اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر تلوک چند محروم کا یوم پیدائش ہے

تلوک چند محروم
——
(پیدائش: 1 جولائی، 1887ء- وفات: 6 جنوری، 1966ء)
——
تلوک چند محروم اردو کے عظیم شاعر تھے۔ محروم ان کا تخلص تھا۔ تلوک چند محروم یکم جولائی 1887ء میں تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔
محروم نے بعد بی اے تک روایتی تعلیم حاصل کی اور ایس اے وی فاصلاتی طور پر کامیاب کیا تھا۔ 1908ء میں مشن ہائی اسکول، ڈیرہ اسماعیل خان میں وہ انگلش ٹیچر کے طور پر تقرر ہوئے تھے۔ 1933ء میں کنٹونمنٹ بورڈ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے تھے۔
جگن ناتھ آزاد مشہور شاعر ان کے فرزند ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اعتبار ساجد کا یوم پیدائش
——
زمانہ طالب علمی میں تلوک چند محروم کی نظمیں پنجاب کے اخبارات اور رسائل میں شائع ہونی شروع ہوگئیں۔ 1929ء میں ان کا مجموعہ کلام’گنج معانی‘ کے نام سے میسرزعطر چند کپور نے لاہور سے شائع کیا۔ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا نام "شعلہ نوا” ہے ۔
تقسیم ہند کے بعد تلوک چند محروم دہلی چلے گئے اور یہیں 6 جنوری 1966ء کو ان کا انتقال ہوا تھا
——
منشی تلوک چند محروم از ستیہ پال آنند
——
یہ 1944-45ء کا زمانہ تھا۔ میں ابھی مشن ہائی اسکول راولپنڈی میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ڈی اے وی کالج کے مشاعرے میں منشی تلوک چند محروم کو سننے کے ایک ہفتہ بعد میں اپنا بستہ ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے سیدھا گورڈن کالج جا پہنچا کالج ہمارے اسکول سے صرف آدھ میل دور تھا۔ اونچے آہنی پھاٹک سے اندر جاتے ہوئے میں بالکل نہیں جھجکا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ مجھے علم تھا کہ پروفیسر صاحبان اس کمرے میں بیٹھتے ہیں جس کو اسٹاف روم کہا جاتا ہے۔ میں کنکریٹ کی بنی ہوئی چھہ سات سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ ایک چوکیدار نے مجھے روکا
”لڑکے، کس سے ملنا ہے؟“
”پروفیسر تلوک چند محروم سے!“ میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔میں نے یہ بعد میں سوچا، ’میں نے منشی تلوک چند محروم نہیں کہا۔ پروفیسر تلوک چند محروم کہا ہے۔‘
چوکیدار نے لان کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا، ”وہ سامنے بیٹھے ہیں تلوک چند محروم صاحب …دھوپ میں اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ان کے رشتہ دار ہو؟“
میں بغیر کچھ کہے اس طرف کو ہو لیا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے کلاہ پر بندھی ہوئی اپنی لنگی پاس پڑے ہوئے میز پر رکھ دی تھی۔ سر کے بال چھدرے تھے لیکن چہرے پر بشاشت تھی اور دھوپ کی حدت سے کہیں کہیں پسینے کے قطرے ابھر آئے تھے۔ جب بزرگ شاعر کو احساس ہوا کہ ان کے حصے کی دھوپ میں کچھ رخنہ پڑ گیا ہے، تو انہوں نے اخبار سے نظریں اٹھائیں۔
جی، سر نمستے … میں آپ کے نیاز حاصل کرنے چلا آیا …“ ’آداب عرض‘ کہنے کا آداب ابھی نہیں سیکھا تھا میں نے۔
