آج اردو کے صاحب طرز شاعر ‘شاعر لکھنوی’ کا یوم وفات ہے

(پیدائش: 16 اکتوبر 1917ء – وفات: 23 ستمبر 1989ء)
——
شاعر لکھنوی (محمد حسن پاشا) لکھنؤ کے روایتی انداز شاعری سےالگ ہٹ کر اپنی شاعری کے لئے نیا انداز وضع کرنے کے سبب جانے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فرمان فتح پوری نے انہیں لکھنؤ کا غیر لکھنوی شاعر قرار دیا ہے۔ ان کی پیدائش لکھنؤ میں 1917 کو ہوئی۔ لکھنؤ کے شعر وادب کے ماحول میں تربیت اور اساتذۂ سخن کی قربت نے ان کے شعری ذوق کو جلا بخشی اور بہت چھوٹی عمر میں اچھی شاعری کرنے لگے۔
1948 میں وہ پاکستان چلے گئے، کسب معاش کے لئے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ ’پاکستان ہمارا ہے‘ کے عنوان سے ان کے ریڈیو فیچر بہت مقبول ہوئے۔ شاعر لکھنوی نے بچوں کے لئے نظمیں بھی لکھیں۔
——
خود نوشت از شاعر لکھنوی
——
میرا نام حسن پاشا اور قلمی نا شاعر لکھنوی ہے۔ ۱۶ نومبر ۱۹۱۷ء کو لکھنو کی خاک پر اپنے وجود کی آنکھ کھولی۔ والد محترم منظور احمد صدیقی قصبہ امیٹھی بندگی میاں ضلع لکھنو کے ایک معزز زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ میری عمر بمشکل ۵ برس کی تھی کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والدہ محترمہ مجھ سے دو سال چھوٹا ایک بھائی اور آٹھ سال بڑی ایک بہن، یہ تھی کل کائنات۔ زندگی بسر کرنے کی جدو جہد میں تمام زمینداری رفتہ رفتہ فروخت ہو کر رہ گئی۔ شدیدمالی مشکلات کے باعث مدرسہ کی تعلیم بھی ختم ہو گئی۔ ملازمت کے سوا بسر اوقات کا کوئی ذریعہ نہیں رہا۔ عزیزوں اور رشتہ داروں نے کوئی مدد نہیں کی۔ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتا رہا۔ بہن کی شادی قصبہ کا کوری ضلع لکھنو کے ایک زمیندار خاندان میں ہو گئی۔ جب آہستہ آہستہ معاشی حالات کچھ بہتر ہوئے تو ارباب علم و دانش اور صاحبان فضل و کمال کی صحبتوں میں بیٹھ بیٹھ کرحصول علم کے ذوق کو آسودہ کیا۔ میری ادبی و ذہنی تربیت میں مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی کا اسم گرامی خصوصیت ے ساتھ قابل ذکر ہے۔؏
۱۹۳۲ سے ادبی محافل میں شرکت کی ابتداء کی۔ لکھنو میں میری شہرت کا آغاز کرسچین کالج کے ایک بڑے مشاعرے سے ہوا جس میں نو جوان شعراء میں میری غزل حاصل مشاعرہ ٹھہری۔ ایک شعر یہ تھا
——
کر دیا دل کو ترے درد نے نازک ایسا
سانس بھی لی تو نکل آئے ہمارے آنسو
——
اس غزل کی مقبولیت کے بعد لکھنو کی گلیوں میں مجھے شاعرِ آنسو کے خطاب سے یاد کیا جانے لگا۔ اس کے بعد میری شہرت کا سفر شروع ہوا۔
غالباً ۱۹۴۶ء میں کانپور میں ایک بڑا مشاعرہ حبیب احمد صدیقی آئی سی ایس کی صدارت میں جو اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی حیثیت سے کانپور میں تھے ) منعقد ہوا جس میں یہ شعر حاصل مشاعرہ مانا گیا۔
——
عدم کے دوش پہ قائم ہے کائنات کا وجود
حقیقتوں کو سنبھالے ہوئے ہیں افسانے
——
یہ شعر ہندستان گیر شہرت و مقبولیت کا سبب بنا۔
۱۹۴۷ء میں بارہ دری قیصر باغ لکھنو کے سالانہ مشاعرہ میں میری غزل کا تاثر بہت گہرا رہا ہے۔ اس مشاعرے میں ہندستان کے تمام اساتذہ شریک تھے ۔ ایک شعر یہ تھا
——
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
——
