اردوئے معلیٰ

آج ممتاز ترین جدید شاعروں میں معروف رجحان ساز شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کی سالگرہ ہے۔

(پیدائش: 27 ستمبر، 1932ء)
——
ظفر اقبال (انگریزی: Zafar Iqbal)، پاکستان کے معروف شاعر اور کالم نگار ہیں۔ وہ معاصر جدید اردو غزل کے اہم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بیٹے آفتاب اقبال معروف ٹی وی اینکر ہیں۔
——
حالات زندگی و تعلیم
——
ظفر اقبال 27 ستمبر، 1932ء کو بہاولنگر ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چک نمبر 49/3Rضلع اوکاڑہ کے ایک معزز زمیندار تھے۔ ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی اسکول اوکاڑہ سے 1950ء میں کیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لا کالج جامعہ پنجاب سے پاس کیا۔
وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ ایک بار اوکاڑہ ایسوسی ایشن اور دو مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے قومی سیاست میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ 1977ء کے انتخابات میں ظفر اقبال نے نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے راؤ خورشید علی خاں (پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار) کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
——
ادبی خدمات
——
پرائمری کے دوران ان کی طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہو چکی تھی، کیونکہ ان کے استاد نور احمد انجم قریشی جو خود بھی شاعر تھے بچوں کو بطور املا اشعار لکھ کر دیتے۔ ظفر اقبال آٹھویں جماعت تک کلیات میر اور دیوانِ غالب کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے۔ شفیق الرحمن کی تحریریں پڑھ کر ان کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے غزل کے پیرائے میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے آب رواں کو عوام اور خواص، ہردو حلقوں میں بے حد پزیرائی ملی۔ اس کے بعد انہوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ 1973ء میں انہوں نے پہلا کالم سرور سکھیرا کے پرچے دھنک کے لیے لکھا۔ ان کے مختلف اخبارات میں ‘دال دلیا’ کے نام شائع ہونے والے ان کے کالم بھی اپنے قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ ظفر اقبال 16 فروری،1995ء سے یکم مارچ، 1997ء تک اردو سائنس بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
——
تصانیف
——
خشت زعفران
اطراف
آب رواں
عیب و ہنر
ہرے ہنیرے
——
اعزازات
——
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شکرِ خدا کے آج گھڑی اُس سفر کی ہے
——
ان کا ایک انٹرویو
——
عہد ساز شاعر اور منفرد کالم نگار جناب ظفر اقبال کا ادبی و صحافتی سفر کم و بیش پچاس سالوں پر محیط ہے۔ اپنے مخصوص شعری مزاج اور اسلوب کے حوالے سے وہ اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ حال ہی میں کی گئی ان کے ساتھ ملاقات کا احوال معززقارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔
——
لوگ ہی آن کے یکجا مجھے کرتے ہیں
کہ میں ریت کی طرح بکھر جاتا ہوں تنہائی میں
——
س: ظفر اقبال صاحب ہمارا اعزاز ہے کہ آپ نے ہمارے لیے کچھ وقت نکالا۔
گفتگو کے آغاز میں اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کی کچھ یادیں تازہ کیجیے۔