انہوں نے میرے لڑکپن کے بے داغ چہرے کو دیکھا، پھر پوچھا، ”کہاں پڑھتے ہو؟“
”جی، مشن ہائی اسکول میں … ہائی کلاس میں …“ اور پھر ہمت بٹور کر کہا، ”کل آپ کو اور آزاد صاحب کو ڈی اے وی کالج کے مشاعرے میں سنا، تو سوچا، مجھے آپ کے نیاز حاصل کر کے کچھ سیکھنا چاہیے …“
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر فضا ابن فیضی کا یوم پیدائش
——
مسکرائے۔ کہا، ”تو شاگردی کے لیے آئے ہو؟ برخودار، کسی سے پوچھ تو لیتے …. میں شاگردی استادی میں یقین نہیں رکھتا ‘۔ پھر کچھ سوچ کر بولے ، ”ہاں ، کبھی کبھی ملتے رہو تو کوئی ہرج نہیں ہے…. ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاو … کرسی تو کوئی نہیں ہے، گھاس پر ہی بیٹھ جاو۔“
میں بیٹھ گیا، اپنا بستہ کھول کر اپنی غزلوں کی کاپی نکالنے لگا، تو محروم صاحب کے ہونٹوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ”یہ تو بتاو، برخوردار، کیا تمہیں علم ہے ، یہ جملہ ’دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جاو‘ کہیں تاریخ کے اوراق میں پہلے بھی نظر آیا ہے تمہیں؟“
”جی …“ میں نے ذہن پر زور دیے بغیر کہا ، ”یہ وہ جملہ ہے جو یونانی فلسفی دیو جانس کلبی نے اسکندر اعظم سے کہا تھا !“
خوش ہوئے، لیکن کچھ چیں بجبیں ہو کر بولے، ”اسکندر کیوں کہتے ہو، سکندر کیوں نہیں؟“
”اردو میں اسکندر ہی کہتے ہیں، سر !“
”غلط کہتے ہیں ..“ فرمایا۔ ” صوبہ جات متحدہ یو پی والے کوئی بھی وہ لفظ ’ س‘ سے شروع نہیں کر سکتے اس لیے ’الف‘ پہلے ٹانک دیتے ہیں۔ تم تو پنجابی ہو، ’سکندر‘ بخوبی کہہ سکتے ہو۔“
”جی …“ میں کچھ ہچکچایا،منشی تلوک چند محروم سے بحث؟ اور اس بحث میں اختلاف کی جرات؟ میں کیا کر رہا ہوں یہاں بیٹھا ہوا؟ لیکن پھر بھی میں نے مزید ہمت بٹور کر کہا،
”اہلِ زبان کی پیروی تو ضروری ہے، سر!“
پھر چیں بجبیں ہوئے۔ ”کس نے کہا، ضروری ہے۔ اگر صحیح تلفظ سکندر ہے تو بصد شوق سکندر کہو۔ یو پی والوں نے کیا اردو کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟“
میں اپنی کاپی نکال ہی رہا تھا کہ انہوں نے کہا، ”مجھے کچھ مت دکھاو۔ میں اصلاح نہیں دیتا۔“ پھر کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا،” میرا ایف اے کے دوسرے سال کی کلاس کے ساتھ ابھی پیریڈ ہے۔اس سے پہلے پنتالیس منٹ کا وقت خالی ہوتا ہے، کبھی کبھی آ جایا کرو۔“
اٹھتے اٹھتے پھر انہوں نے کہا، ”میں نے جگن کو بھی یہی رائے دی تھی، کہ اچھا لکھو، صاف لکھو، صحیح لکھو، لیکن بولنے میں یو پی والوں کی نقل مت کرو !“
وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے کہیں تحت الشعور کی سطح پر یہ محسوس کیا کہ اپنے بیٹے جگن ناتھ آزاد کا نام لیتے ہوئے انہوں نے اس نام یعنی ’جگن‘ کا خالصتاً سرائکی تلفظ ادا کیا تھا ، یعنی ج گ ن …’گ‘ پر ضمہ یا پیش کی آواز کو ادا کرنا صریحاً صحیح ہندی تلفظ نہیں تھا، اس نام کا … لیکن میں ان کا منشا بخوبی سمجھ گیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : قربان میں اُن کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
——