۱۹۴۷ء کے آخر میں جامعہ نگر دہلی میں جگر مراد آبادی ، روش صدیقی، قدیر لکھنوی اور جلیل رام پوری کے ہمراہ مشاعرے میں شرکت کی اس کی صدارت ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے فرمائی تھی۔اس مشاعرے میں میری غزل کا اثر خصوصیت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔ اور اسٹیج سکریٹری نے میرے اس شعر کے حوالے سے نوجوان شعراء کو متوجہ کیا اور بتایاکہ گل و بلبل کی شاعری کا وقت گذر چکا ہے اب اس طرح کے اشعار کی ضرورت ہے۔
——
لہو بہانے کے بعد ہوتی ہے حاصل اک سرخی فسانہ
خزاں کے جھونکوں سے ڈرنے والے چمن کی تعبیر کیا کریں گے
——
میں نے شاعری کے سلسلے میں خود اپنے ذوق و وجدان شعری کو اپنا راہ نما بنایا۔ کسی پر اصلاح کی ذمہ داری نہیں ڈالی۔ البتہ بزرگ دوستوں اور اہل کمال کے مشوروں کی ہمیشہ قدر کی۔
اکتوبر ۱۹۴۸ء میں پاکستان کا رخ کیا اور ۱۹۵۰ء تک شوکت تھانوی کے ہمرا ہ رہا اور ریڈیو لاہور سے فیچر لکھتا رہا ۔ یہاں تک کے موقر پرچوں میں میرا کلام طبع ہوتا رہا۔پاکستان میں شعراء کے انتخاب کلام سے متعلق جو کتب منظر عام پر آئیں تقریباً سب میں میرے کلام کا انتخاب شامل ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مشہور کتاب’’ اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقاء ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی متغزلین اور غزل ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی اردو غزل ، نقوش کے نمبر اور نور الصباح بیگم کی کتاب پاکستان کی مشہور شخصیتیں میری نظر میں میرا ذکر اور کلام موجود ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری صدر شعبہ اردو جامعہ کراچی نے میرے بارے میں ایک تفصیلی مضمون میں لکھنو کا ایک غیر لکھنوی شاعر کے عنوان سے میری شاعری اور فن کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے۔ ادارہ ادبیات پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب اردو غزل میں بھی میرا کلام اور حالاتِ زندگی موجود ہیں۔
۱۹۷۹ء میں میرا پہلا مجموعہ غزل بروک بونڈ لمٹیڈ پاکستان کی طرف سے شائع ہوا۔ جس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ اب دوسرا مجموعہ نعت’’ مدح محمدکے نام سے مکمل ہو کر نعت کونسل آف پاکستان کے اشتراک سے اشاعت کا منتظر ہے۔ یہ مجموعہ تمام و کمال صنعت عاطلہ ( غیر منقوط)میں ہے۔ تیسار مجموعہ بچوں کی نظمو ں سے متعلق ترتیب کے آخری مراحل میں ہے۔ تنقیدی مضامین کی ترتیب زیر غور ہے۔
ادب و شعر کے تین ادوار کے مطالعے اور مشاہدے سے گذر چکا ہوں۔ فراق، فیض، اصغر، جگر، یاس ، یگانہ اور شاد عظیم آبادی کے رنگِ سخن سے متاثر ہوں۔جنوری ۱۹۵۱ء سے کراچی میں مقیم ہوں اور ایشیاء کے معروف ادارے ہمدرد پاکستان سے اسٹورز منیجر کی حیثیت سے وابستہ ہوں۔
——
تصانیف
——
نکہت و نور – مجموعہ نعت
زخم ہنر – مجموعہ غزلیات
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
نعت سرورِ کونین احمد مجتبٰی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم
——
کمال کچھ نہ رہا صاحبِ کمال کے بعد
ہر آئِنہ ہوا دندلا ترے جمال کے بعد
تری عطا کی ہے ہم عاصیوں پہ یوں تقسیم
کچھ انفعال سے پہلے ، کچھ انفعال کے بعد
دل اُن کا گھر ہے وہ اس گھر میں آتے رہتے ہیں
