آج ممتاز شاعر ، صحافی اور جریدہ "نقش” کے مدیر شمس زبیری کی برسی ہے۔

——
شمس زبیری 1917ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو سے وابستگی اختیار کی اور مصلح زبان کے فرائض انجام دیتے رہے اسی دوران انہوں نے ایک ادبی جریدہ نقش جاری کیا جو اپنے زمانے کا ایک بڑا مقبول ادبی جریدہ تھا۔ یہ جریدہ دیگر ادبی رسائل میں چھپنے والی مقبول ترین اور بہترین اصناف ادب کاانتخاب یکجا کرکے پیش کرتا تھا اور یوں اس کے ذریعہ قاری کو ایک ہی جریدے کے ذریعے تمام ادبی جریدوں میں شائع ہونے والا بہترین ادب ایک ہی جگہ پڑھنے کو مل جاتا تھا۔
3 ستمبر 1999ء کو ممتاز شاعر اور صحافی شمس زبیری قادر آباد حجرہ شاہ مقیم اوکاڑہ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
اکبر روڈ پر واقع شمس زبیری کے ادارے ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے بچوں کا پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ اور ادبی جراید کے انتخاب پر مبنی ’’نقش‘‘ نکلا کرتا تھا۔
عبیداللہ بیگ صاحب کا نام پہلے حبیب اللہ بیگ تھا اور وہ اسی نام سے بچوں کے رسالے ” میرا رسالہ ” میں لکھا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں ایک ماہانہ ادبی رسالہ ” نقش ” کے نام سے شایع ہوتا تھا جو ہر ماہ ادبی رسالوں سے انتخاب پیش کرتا تھا۔شمس زبیری صاحب اس کے ایڈیٹر تھے۔ اسی ادارے سے بچوں کے لئے ماہنامہ ” میرا رسالہ ” شایع ہوتا تھا حبیب اللہ بیگ صاحب اس میں کہانیاں لکھا کرتے تھے۔
ایک دلچسپ واقعہ بھی حاضرِ خدمت ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ریاض مجید کا یوم پیدائش
——
پچاس کی دہائی کا تذکرہ ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ارم لکھنوی اور شمس زبیری ’’مصلح زبان‘‘ کی ملازمتوں پر فائز تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ریڈیو پر پڑھے جانے والے الفاظ کا تلفظ درست کروائیں۔ مگر قباحت یہ تھی کہ ارم لکھنوی‘ لکھنوی تلفظ کے ماہر تھے اور شمس زبیری‘ دہلوی تلفظ کے ‘ جس کی وجہ سے ان دونوں میں اکثر تکرار بھی ہو جاتی تھی۔ ایک دن زیڈ اے بخاری صاحب کو شکایت ملی کہ کل کسی لفظ کے تلفظ کی صحت پر ارم لکھنوی اور شمس زبیری میں تکرار اتنی بڑھی کہ نوبت گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔ بخاری صاحب نے ارم لکھنوی کو بلایا اور وجہ پوچھی۔ ارم صاحب نے کہا : ’’ایک تو زبیری صاحب کو فلاں لفظ کا صحیح تلفظ نہیں معلوم‘ پھر مجھے گالی دی تو اس کا تلفظ بھی غلط تھا۔ میں نے تو صرف ان کا تلفظ درست کرنے کے لئے وہی گالی درست تلفظ کے ساتھ دہرائی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میں نے جوابی گالی دی۔‘‘
——
منتخب کلام
——
کبھی آتشِ غمِ عشق تھی کبھی آتشِ غمِ زندگی
مرے دل میں آگ لگی رہی کٹی عمر سوز و گداز میں
——
سودا وہ سما گیا ہے سر میں جچتا ہی نہیں کوئی نظر میں
پہچان رہا ہوں دشمنوں کو کچھ دوست بھی ہیں مری نظر میں
——
ہم اور ڈریں بادِ مخالف سے غلط ہے
ہم گردشِ دوراں سے کئی بار لڑے ہیں
——
کہ اور بھی مرے نزدیک آۓ جاتے ہیں
اس التفات گریزاں کو نام کیا دیجیے
جواب دیتے نہیں مسکراۓ جاتے ہیں
نگاہ لطف سے دیکھو نہ اہل دل کی طرف
دلوں کے راز زبانوں پہ آۓ جاتے ہیں
وہ جن سے ترک تعلق کو اک زمانہ ہوا
نہ جانے آج وہ کیوں یاد آۓ جاتے ہیں
تمہاری بزم کی کچھ اور بات ہے ورنہ
ہم ایسے لوگ کہیں بن بلاۓ جاتے ہیں
یہ دل کے زخم بھی کتنے عجیب ہیں اے شمسؔ
بہار ہو کہ خزاں مسکراۓ جاتے ہیں
——
ہم ترک تعلق کا گلا بھی نہیں کرتے
تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
تم شوق سے اعلان جفا پر رہو نازاں
ہم جرأت اظہار وفا بھی نہیں کرتے
مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
ہم جرأت گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
ہر حال میں مقصد ہے سفر محو سفر ہیں
ناکامی پیہم کا گلا بھی نہیں کرتے
مدت سے ہے خاموش فضا دار و رسن کی
اب جرم وفا اہل وفا بھی نہیں کرتے
کیا جانئے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
بت ایک طرف ذکر خدا بھی نہیں کرتے