میں دوسرے دن پھر گیا۔ اسی کرسی پر بیٹھے تھے۔ میں نے اس بار’ آداب ‘کہا۔ چونک کرمیری طرف دیکھ، کہا، ”ہنھ ! طور طریق سیکھ گئے اردو والوں کے؟ اچھا ہے، کام آئیں گے…“ پھر اسی سانس میں بولے، ”میری نظم’ نور جہاں کے مزار پر ‘پڑھی ہے؟“
میں نے کہا، ”جی ہاں، ہمارے کورس کی کتاب میں ہے۔ مجھے زبانی یاد ہے۔“
بولے، ”تو سناو!“
میں نے فی الفور نظم سنانا شروع کی۔
——
”دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں ، یہ آرام گہ نورِ جہاں ہے“
——
مجھے ٹوک کر بولے، ”بس، آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم ’نور جہاں‘ پڑھتے ہو یا ’نورے جہاں‘ پڑھتے ہو۔ اچھا یہ بتاؤ، ان دو مصرعوں میں کیا خوبی ہے۔“
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا، ”جی، پہلے مصرعے میں دن کو بھی اندھیرا ہونے کا ذکر ہے اور دوسرے میں، بر خلاف اس کے، یہ کہا گیا ہے، کہ یہاں تو جہان کا نور سویا ہوا ہے۔ گویا نور جہان کا نام بھی اور دنیا بھر کا نور بھی … ایک ہی لفظ کے دو مطلب نکل آئے۔“
ہنس کر بولے، ”نکل نہیں آئے، پہلے سے ہی موجود تھے۔ ایسے الفاظ کو ذو معنی کہا جاتا ہے۔ جانتے ہو۔“
میں جانتا تھا لیکن صاف جھوٹ بول گیا، ”ا ب جان گیا ہوں، سر!“
جانے لگا میں ان کے پاس، ہر دوسرے تیسرے دن، اسی وقت جب وہ لان میں کرسی پر بیٹھے ہوئے اخبار پڑھ رہے ہوتے۔
مجھے سب کچھ یاد ہے کیونکہ واپس گھر آنے کے بعد میں اپنی کاپی میں اپنے تجربات لکھتا رہتا تھا۔ آج یہ ہوا، آج وہ ہوا۔ کس لڑکے سے اسکول میں کہا سنی ہوئی۔ کس ٹیچر نے کیا کہا۔ محروم صاحب کے ارشادات تو تبرک کی طرح تھے، اس لیے انہیں لکھنا ضروری تھا۔
کچھ دنوں کے بعد میں نے اپنی غزلوں کی کاپی سامنے کر دی۔ بولے، ”پڑھ کر سناو۔ تم خوش خط ضرور ہو، لیکن میں پڑھوں گا نہیں۔“
میں نے پہلے ایک غزل کے اور پھر ایک دوسری غزل کے کچھ اشعار سنائے۔
چپکے بیٹھے رہے، تو میں نے پوچھا، ”سر، کیسے ہیں؟“
——
یہ بھی پڑھیں : چاند سورج ترے ، ہر ایک ستارہ تیرا
——
بولے، ”وزن میں بے شک موزوں ہیں، لیکن کوئی نئی بات نہیں ہے۔“
پھر یکدم آرام کرسی پر اٹھ کر بیٹھ گئے۔ کوئی نظم بھی کبھی لکھی ہے؟
”جی ہاں، “ میں نے کہا، ”تین چار نظمیں لکھی ہیں، جن میں سے ایک کو پچھلے دنوں ایک جلسے میں بہت پسند کیا گیا تھا۔“
بولے، ”سناو!“
میں نے جلدی جلدی میں کاپی کے ورق پلٹے، نظم سامنے آئی اور سنانے لگا، تو فرمایا، ”کھڑے ہو کر سناؤ، جیسے جلسے میں یا مشاعرے میں سناتے ہیں۔“
میں کھڑا ہو گیا۔ نظریں ان سے ملائیں تو بغور میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں نے ذرا بلند آواز میں کہا، ”ایک رومانی نظم پیش کر رہا ہوں۔ عنوان ہے، ”خواب اور زنجیر“۔ اور پھر ان سے نظریں ملائے بغیر، سامنے ہوا میں دیکھتے ہوئے نظم پڑھنے لگا۔
——
وہ خوشگوار چاندنی راتیں کہاں سے لاؤں
جو بھولتی نہیں ہیں وہ باتیں کہاں سے لاؤں
اب کیا کروں وہ پہلے سے حالات ہی نہیں
——
ہر آرزو کا ایک ہی مقسوم ہو گیا
کیا ہو چکا ہے، سب مجھے معلوم ہو گیا
——
ہر خواب کے نصیب میں تعبیر تو نہیں
کچھ بھی ہو میرے پاؤں میں زنجیر تو نہیں!