ج: میری پیدائش میرے ننھیالی گاؤں بہاول نگر میں ہوئی۔ وہیں ہمارے ایک استاد نور احمد انجم‘ جو شاعر بھی تھے‘ وہ ہمیں تختی پر پورنے ڈال کر دیتے اور ہم اس پر قلم چلاتے تھے۔ پہلے چھوٹے چھوٹے الفاظ پھر فقرے اور اس کے بعد انہوں نے تختی پر اشعار لکھنا شروع کر دئیے۔ چونکہ شعر لکھتے تھے اس لیے ہم پڑھتے بھی تھے۔ چنانچہ انہی اشعار کی وجہ سے طبیعت موزوں ہوگئی۔ اس سے قبل میرے خاندان میں کوئی شاعر نہ گزرا تھا۔ نہ ہی میں نے کبھی بحروں کی گردان کی ہے۔ بس تختی پر لکھتے ہوئے شاعری سے واقفیت حاصل کی۔ اس کے بعد میں نے اوکاڑہ سے میٹرک کیا۔ ایف سی کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کیا اور لاءکالج سے ایل ایل بی مکمل کیا۔ پھر 1995ءمیں مجھے ڈی جی اردو سائنس بورڈ لگا دیا گیا۔ دو سال کے بعد میں نے ہائی کورٹ میں پریکٹس شروع کر دی۔ شاعری بھی ساتھ ساتھ جاری رہی۔ کالم نگاری بھی کی اور اب دل کی بائی پاس سرجری کے بعد گھر پر ہی ہوتا ہوں۔ اب بچے مجھے کام نہیں کرنے دیتے لیکن اس دوران میں نے یہ قابلِ ذکر کام کیا ہے کہ اپنے کام اپنی تحریروں اور شاعری کو مجتمع کیا ہے۔ میرے کلیات ”اب تک“ کی جلد چہارم چھپ چکی ہے۔ پانچویں جلد تیار ہے۔ میرے نثری کام‘ تحریروں اور کالم پر مبنی ایک کتاب بھی چھپنے کو تیار ہے۔
س: جب آپ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا تو کس سے متاثر ہوئے اور کن استادوں سے رہنمائی حاصل کی؟
ج: مزیداری کی بات ہے کہ نہ شاعری میں میرا کوئی استاد ہے اور نہ ہی شاگرد۔ میں کسی سے بھی متاثر نہ تھا‘ بلکہ میرا پہلا قطعہ فارسی زبان میں تھا۔ اس وقت میں ایف سی کالج میں پڑھتا تھا:
——
دل شکستہ سلام می گوید
زار و خستہ سلام می گوید
دست و پائش بہ بستی و رفتی
دست بستہ سلام می گوید
——
ایک خوبصورت دور تھا ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا۔ ان کے شعر سنتے تھے اور انہیں اپنے شعر سناتے تھے۔
س: آپ کو جدید اردو شاعری کا نمائندہ شاعر سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے شاعری میں رونے دھونے کی روایت کے برعکس شگفتہ موضوعات متعارف کرائے۔
ج: صرف رونا دھونا ہی زندگی نہیں ہے۔ باقی چیزیں بھی زندگی کا حصہ ہیں۔ وضو کرکے مصلے پر بیٹھ کر غزل کہنا بھی ہرگز ضروری نہیں۔ شاعری میں مزاح‘ شگفتگی اور پھکڑ پن بھی ہو سکتی ہے کیونکہ زندگی بہت متنوع ہے اس لیے جیسی زندگی ہے شاعری بھی ویسی ہی ہونی چاہیے۔ زندگی کے جتنے رنگ ہیں اتنے ہی رنگ شاعری کے بھی ہوتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : نابینا شاعر اقبال عظیم کا یوم پیدائش
——
س: ہر شاعر کا اپنے ہم عصر شعراءسے موازنہ اور مقابلہ کیا جاتا ہے۔ نقادوں نے آپ کا مقابلہ کن لوگوں سے کیا؟
ج: شعراءمیں رشک یا حسد کا جذبہ بھی ضرور پایا جاتا ہے۔ نقاد شروع ہی سے میرے بارے میں مختلف آراءرکھتے ہیں اور یہ میرے لیے اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ میرا کام ہی ایسا ہے اور میں نے کبھی ان لوگوں کی پروا نہیں کی۔ اپنی مرضی سے شاعری کی ہے اور اب تک کر رہا ہوں۔ نقاد کی رائے میں اس کی داخلی کیفیت اور ذاتی نقطہ نظر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ تجزیہ مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ شمس الرحمن فاروقی بہت بڑا نقاد ہے۔ اس نے تو ایک بار یہ بھی کہا کہ ظفر اقبال غالب سے بڑا شاعر ہے۔ بھارت میں میری شاعری بہت موضوع بحث رہتی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سید طاہر حسین جو کہ شعبہ انگریزی کے صدر تھے۔ انہوں نے ایک مضمون میں لکھا کہ کچھ عرصہ بعد ظفر اقبال کو لوگ اسی طرح پڑھیں گے جس طرح آج غالب کو پڑھا جا رہا ہے۔ کرنے والے تو میرا مقابلہ غالب کے ساتھ کر رہے ہیں۔ جیلانی کامران نے میری کتاب ”غبار آلود سمتوں کے سراغ“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کتاب ظفر اقبال کا شاہکار ہے اور اسے دیوانِ غالب کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ ظفر اقبال کا مجموعہ کلام ”گلافتاب“ دیوان غالب کے بعد تہلکہ خیز ترین کتاب ہے۔ یہ صرف خدا کی مہربانی ہے وگرنہ میں عجز و انکسار کا آدمی ہوں اور شروع سے اپنا انکار ہی کرتا آیا ہوں۔ اپنے ایک مضمون میں جو کہ ’سیپ‘ میں شائع ہوا۔ میں نے برملا کہا کہ میں تو دنیائے شعر کا محض ایک سیاح ہوں۔ میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ میں ایک شاعر ہوں۔ ایک بار میں نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بہت ممکن ہے کسی روز صبح اٹھ کر میں اپنی ساری شاعری کو منسوخ کر دوں۔
س: ایک وکیل‘ کالم نگار اور شاعر میں سے کون سی حیثیت آپ کو زیادہ پسند ہے؟
ج: وکالت کو میں نے زیادہ وقت نہیں دیا۔ گذشتہ چالیس سال سے کالم نویسی کر رہا ہوں۔ تواتر کے ساتھ کام کرتے ہوئے انسان اپنی ایک مخصوص طرز اختیار کرتا ہے اور اس سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ ہمیشہ میں نے اپنی شاعری کو زیادہ اہمیت دی ہے اور اس سے زیادہ لطف اندوز ہوا ہوں۔
س: اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے آپ کا تجربہ کیسارہا؟
ج: میرے دور میں اردو سائنس بورڈ کو قائم ہوئے پچاس سال مکمل ہوئے تھے۔ ہم نے اس کی گولڈن جوبلی منائی اور اس موقع پر خصوصی طور پر پچاس کتابیں شائع کیں۔ یہ کام نہ اس سے قبل ہوا نہ بعد میں کہ یک مشت پچاس کتابیں شائع کرکے پیش کر دی گئی ہوں۔ یہ کتب سائنسی موضوعات پر تھیں جن سے نوجوان طالب علموں کی علمی قابلیت اور سائنس فہمی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
س: آپ کے ہاں شاعری کے موضوعات‘ الفاظ کے انتخاب‘ املاءاور انداز میں روایات سے ہٹ کر ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک اس کے محرکات کیا ہیں؟
——
یہ بھی پڑھیں : محترمہ صفیہ شمیم ملیح آبادی کا یوم وفات
——
ج: جس طرح سکے استعمال کے بعد گھس جاتے ہیں اسی طرح الفاظ بھی کثرتِ استعمال سے گھس جاتے ہیں۔ کچھ الفاظ جیسے کہ فنکار‘ درد وغیرہ معنی دینا چھوڑ چکے ہیں یا کم از کم میری تسلی کے لیے کافی نہیں۔ ایک اصلی شاعر اپنی زبان خود ساتھ لے کر آتا ہے اور جو اس سے پہلے موجود ہیں ان سب کی تکذیب کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جو میں کہوں گا کہ وہ ہی درست ہے۔ شعوری یا لاشعوری سطح پر ہر شاعر ایسا کرتا ہے۔ زبان ہی شاعر کا ہتھیار ہے جس سے اس نے شاعری کرنی ہے۔ اپنا اظہار اور اپنا دفاع کرنا ہے۔ اس لیے ہتھیار اپنی مرضی اور پسند کا ہونا چاہیے۔ اگر کند ہتھیار استعمال کیا جائے تو کام نہیں چلے گا۔
