اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے نامور مزاح گو شاعر سید محمد جعفری کا یوم پیدائش ہے

سید محمد جعفری(پیدائش: 27 دسمبر 1905ء – وفات: 7 جنوری 1976ء)
——
سید محمد جعفری 27 دسمبر 1905ء کو پہرسر، بھرت پور، برطانوی ہندوستان کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد علی جعفری ماہر تعلیم تھے اسلامیہ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے اور اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ یوں سید محمد جعفری کی تمام تر تعلیم لاہور میں ہوئی۔
سید محمد جعفری میٹرک ڈی۔اے۔وی اسکول لاہور سے کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور کیمسٹری میں بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے (فارسی) اور ایم او ایل (ماسٹر آف اورئینٹل لرننگ) کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج لاہور سے حاصل کی ، پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں دوبارہ داخل ہوئے اور ایم اے (انگریزی) کی ڈگری اور میو اسکول آف آرٹس لاہور سے مصوری اور سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کی۔
قیام پاکستان کے بعد سید محمد جعفری مرکزی محکمہ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز ہوئے‘ اسی ملازمت کے دوران انہیں ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔
سید محمد جعفری نے 1940ء میں برطانوی ہندکی وزارت اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ دہلی میں شمولیت اختیا کی اور کراچی، لاہور، تہران اور ایران میں خدمات انجام دیں۔ اسی ملازمت کے دوران وہ فروری 1964ء میں ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی مقرر ہوئے جہاں سے وہ 1966ء میں ریٹائر ہو گئے.
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور ڈرامہ نگار علی سردار جعفری کا یوم وفات
——
سید محمد جعفری ایک صاحب اسلوب شاعر تھے انہوں نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر 900 کے لگ بھگ نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں خصوصاً انہوں نے غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی کوئی اور مثال اردو شاعری میں نظر نہیں آتی۔
7 جنوری 1976ءکو سید محمد جعفری کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں خراسان باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔
سید محمد جعفری کے انتقال کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخی تحریر اور تیرنیم کش کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ اب ان کی شاعری کی کلیات بھی کلیاتِ سید محمد جعفری کے نام سے بھی شائع ہو چکی ہے۔
——
سید محمد جعفری از احمد جمال پاشا
——
غالبؔ اور اکبرؔ کے بعد اردو کے سب سے اہم اور محترم طنزیہ اور مزاحیہ شاعر سید محمد جعفری ہیں ۔ یہ پیروڈی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ وہ اس فن کے امام ہیں ۔ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس میدان میں نہ ان کا کوئی حریف ہے اور نہ کوئی ثانی ۔
جعفری کا کمال یہ ہے کہ وہ مزاح کے پردے میں بڑی خوبصورتی سے نہ کہنے والی باتیں کہہ جاتے ہیں ۔
بنیادی طور پر جعفری نظم کے شاعر ہیں ۔ ان کی نظموں میں تضمین اور تحریف ملی جلی ہوتی ہے مگر اس آمیزش کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں غضب کا سلیقہ اور بے ساختگی پائی جاتی ہے ۔
شدید احساس ، گہرے مشاہدے ، بلیغ اشاریت ، وقیع رمز ، ندرتِ خیال ، حقیقی منظر کشی ، بے پناہ ذہانت ، برجستگی اور بے ساختگی ، اجتماعی شعور اور دلکشی کی گوناگوں خصوصیات کے سبب جعفری کا آبدار کلام عوام و خاص میں یکساں محبوب و مقبول ہے ۔
ان کا محبوب ان کی دنیا ہے اور وہ فرد یا افراد کی بجائے اداروں اور اجتماعی زندگی کی خامیوں پر طنز کرتے اور اس کے مضمحک پہلوؤں پر مسکراتے ہیں ۔
وہ زخموں کو کریدتے نہیں بلکہ ان پر پھاہا رکھتے ہیں ۔ موضوعات کی رنگا رنگی کے اعتبار سے جعفری اس دور کے نظیر اکبر آبادی ہیں اور ان کا کلام اس برصغیر کی نصف صدی کی تاریخ ہے ۔
کلاسیکی شعور اور ادبی روایات کے احترام کی وجہ سے ان کے کلام میں دلکشی اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔
کلرک ، یو این او ، وزیروں کی نماز ، بوفے ڈنر ، پرانا کوٹ ، جب لاد چلے گا بنجارہ اور کاغذ کا مرثیہ وغیری جعفری کے ایسے شاہکار ہیں جن کے بغیر اردو کی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کا کوئی انتخاب یا تذکرہ مکمل نہیں سمجھا جا سکتا ۔
——
نمونہ کلام
——
لا الہٰ الا اللہ ( روحِ قبال سے معذرت کے ساتھ )
——
کہا ہے منہ سے تو ہاں لا الہٰ الا اللہ
نہیں عمل سے عیاں لا الہٰ الا اللہ

خودی کو پال کے دُنبہ بنا دیا آخر
چھری ہو اس پہ رواں لا الہٰ الا اللہ
جو مولوی ہیں وہ کھاتے ہیں رات دن حلوے
بہار ہو کہ خزاں لا الہٰ الا اللہ
میں تجھکو کہتا ہوں حاجی تو مجھکو حاجی کہہ
فریبِ سود و زیاں لا الہٰ الا اللہ