——
میں نے آخری دو مصرعے دو بار پڑھے۔ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے، مجھے گلے سے لگایا، میری پیشانی چومی۔ کئی بار چومی۔ پھر کہا، ”بہت خوب نظم ہے۔ ’پوچھتا ‘ اور ’جانتا‘ کے قوافی کو درست کر لو۔ لیکن، عزیز من، یہ نظم کیا واقعی تم نے لکھی ہے؟“
میں نے عرض کیا، ”جی ہاں، میری ہی لکھی ہوئی ہے اور کئی جگہ سنا بھی چکا ہوں۔“
بولے، ”پندرہ سولہ برس کی عمر میں یہ نظم ! آفرین ہے تم پر … سنو، ایک بات غور سے سنو۔ میں نے تمہاری غزلیں بھی تم سے سنی ہے اور آج یہ نظم بھی۔ تم غزل شزل مت لکھا کرو، اس صنف کو تلانجلی دے دو !“
کچھ سوچ کر مسکرائے۔”تلانجلی کا مطلب جانتے ہو نا؟ ….تمہاری طبیعت نظم کے لیے موزوں ہے۔ غزل میں تمہارے ذہن سے بھرتی کے ہی اشعار نکلیں گے … میری مانو، تو صرف نظم میں ہی طبع آزمائی کیا کرو … میں نے جگن کو بھی یہی رائے دی ہے، لیکن وہ اب بھی کبھی کبھار غزل لکھ لیتا ہے۔ “
ایک دن فرمانے لگے۔ ”جانتے ہو، ٹامک ٹوئیں مارنا کیا ہوتا ہے؟“
——
یہ بھی پڑھیں : محروم ہیں تو کیا غم دل حوصلہ نہ ہارے
——
میں نے عرض کیا، ”جی پڑھا تو ہے، لیکن مطلب نہیں جانتا۔ ٹامک ٹوئیاں شاید جوووں کو کہتے ہوں گے۔“
ہنسے، بولے، ”اچھا یہ بتاو، جب کسی بوڑھی عورت کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ اس نے جھک کر بچے کی بلائیں لیں، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟“
میں نے فلموں میں اس منظر کو بارہا دیکھا تھا جس میں کوئی بزرگ عورت ( مرد نہیں!) جھک کر اپنے دونوں ہاتھوں کو خم دے کر کسی بچے کے سر اور کانوں کے پاس سے واپس اپنی طرف لاتی ہے۔ میں نے فوراً کہا، ”بلائیں لینے کا مطلب چومنا ہوتا ہے، یعنی ہاتھوں سے، ہونٹوں سے نہیں۔“
پھر ہنسے، ”جیسے کہ میں فرض کر رہا تھا، ویسے ہی جواب دے رہے ہو۔ اچھا یہ بتاو، کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ سب اصطلاحیں یا محاورے ہمارے پنجاب کے نہیں ہیں، اس لیے ہمیں نہیں آتے۔ تو کیا یہ اشد ضروری ہے کہ ہم انہیں سیکھیں۔ کیوں نہ اردو میں پنجاب کے محاوروں کو چلن دیں؟“
میری کیا رائے ہو سکتی تھی۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ کچھ ثانیوں کے بعد میں نے عرض کیا، ”بلائیں لینے کا کیا مطلب ہے، سر؟“
اب سنجیدگی سے بولے۔ ”یہ فرض کیا جاتا ہے کہ بچوں کے سر پر بلائیں یعنی مصیبتیں منڈلاتی رہتی ہیں۔ بزرگ عورتوں ہاتھوں کی ان جنبشوں سے وہ بلائیں اپنے سر پر لے لیتی ہیں۔“
”اور ٹامک ٹوئیاں مارنا، سر؟“
پھر ہنسے، ”جگن کو شاید آج تک یہ لفظ نہیں آتا۔ اسے ٹامک ٹوئے مارنا بھی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب تو اٹکل پچو یعنی اندازے پر چلنا ہے، دوسرے الفاظ میں بغیر پوری تفتیش کیے اپنی دانست میں صحیح کام کیے جانا لیکن اندازے سے ہی چلتے جانا، جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ لفظ کشیدہ کاری سے آیا ہے، جس میں سوئی تاگے سے ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔“
سنجیدگی سے فرمایا۔ ”میں اہلِ زبان نہیں ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اردو کو اگر سارے ہندوستان کی زبان بننا ہے تو اسے صوبجات کی زبانوں اور بولیوں سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔“
ایک دن پھر کہا، ”بی اے کرنے کے دوران میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں لکھا تھا کہ انگلستان میں بھی،جو ہمارے پنجاب سے بھی نصف رقبے کا ملک ہے، انگریزی ایک طرح سے نہیں بولی جاتی۔ ڈکشنری کے تلفظ کے مطابق انگریزی شاید صرف ایک یا دو فیصد لوگ بولتے ہیں جسے آر پی یا Pronunciation Received کہا جاتا ہے۔ باقی ہر پچاس سو میل پر بولنے کا انداز، تلفظ، مقامی محاوروں کا امتزاج اس کو بد ل دیتا ہے۔ اگر یہ حال انگلستان کا ہے، تو دس گنا بڑے ہندوستان میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم لکھنو والوں یا دلّی والوں کی اردو سیکھیں؟“