س: شاعروں اور لکھنے والوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آ رہا ہے۔ کیا اس میں راستہ بنانا واقعی مشکل ہے؟
ج: شاعری کرنا‘ نئی طرح ڈالنا اور نیا اسلوب متعارف کرانا اتنا آسان کام نہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ صرف شوقیہ شاعری کرتے ہیں اس لیے کہ لوگ کہیں کہ یہ شاعر ہے۔ خود پیسے خرچ کرکے کتاب چھپواتے ہیں اور دوستوں میں بانٹ کر صاحب کتاب ہو جاتے ہیں یہ اصل شاعری نہیں بلکہ صرف موزوں گوئی ہے کہ آپ ایک فقرہ موزوں کر لیتے ہیں۔ قافیہ‘ وزن اور ردیف کے حوالے سے اور کہتے ہیں کہ یہ شعر ہے۔ شعر ایسے نہیں بنتے شعر وہ ہے جسے ساری دنیا مانے کہ یہ شعر ہے۔ آمد تو سب کو ہوتی ہے مگر اچھے شعر کا انحصار اس بات پر ہے کہ آمد کس کو ہو رہی ہے آیا وہ ایک اصلی شاعر ہے؟ میں اکثر کہتا ہوں کہ جس شاعر کا ’جن‘ جتنا بڑا ہے وہ اتنا بڑا شاعر ہے اور ’جن‘ سے مراد توفیق یا شاعری کرنے کی طاقت ہے۔ یہ صلاحیت ہی ہوتی ہے جو آپ سے شعر کہلواتی ہے اور اس کا معیار متعین کرتی ہے اور لوگوں میں آپ کی شناخت کراتی ہے۔
س: آپ نے اپنی شاعری کی صلاحیت کو جِلا دینے کے لیے کن شعراءکا مطالعہ کیا؟
ج: مجھے کسی زمانے میں لگتا تھا کہ میں نے بھی کبھی شعر کہنا ہے چنانچہ جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا تو کلیاتِ میر اور چغتائی کا ڈیزائن کیا ہوا دیوانِ غالب خرید کر گھر لے آیا اور انہیں سرسری طور پر پڑھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں نے شعر کہنا ہے۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ دونوں ’جن‘ میرے سر پر سوار رہے تو میں شعر کہہ چکا۔ چنانچہ یہ دونوں کتابیں میں نے تحفتاً دوستوں کو دے ڈالیں۔ کسی کی شاعری کو سرپر سوار نہیں کرنا چاہیے۔ خود اپنی نظر سے تنقیدی جائزہ ضرور لیں۔ شعر آپ کے بچوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ انہیں شیر کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ انہیں سخت تنقیدی نظر سے دیکھیں۔ بڑے سے بڑا شاعر خامیوں سے مبرا نہیں۔ میں نے خود غالب کی شاعری میں بہت سی غلطیاںپائی ہیں۔
س: آپ کی شاعری کو کہاں پر زیادہ پذیرائی ملی؟
ج: بھارت میں بہت سے لوگ میری اور غالب کی شاعری کا آپس میں موازنہ و مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت سے آنے والے شعراءاکثر مجھ سے ملاقات کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ایک بار مجھے کسی نے بتایا کہ بھارت کے اکثر شہروں میں ادبی انجمنوں میں دو گروہ بنے ہوئے ہیں۔ پروظفر اقبال اور اینٹی ظفر اقبال۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں وہاں بھی زیر بحث ہوں جہاں زندگی میں کبھی نہیں گیا۔ کوئی مجھے بر ابھلا کہہ رہا ہے کوئی میرا ذکر محبت سے کر رہا ہے۔ بہرحال یہ میرے لیے بڑی بات ہے۔ لوگوں کی شاعری عوام تک گلوکاروں کے ذریعے پہنچتی ہے مگر میری شاعری عام آدمی تک کتاب کے ذریعے پہنچی ہے۔
س: رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا کا بہت اہم کردار ہے۔ کیا اس عمل میں میڈیا غلطی کا مرتکب بھی ہوتا ہے؟