نمازی آئیں نہ آئیں اذان تو دے دوں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہٰ الا اللہ
وہ لیڈری جو اجڑ جائے چند لفظوں سے
دوکانِ شیشہ گراں لا الہٰ الا اللہ
نہ نظم و ضبط ، نہ ایماں نہ اتحاد عمل
نہ منزلوں کا نشاں لا الہٰ الا اللہ
خودی جو خود کا مونث ہے گھر میں رہتی ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہٰ الا اللہ
عجیب نصف غزل جعفریؔ نے لکھی ہے
کہاں سے پہنچا کہاں لا الہٰ الا اللہ
——
اتنی گزری ہے گراں چیزوں کی ارزانی مجھے
ہو گیا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے
دودھ میں بالکل نظر آتا نہیں پانی مجھے
دل نے کر رکھا ہے محو صد پریشانی مجھے
”اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں”
——
جو چاند پر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو گپ اڑا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو ہنس ہنسا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
جو جی جلا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
ہیں آدمی کے سارے زمانے میں رنگ روپ
ہیں آدمی ہی چاندنی اور آدمی ہی دھوپ
——
ہڑتال کرنے سے نہ ٹلو میں نشے میں ہوں
اے غیر ملکیوں کی کلو میں نشے میں ہوں
میرا جلوس لے کے چلو میں نشے میں ہوں
پھر خاک سب کے منہ پہ ملو میں نشے میں ہوں
”یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں”
”اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں”
——
یہ بھی پڑھیں : نامور مصور, افسانہ نگار عبدالرحمٰن چغتائی کا یوم وفات
——
ایک نظم
ایبسٹریکٹ آرٹ
ایبسٹریکٹ آرٹ کی دیکھی تھی نمائش میں نے
کی تھی ازراہِ مروّت بھی ستائش میں نے
آج تک دونوں گناہوں کی سزا پاتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ کیا دیکھا تو شرماتا ہوں
صرف کہہ سکتا ہوں اِتنا ہی وہ تصویریں تھیں
یار کی زلف کو سلجھانے کی تدبیریں تھیں
ایک تصویر کو دیکھا جو کمالِ فن تھی
بھینس کے جسم پر اک اونٹ کی سی گردن تھی
ٹانگ کھینچی تھی کہ مسواک جسے کہتے ہیں
ناک وہ ناک خطرناک جسے کہتے ہیں
نقشِ محبوب مصوّر نے سجا رکھا تھا
مجھہ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا
یہ سمجھنے کو کہ یہ آرٹ کی کیا منزل ہے
ایک نقّاد سے پوچھا جو بڑا قابل ہے
سبزۂ خط میں وہ کہنے لگا رعنائی ہے
میں یہی سمجھا کہ ناقص مری بینائی ہے
بولی تصویر جو میں نے اُسے الٹا پلٹا
میں وہ جامہ ہوں کہ جس کا نہیں سیدھا الٹا
اُس کو نقاد تو اِک چشمۂ حیواں سمجھا
میں اسے حضرتِ مجنوں کا گریباں سمجھا
ایک تصویر کو دیکھا کہ یہ کیا رکھا ہے
ورقِ صاف پہ رنگوں کو گرا رکھا ہے
آڑی ترچھی سی لکیریں تھیں وہاں جلوہ فگن
جیسے ٹوٹے ہوئے آئینے پہ سورج کی کرن
بولا نقاد جو یہ آرٹ ہے تجریدی ہے
آرٹ کا آرٹ ہے تنقیدی کی تنقیدی ہے
تھا کیوب ازم میں کاغذ پہ جو اک رشکِ قمر
مجھ کو اینٹیں نظر آتی تھیں اُسے حسنِ بشر
بولا نقّاد نظر آتے یہی کچھ ہم تم !
خُلد میں حضرتِ آدم جو نہ کھاتے گندم
ابسٹریکٹ آرٹ بہر طور نمایاں نکلا
“قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا“
وہ خد وخال کہ ثانی نہیں جن کا کوئی آج
بات یہ بھی ہے کہ ملتا نہیں رنگوں کا مزاج
دیر تک بحث رہی مجھ میں اور اس میں جاری
تب یہ ثابت ہوا ہوتی ہے یہ اِک بیماری
اس کو کیوب ازم کا آزار کہا کرتے ہیں
اس کے خالق جو ہیں بیمار رہا کرتے ہیں
ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی
جس کو سمجھا تھا انناس، وہ عورت نکلی
ایبسٹریکٹ آرٹ کی اس چیز پہ دیکھی ہے اساس
“ تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس“
اس نمائش میں جو اطفال چلے آتے تھے
ڈر کے ماؤں کے کلیجوں سے لپٹ جاتے تھے
ایبسٹریکٹ آرٹ کا اِک یہ بھی نمونہ دیکھا
فریم کاغذ پہ تھا کاغذ جو تھا سُونا دیکھا
وہ ہمیں کیسے نظر آئے جو مقسوم نہیں
“ لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں معلوم نہیں“
ڈر سے نقادوں کے اِس آرٹ کو یوں سمجھے تھے ہم
“شاہدِ ہستئ مطلق کی کمر ہے عالم“
الغرض جائزہ لے کر یہ کیا ہے انصاف
آج تک کر نہ سکا اپنی خطا خود میں معاف
میں نے یہ کام کیا سخت سزا پانے کا
یہ نمائش نہ تھی اِک خواب تھا دیوانے کا
کیسی تصویر بنائی مرے بہلانے کو
اب تو دیوانے بھی آنے لگے سمجھانے کو
——
تحریر : اردو کے چار مزاحیہ شاعر از احمد جمال پاشا 1965 ء
شعری انتخاب از شوخیٔ تحریر 1987 ء ، تیرِ نیم کش 2007 ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