ایک دن پھر ذکر آیا تو کہا، ”ایک عالم و فاضل شاعر تھے اردو کے جن کا نام امام بخش ناسخ تھا۔ سنا ہے نام ان کا؟“
میں نے عرض کیا، ”صرف نام سنا ہے، سر۔ جانتا نہیں کہ وہ کس قسم کے شاعر تھے۔“
”شاعر تو برے نہیں تھے، لیکن کچھ کام انہوں نے ایسے کیے جواردو کے حق میں نہیں تھے۔“
میں ان کا منہ دیکھتا رہا۔
——
یہ بھی پڑھیں : یارب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
——
بولے، ”ناسخ نے ان سب الفاظ کو جو بھاکھا یعنی روزمرّہ کی زبان سے آئے تھے جسے ہندوستانی بھی کہا جا سکتا ہے، اردو سے خارج کر دینے کی سفارش کی۔ سفارش کیا کی، بلکہ حکم دیا کہ اگر اردو کو خالص رکھنا ہے تو اس ملاوٹ کو دور کرنا پڑے گا۔بہت سے محاوروں کو ترک کرنا پڑے گا۔ وہ الفاظ جو فارسی اور ہندی کے امتزاج سے بنے ہیں، انہیں تلانجلی دینا ہو گا۔“
ہنسے، بولے۔ ”اب میں نے ایک محاورہ تلانجلی دینا استعمال کیا ہے۔ تم اس کا مطلب جانتے ہو، مجھے یقین ہے، لیکن یہ لفظ کیسے بنا ہے، یہ نہیں جانتے۔ انجلی ہندی میں ہتھیلی کو کہتے ہیں ، تِل وہ بیج ہیں جن کا تیل نکالا جاتا ہے۔ بنگال میں کسی عورت کا مرد سے یا مرد کا عورت سے رشتہ ازدواج ختم کرنے کا ایک روایتی طریقہ یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو اپنی ہتھیلی پر تل رکھ کرپیش کرے….“
کچھ رک کر پھر فرمایا : ”ناسخ صاحب کو یہ سوجھی کہ اردوئے معلےٰ کو مقامی ہندوستانی بولیوں کے ’ناپاک‘ الفاظ سے پاک کرنے کے لیے انہیں متروک کر دیا جائے۔ اور انہوں نے متروکات کی ایک فہرست بنائی تا کہ شعرا اور نثر نگار ان الفاظ یا محاوروں سے پرہیز کر سکیں۔ اس میں ایسی اصطلاحیں بھی تھیں جن میں ایک لفظ فارسی کا اور ایک ہندی کا تھا۔ مثلاً ’ٹکڑ گدا‘ جس کے معنی ہیں، روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترسنے والا نادار شخص۔ ان کی منطق یہ تھی، کہ ’ٹکڑ‘ ہندی کا لفظ ہے اور ’گدا‘ فارسی کا، اس لیے ان کا انسلاک بجائے خود غلط ہے ….“
میں نے پوچھا، ”تو، سر، کیا لوگوں نے یہ بولنا یا لکھنا چھوڑ دیا؟ کیا ناسخ صاحب نے اس کی جگہ کوئی اور محاورہ تجویز کیا؟“
ہنسے، ”نہیں، عزیزِ من۔ کچھ بھی نہیں ہوا، لوگ اس محاورے کو ویسے ہی استعمال کرتے رہے اور انہوں نے کوئی متبادل بھی تجویز نہیں کیا …. بس فہرست بنا کر جاری کر دی۔ ان کے چیلے چانٹے شاید اس پر عمل کرتے رہے۔ لیکن اردو شاعری کی تاریخ میں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم اردو کے شاعر ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوستانی بننے سے کتراتے رہے ہیں۔ ناسخ کو یہ چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں آئی ، یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے تھے کہ عوام زبان کے پیچھے نہیں چلتے، زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے!“
ایک دن پھربات ہوئی تو انہوں نے کہا، ”مرزا غالب بھی اپنے فارسی کے دیوان کو وہ اہمیت دیتے تھے جو انہوں نے اپنے اردو کے دیوان کو کبھی نہیں دی، لیکن آج دیکھ لیں، ان دو دواوین میں کس کی زیادہ تاریخی اہمیت ہے!“
اگلی بار میں گیا تو جیسے مجھ سے بہت سی باتیں کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ بولے، ”آج جو باتیں میں نے کلاس روم میں کی ہیں ، وہی تم سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔یہ بتاو؟ نوجوان، کہ کیا کبھی ان محاوروں پر غور کیا جن کو فارسی کی اضافت یعنی کسر سے جوڑا جاتا ہے یا عطف سے یعنی عربی کے واؤ سے جن کو گرہ بند کر دیا جاتا ہے؟“
میں نے عرض کیا، ” سر، میں سمجھا نہیں!“
”اچھا !“ بولے، ”کچھ مثالوں سے سمجھاتا ہوں۔ کیا تم نے کبھی یہ اصطلاح پڑھی یا سنی ہے ، ”لذّتِ کام و دہن“؟ لذّت کے بعد کسر ہے اور پھر کام و دہن کے درمیان ایک عطف ہے، یعنی واو ہے۔ دونوں کا مقصد ان کو جوڑ کر یہ معنی نکالنا ہے، ” کام اور دہن کی لذت“ ….