ج: میڈیا بہت مضبوط محاذ ہے۔ ہمارا کوئی ادارہ کبھی اتنا مضبوط نہیں رہا۔ گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو معلومات میسر آجاتی ہیں اور وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ میڈیاکو چلانے والے بھی انسان ہیں اور ان سے غلطی بھی سرزد ہوتی ہے۔ حکومت جو مرضی کہتی رہ جائے لیکن جو نقطہ نظر میڈیا کی بدولت پروان چڑھتا ہے وہ دیر تک قائم رہتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : تو ہے مشکل کشا، اے خدا، اے خدا
——
س: آپ نے بہت تواتر کے ساتھ شاعری تخلیق کی ہے اور آپ کے ہاں تخلیقی مواد کا وفور پایا جاتا ہے۔ اس بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: میں تقریباً پچاس سال سے لکھ رہا ہوں اور شاعری کے مجموعے تین ہزار سے زیادہ صفحات پر پھیل چکے ہیں۔ ایک میٹنگ کے دوران ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ ظفر صاحب ”تسی بس کدوں کرنی ایں“۔ میں نے اسے اپنا ایک شعر سنایا:
یہ ابھی تو میری سمجھ میں بھی نہیں آ رہی
میں جبھی تو بات کو مختصر نہیں کررہا
س: آپ نے کالم نویسی بھی تواتر کے ساتھ کی۔ آپ اس لیے لکھتے تھے کہ لکھنا طے پا چکا تھا یا پھر کوئی اندرونی تحریک آپ کو مائل کرتی تھی؟
ج: جو باتیں طے ہو جائیں انہیں بھی پورا کرنا چاہیے۔ وعدہ بھی تبھی کرتے ہیں لکھنے کا جب آپ کے پاس واقعی کچھ لکھنے کو موجود ہو۔ جب آپ کا ایک خاص اندازِ تحریر ہو جسے لوگ پسند کرتے ہوں اور آپ کے قارئین کا ایک حلقہ موجود ہو۔ ہاں خارجی تحریک اس طرح ملتی ہے کہ آپ کو مطالعہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ کئی اخبارات کا مطالعہ کرنے اور طرح طرح کی خبریں پڑھنے کے بعد آپ اسی مواد میں سے اپنا کالم نکالتے ہیں۔ کبھی کوئی خاص واقعہ آپ کو متاثر کرتا ہے تو اس کے بارے میں لکھ دیتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ سرمد صہبائی کی کوشش کے باوجود میں نے ڈرامہ نہیں لکھا اور نہ کسی اور ادبی صنف کی طرف آیا۔ شاعری اور کالم نویسی میں نے کی ہے۔
س: آفتاب اقبال کو اپنی پہچان بنانے میں آپ کے حوالے کی کس حد تک ضرورت پڑی؟
ج: میرے بیٹے آفتاب اقبال میں مجھ سے بہتر صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میرے سائے میں اس کا آگے بڑھنا بہت مشکل ہوتا۔
س: ریٹائرمنٹ کے دنوں میں آپ کے کیا مشاغل ہیں؟
ج: میں چونکہ گھر سے بہت کم نکلتا ہوں اس لیے توقع رکھتا ہوں کہ دوست میرے پاس آئیں۔ ہر نئی صبح کا انتظار اس لیے ہوتا ہے کہ میں اپنا کالم دیکھوں مبادا کوئی خامی تو نہیں رہ گئی۔
س: کچھ کالموں میں کل کی پیش گوئیاں نظر آتی ہیں اور کچھ کالم آج کل ایسے لکھے جا رہے ہیں‘ جن کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ کن لوگوں کے حق میں لکھے گئے ہیں۔ یہ اسلوب کس حد تک کالم نگاری کو متاثر کرتا ہے۔
ج: سیاست دانوں نے اقتدار اور کاروبار کو یکجا کر دیا ہے۔ کالم بھی بکتے ہیں۔ کچھ لوگ سیاسی جماعتوں سے چند مفادات کے عوض اپنے کالموں میں ان کی تعریفوں کے پل باندھتے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کی جائیدادیں بن رہی ہیں۔ مجھے بھی اس طرح کی پیشکشیں ہوتی ہیں مگر میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ جب میں لکھ رہا ہوں تو حقیقت کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تمام پارٹیاں‘ لیگیں اور تحریکیں میرے لیے برابر ہیں۔ تبدیلی لانے کے لیے اور انفرادیت برقرار رکھنے کے لیے جرات سے کام لینا پڑتا ہے۔ میں تو ٹی وی اور ریڈیو پر بھی ہمیشہ اپنی نئی غزل اور تازہ کلام پیش کرتا ہوں۔ دلیری کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو منوایا جانا چاہیے۔ اختلاف رائے کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اختلاف بہت ضروری ہے۔ شیکسپیئر کہتا ہے کہ اگر آپ کے ساتھ سب اتفاق کرتے ہیں اور کوئی اختلاف نہیں کرتا تو آپ ایماندار آدمی نہیں ہیں۔
