ ہے جس میں نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ زبیدہ زرین جو ہمایوں اور ادبی دنیا میں لکھا کرتی تھیں ان کے افسانوں کا مجموعہ ادب زرین کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی زمانے میں راحت آرا بیگم کے کئی افسانوی مجموعے پریمی، بانسری کی آواز، گن چھپانا وغیرہ منظر عام پر آئے۔عصمت اور تہذیب میں چھپنے والی دو اچھی افسانہ نگار حجاب اسمٰعیل اور راشدہ ظفر مقبول ہوئیں۔ ان کے بعد عصمت چغتائی ، صالحہ عابد حسین، مہر النساء بیگم وغیرہ کے افسانے قاری کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر احمد عقیل روبی کا یوم پیدائش
——
شائستہ نے اپنے تحقیقی مقالے میں نذیر احمد، شرر اور سرشار کی تخلیقات پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کے بعد ان لوگوں کی اتباع میں جن لوگوں نے لکھا ، پریم چند اور ان کی تقلید کرنے والوں کے ناول اور افسانے پھر سوشلسٹ نظریہ رکھنے والے تخلیق کار جیسے راشدہ ظفر، علی سردار جعفری ،احمد علی، حیات اللہ انصاری، ایم اسلم وغیرہ کے افسانوں پر بحث کی ہے۔ راشدہ ظفر کے افسانے درگا، عورت وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مجموعے ’عورت اور دوسرے افسانے ‘ میں احتجاجی رجحان کھل کر سامنے آتا ہے۔حجاب اسمٰعیل جو اب مسز امتیاز علی تاج ہو گئی تھیں ان کے افسانوں میں رومانس اور آرام و آسائش کی زندگی داخل ہو چکی تھی ۔اودھ پنچ کے مزاحیہ افسانے بھی بہت مقبول ہوئے۔ اسی اثناء سید امتیاز علی تاج نے چچا چھکن کا کردار متعارف کرایا۔مزاح نگاروں میں عظیم بیگ چغتائی،شوکت تھانوی اور مرزا فرحت اللہ بیگ سامنے آئے۔ ملا رموزی ، ایم اسلم اور عظیم بیگ چغتائی نے چچا چھکن جیسے کردار پیش کئے۔انھیں دنوں عبد الماجد سالک، سلطان حیدر جوش ، احمد شجاع وغیرہ بہت سنجیدہ افسانے لکھ رہے تھے۔یہاں تک پہنچتے پہنچتے ناول اور افسانے کی صنفیں پختہ ہو گئیں اور اب غزل کی جگہ لوگ انھیں پڑھ کر لطف اندوز ہونے لگے۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اردن کے سابق ولی عہد شہزادہ حسن اور بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ رحمن سبحان کی خوش دامن تھیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔
10 دسمبر 2000ء کو بیگم شائستہ اکرام اللہ متحدہ عرب امارات میں وفات پاگئیں۔وہ کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔
——
حوالہ جات
——
مضمون : بیگم شائستہ اکرام اللہ ، چند معروضات از پروفیسر صالحہ رشید
دی سورس بھارت میں 2 مئی 2021 ء کو شائع ہوا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