میں نے کہا، ”جی، اتنا تو میں سمجھتا ہوں۔“
بولے، ”ہاں ہاں ، یقیناًجانتے ہو گے۔” دہن “کے معنی یعنی” منہ“ ہے یہ بھی تم جانتے ہو گے۔ لیکن ”کام“ کے کیا معنی ہیں، یہ جانتے ہو؟“
میں ان کا منہ تکتا رہ گیا۔ بولے، ”تو تم بھی میرے ایف اے کے طلبہ کی طرح اس سوال کے جواب میں فیل ہو گئے۔ وہ کم بخت بھی سارے کے سارے اس کا جواب نہیں دے سکے۔ کام کے معنی وہ نہیں ہیں، جو تم جانتے ہو، یعنی جیسے گھر کا کام یا نوکری کا کام۔ اس کا مطلب ہندی کا ”کام دیوتا“ بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے، آدمی کے منہ میں اوپر کی چھت، یعنی تالو … گویا لذتِ کام و دہن کا مطلب ہوا، منہ اور تالو کا ذائقہ…“
پھر پوچھا، ”اچھا ، ایک اور اصطلاح واو کے عطف کے ساتھ بولی جاتی ہے، ’ ’بے سر و سامان“ … ’ب ‘ تو صاف سمجھ میں آتا ہے، ’سر و سامان‘ کے بیچ میں واو عطف ہے، اس میں لفظ ’سامان‘ بھی سمجھ آ سکتا ہے، لیکن ’سر‘ کا کیا مطلب ہے، جانتے ہو؟ یعنی کیا یہ وہ ’سر‘ ہے، جو تم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہو؟“
——
یہ بھی پڑھیں : دل کہ ہر خواب سے محروم ہوا چاہتا ہے
——
میں نے پھر شرمندگی سے نفی کے اظہار کے طور پر سر ہلایاتو بولے، ”مجھے یہ علم تھا کہ تم بھی میرے ایف اے کے طلبہ کی طرح نہیں جانتے ہو گے۔پھر فیل ہو گئے۔ اچھا، میں بتاتا ہوں۔ پرانے زمانے میں جب فوجیوں کو نقل مکانی یعنی آگے مارچ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا، تو وہ اپنا سارا سامان، یعنی کپڑوں کا جوڑا، لوٹا، کچھ روٹی وغیرہ تو پیٹھ پر باندھ ہی لیتے تھے۔ یہ تو ”سامان“ تھا۔ اب ”سر“ کے معنی ہیں، وہ ہتھیار یعنی تلوار، خنجر ، تیر کمان یا پرانی بندوق وغیرہ جو انہیں ساتھ ہی اٹھانے پڑتے تھے۔ “ …..بولتے بولتے تھک گئے تو رک گئے۔ چند لمحوں کے بعد کہا، ”ان کو ہی ”سر“ کہتے تھے….