کبھی خیال سے پہلے ، کبھی خیال کے بعد
وہ اِس ادا سے گئے تا بہ منزلِ معراج
کہ ہر کمال کو سکتہ ہے اِس کمال کے بعد
کوئی مِثال نہیں تھی کوئی مِثال نہیں
تری مِثال سے پہلے تری مِثال کے بعد
عطائے سرورِ کونین کے فدا شاعرؔ
کہ دو جہاں مرے دامن میں ہیں سوال کے بعد
——
یہ بھی پڑھیں : وہی ہم اہلِ خطا کو نبی سے ملتا ہے
——
زخمِ ہنر کا رنگ سلامت سب کو خبر ہو جائے گی
کتنے چہرے ہم نے تراشے ہاتھ قلم ہو جانے تک
——
جُنبشِ موجِ صبا سے بھی بہک جاتی ہے
بُوئے گُل چل نہ سکے گی تری رفتار کے ساتھ
——
آنکھ کہتی ہے کہ دیکھا ہے انہیں ایک نظر
دل یہ کہتا ہے کہ برسوں کی شناسائی ہے
——
ہائے یہ زلف ، یہ رخسار ، یہ لب ، یہ آنکھیں
ہم سے پابندیِ آدابِ غزل ہو کہ نہ ہو
——
شگفتگی یہ گُلوں کی ، کلی کا یہ کھلنا
ترے ہی طرزِ تکلم سے استفادہ ہے
——
ہم تری یاد کے لمحوں کو کہاں لے جائیں
اب یہ عالم ہے کہ لو دیتی ہے تنہائی بھی
——
عشق کی شریعت میں وصل اور جدائی کیا
ایک ہی سا عالم ہے قید کیا رہائی کیا
——
پیار کی خوشبو پھیل گئی تو ہونی ہے رسوائی بھی
محفل سے گھبرانے والے مہکے گی تنہائی بھی
——
بہت بلند ہے شاعرؔ مذاقِ چارہ گری
جہاں پہ زخم نہیں ہے وہاں پہ مرہم ہے
——
وفا کی ایذا پسندیوں کو نشاطِ دل سازگار کیوں ہے
یہ سوچ کر اب تڑپ رہا ہوں کہ زندگی کو قرار کیوں ہے
مری تمنا کا ماحصل ہے چمن میں کلیوں کی مسکراہٹ
مجھے کچھ اِس سے غرض نہیں ہے بہار کیا ہے بہار کیوں ہے
نَفس نَفس پر یہ اہلِ دنیا نئے نئے طنز کر رہے ہیں
انھیں کچھ اس کی خبر نہیں ہے مجھے ترے غم سے پیار کیوں ہے
یقیں دلایا گیا تھا ہم کو کہ ہو گئی ہے سحر نمایاں
مگر یہ راہوں میں کیوں اندھیرے یہ منزلوں تک غُبار کیوں ہے
مجھے خوشی ہے کہ مسکرا کر میں چاک دامن کے سی رہا ہوں
انھیں یہ تشویش ہے کہ اب تک مرا جنوں ہوشیار کیوں ہے
اِسے تو عقل و جنوں سے ہٹ کر فقط محبت ہی طے کرے گی
جہاں کوئی آرزو نہیں ہے وہاں ترا انتظار کیوں ہے
جو غم سے گھبرا رہے ہیں شاعرؔ کوئی یہ اے کاش ان سے پوچھے
اگر سمجھنا ہے زندگی کو تو زندگی سے فرار کیوں ہے
——
خِرد تو گمراہ ہو چکی ہے جُنوں کو اب رہنما کریں گے
جہاں پہ ہے انتہائے منزل ، وہاں سے ہم ابتدا کریں گے
محبت اک سوزِ مشترک ہے ہم اس کی تشریح کیا کریں گے
نگاہ و دل کا معاملہ ہے ، نگاہ و دل فیصلا کریں گے
چلے تو ہیں بزمِ ناز میں ہم ہزار ضبطِ وفا کریں گے
مگر یہ بے اختیار آنکھیں برس پڑیں گی تو کیا کریں گے
قریب آتا ہے وہ زمانہ ہنسے گا بجلی پہ آشیانہ
جہاں کا ہز ذرہ برق ہو گا وہاں نشیمن بنا کریں گے
یہاں تو ایک ایک موجِ طوفاں بجائے خود ہے نویدِ ساحل
وہ لوگ جن کا خدا نہیں ہے وہ منتِ نا خدا کریں گے
جو نکہتوں میں بے ہوئے ہیں انھیں ضرورت نہیں چمن کی
جنھیں میسر ہے غم تمھارا ، غمِ جہاں کو وہ کیا کریں گے
ہے ایک طرف جام کی تمنا تو اک طرف ہے خیالِ توبہ
ذرا گھٹاؤں کا رنگ دیکھیں تو پھر کوئی فیصلا کریں گے
لہو بہانے کے بعد ہوتی ہے حاصل اک سرخی فسانہ
خزاں کے جھونکوں سے ڈرنے والے چمن کی تعمیر کیا کریں گے
ہزار دنیا مٹائے شاعرؔ مگر حقیقت رہے گی روشن
چراغ کاشانۂ محبت جلا کۓ ہیں ، جلا کریں گے
——
شعری انتخاب از زخمِ ہنر ، مصنف : شاعر لکھنوی
شائع شدہ : 1979ء ، متفرق صفحات