اب ایک آخری سوال …ایک اصطلاح ہے ، ” لبِ لباب“۔ ہم سب اس کے ماخوذ معانی سمجھتے ہیں، یعنی کسی بات کا مختصر ترین الفاظ میں بیان۔ لیکن یہ دونوں الفاظ اسم ہیں، اگر نہ ہوتے تو ان کے درمیان’ کسر ‘ کیسے آ سکتی تھی۔ کیا ان دو الفاظ کے الگ الگ معانی جانتے ہو؟“
میں نے فوراً کہا، ”لب…تو میں سمجھتاہوں، یعنی ہونٹ ..لیکن لباب نہیں جانتا۔ًً“
مسکرائے، ”یہی جواب تو ان کند ذہنوں نے بھی دیا تھا کمرہ جماعت میں، جو میٹرک پاس کر کے اب کالج میں بیٹھے ہیں۔ وہ سبھی فیل اور تم بھی فیل! یہ لفظ لب نہیں ہے، لب ہے، یعنی ل کے اوپر ضمّہ ہے۔ اور اس کا مطلب ہے، نچوڑ، عطر، عرق وغیرہ، اب یہ فارسی والوں کا عجوبہ ہے کہ دوسرا لفظ یعنی ”لباب “ اسی لفظ کا صیغہ جمع ہے۔ تو لبِ لباب کا مطلب ہوا، نچوڑیوں کا نچوڑ، عطروں کا عطر… انگریزی میں کیا کہیں گے؟“
میں نے فی الفور کہا، The essence of Essences
خوش ہو گئے۔ ”شاباش!“ اب جب بھی کبھی کوئی فارسی یا عربی اصطلاح استعمال کرو، تو یہ دیکھنے سے پہلے کہ اس کے ماخوذ معانی یعنی Derivative Meaning کیا ہیں، اس کے اصل معانی دریافت کرنے کی کوشش کیا کرو!“
ڈیڑھ دو برس کا عرصہ ہوتا ہی کیا ہے! 1945ء سے اپریل 1947ءتک۔ لیکن اس دوران میں منشی تلوک چند محروم کے ساتھ میں نے تیس چالیس ملاقاتیں کیں اور ہر بار کچھ سیکھ کر ہی لوٹا۔ کاغذ قلم سے اصلاح دینے کو وہ اپنے اصول کی نفی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جو اساتذہ اپنے شاگردوں کی غزلیات پر اصلاح دے کر فی شعر آٹھ آنے یا بارہ آنے یا ایک روپیہ وصول کرتے ہیں ، انہیں استاد کہلوانے کا کوئی حق نہیں ہے، ”گویا استادی نہ ہوئی، تجارت ہو گئی، سودا فروشی ہو گئی!“
قبلہ تلوک چند محروم صاحب سے دو تین ملاقاتیں جو ان کی راولپنڈی سے ہجرت اور دہلی میں سکونت کے بعد ہوئیں، ان کی بھی اپنی ایک کہانی ہے، لیکن اسے کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔آئیے، اب ان کی مشہور زمانہ نظم ”نو ر جہاں کے مزار پر“ کے کچھ اشعار پڑھتے ہیں
——
منتخب کلام
——
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
——
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
——
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل
——
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
——
عقل کو کیوں بتائیں عشق کا راز
غیر کو راز داں نہیں کرتے
——
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
——
اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
دام غم حیات میں الجھا گئی امید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دیں
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی
انجام فصل گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی
بس اتنا ہوش تھا مجھے روز وداع دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی
ہر موج آب سندھ ہوئی وقفہ پیچ و تاب
محرومؔ جب وطن میں ہماری خبر گئی
——
کم نہ تھی صحرا سے کچھ بھی خانہ ویرانی مری
میں نکل آیا کہاں اے وائے نادانی مری
کیا بناؤں میں کسی کو رہبر ملک عدم
اے خضر یہ سر زمیں ہے جانی پہچانی مری
جان و دل پر جتنے صدمے ہیں اسی کے دم سے ہیں
زندگی ہے فی الحقیقت دشمن جانی مری
ابتدائے عشق گیسو میں نہ تھیں یہ الجھنیں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی آخر پریشانی مری
دشت ہستی میں رواں ہوں مدعا کچھ بھی نہیں
کب ہوئی محتاج لیلےٰ قیس سامانی مری
اور تو واقف نہیں کوئی دیار عشق میں
ہے جنوں شیدا مرا وحشت ہے دیوانی مری
باغ دنیا میں یوں ہی رو ہنس کے کاٹوں چار دن
زندگی ہے شبنم و گل کی طرح فانی مری
بعد ترک آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
ہاں خدا لگتی ذرا کہہ دے تو اے حسن صنم
عاشقی اوروں کی اچھی یا کہ حیرانی مری
لخت دل کھانے کو ہے خون جگر پینے کو ہے
میزبان دہر نے کی خوب مہمانی مری
نغمہ زن صحرا میں ہو جس طرح کوئی عندلیب
یوں ہے اے محرومؔ سرحد میں غزل خوانی مری
——
ہمارے واسطے ہے ایک جینا اور مر جانا
کہ ہم نے زندگی کو جادۂ راہ سفر جانا
یکایک منزل آفات عالم سے گزر جانا
ڈریں کیوں موت سے جب ہے اسی کا نام مر جانا
تری نظروں سے گر جانا ترے دل سے اتر جانا
یہ وہ افتاد ہے جس سے بہت اچھا ہے مر جانا
جواب ابر نیساں تجھ کو ہم نے چشم تر جانا
کہ ہر اک قطرۂ اشک چکیدہ کو گہر جانا
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
ہم اپنے رہزن و رہبر تھے لیکن سادہ لوحی سے
کسی کو راہزن سمجھے کسی کو راہبر جانا
میں ایسے راہ رو کی جستجو میں مر مٹا جس نے
تن خاکی کو راہ عشق میں گرد سفر جانا
لب بام آئے تم اور ان کے چہرے ہو گئے پھیکے
قمر نے تم کو خورشید اور ستاروں نے قمر جانا
نہ بھولے گا ہمیں محرومؔ صبح روز محشر تک
کسی کا موت کے آغوش میں وقت سحر جانا
——
حیرت زدہ میں ان کے مقابل میں رہ گیا
جو دل کا مدعا تھا مرے دل میں رہ گیا
خنجر کا وار کرتے ہی قاتل رواں ہوا
ارمان دید دیدۂ بسمل میں رہ گیا
جتنی صفا تھی سب رخ جاناں میں آ گئی
جو داغ رہ گیا مہ کامل میں رہ گیا
——
اے مہربان دشت محبت چلے چلو
اپنا تو پائے شوق سلاسل میں رہ گیا
وحشت فزا بہت تھی ہوا دشت قیس کی
پردہ کسی کا پردۂ محمل میں رہ گیا
محرومؔ دل کے ہاتھ سے جاں تھی عذاب میں
اچھا ہوا کہ یار کی محفل میں رہ گیا
——
نظر اٹھا دل ناداں یہ جستجو کیا ہے
اسی کا جلوہ تو ہے اور روبرو کیا ہے
کسی کی ایک نظر نے بتا دیا مجھ کو
سرور بادۂ بے ساغر و سبو کیا ہے
قفس عذاب سہی بلبل اسیر مگر
ذرا یہ سوچ کہ وہ دام رنگ و بو کیا ہے
گدا نہیں ہیں کہ دست سوال پھیلائیں
کبھی نہ آپ نے پوچھا کہ آرزو کیا ہے
نہ میرے اشک میں شامل نہ ان کے دامن پر
میں کیا بتاؤں انہیں خون آرزو کیا ہے
سخن ہو سمع خراشی تو خامشی بہتر
اثر کرے نہ جو دل پر وہ گفتگو کیا ہے
——
نظم : چھبیس جنوری
——
یہ دور نو مبارک فرخندہ اختری کا
جمہوریت کا آغاز انجام قیصری کا
کیا جاں فزا ہے جلوہ خورشید خاوری کا
ہر اک شعاع رقصاں مصرع ہے انوری کا
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

بھارت کی برتری میں کس کو کلام ہے اب
تھا جو رہین پستی گردوں مقام ہے اب
جمہوریت پہ قائم سارا نظام ہے اب
اعلیٰ ہے یا ہے ادنیٰ با احترام ہے اب
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

صدیوں کے بند ٹوٹے آزاد ہوگئے ہم
قید گراں سے چھوٹے دل شاد ہو گئے ہم
بے خوف بے نیاز صیاد ہو گئے ہم
پھر بس گیا نشیمن آباد ہوگئے ہم
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

جو مضطرب تھی دل میں وہ آرزو بر آئی
تکمیل آرزو نے دل کی خلش مٹائی
جس ملک پر غلامی بن بن کے شام چھائی
صبح مسرت اس کو اللہ نے دکھائی
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

تعبیر خواب گاندھیؔ تفسیر حال نہروؔ
آزادؔ کی ریاضت سردارؔ کی تگاپو
رخشاں ہے حریت کا زیبا نگار دلجو
تسکین قلب مسلم آرام جان ہندو
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

قرباں ہوئے جو اس پر روحیں ہیں شاد ان کی
ہم جس سے بہرہ ور ہیں وہ ہے مراد ان کی
ہے بسکہ سرفروشی شایان داد ان کی
بھارت کی اس خوشی میں شامل ہے یاد ان کی
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

آزاد ہو گیا جب ہندوستاں ہمارا
ہے سود کے برابر ہر اک زیاں ہمارا
منزل پہ آن پہنچا جب کارواں ہمارا
کیوں ہو غبار منزل خاطر نشاں ہمارا
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

ایوان فرخی کی تعمیر نو مبارک
آئین زندگی کی تدبیر نو مبارک
ہر ذرۂ وطن کو تنویر نو مبارک
بھارت کے ہر بشر کو توقیر نو مبارک
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا

بھارت کا عزم ہے یہ توفیق اے خدا دے
دنیا سے این و آں کی تفریق کو مٹا دے
امن و اماں سے رہنا ہر ملک کو سکھا دے
ہر قوم شکریے میں ہر سال یہ صدا دے
روز سعید آیا چھبیس جنوری کا
دور جدید لایا بھارت کی برتری کا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