س: محبت ایک لطیف جذبہ ہے۔ اس حوالے سے آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
ج: اس سوال کے جواب میں ایک شعر کہ
——
یہ بھی پڑھیں : معاملاتِ محبت میں سخت گیر ہیں ہم
——
بار بار دل کی یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
مجھ سے اگر پوچھو تو محبت ہوتی رہنی چاہیے
——
منتخب کلام
——
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
——
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے
——
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتہ بھی دینا
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا
——
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
——
اس کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہ تھی مجھے
مصروف تھا میں کچھ بھی نہ کرنے کے باوجود
——
سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتا ہوں جواں ہونے کی خاطر
——
اس کو آنا تھا کہ وہ مجھ کو بلاتا تھا کہیں
رات بھر بارش تھی اس کا رات بھر پیغام تھا
——
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے
——
تو ہے مشکل کشا، اے خدا، اے خدا
مجھ کو مجھ سے بچا، اے خدا، اے خدا
کب سے بھٹکا ہوا دشتِ خواہش میں ہوں
مجھ کو رستہ بتا ، اے خدا، اے خدا
کوئی دوبارہ ملنے کی توفیق دے
میں ہوں خود سے جدا، اے خدا، اے خدا
اپنے افلاک سے میرے ادراک سے
تو ہے سب سے بڑا، اے خدا، اے خدا
رنگِ خوابِ ہنر تیری رحمت سے ہے
تیری قدرت سے تھا، اے خدا، اے خدا
عاجزی کا اثر میری آواز میں
تو نے پیدا کیا، اے خدا، اے خدا
میں نے جو کچھ کیا، تیری تائید سے
مجھ سے جو کچھ ہوا، اے خدا، اے خدا
مجھ کو حیرت بھی دے، مجھ کو حسرت بھی دے
یوں تو سب کچھ دیا، اے خدا، اے خدا
جانے کب سے اٹھائے ہوئے ہے ظفر
بارِ دستِ دعا، اے خدا، اے خدا
——
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف
میں نے خود کو جو سمیٹا تو اُسی لمحے میں
اور بھی چاروں طرف پھیل گئے چاروں طرف
رک گئے ہیں تو یہ دریا میرے اندر ہی رکے
چل پڑے ہیں تو اُسی طرح چلے چاروں طرف
اب کہ ہوتا ہی نہیں میرا گزارا ان پر
چاہیے ہیں مجھے اس بار نئے چاروں طرف
ہیں بھی ایسے کہ فقط مجھ کو نظر آتے ہیں
ایک ہی دوسرے میں الجھے ہوئے چاروں طرف
میں ہی معدوم سا ہوتا گیا رفتہ رفتہ
ورنہ منظر تو فلک بوس رہے چاروں طرف
پہلے تو ایک طرف بیٹھ گیا وہ آ کر
اور پھر ایک طرف اس نے کیے چاروں طرف
کوئی اطراف کی اب فکر اُسے کیا ہو گی
ساتھ ہی ساتھ جو پھرتا ہے لیے چاروں طرف
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں، ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار خمار بارہ بنکوی کا یوم پیدائش
——
نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
کسی بھی سطح پہ کوئی تو رابطہ رکھنا
مریں گے لوگ ہمارے سوا بھی تم پہ بہت
یہ جرم ہے تو پھر اس جرم کی سزا رکھنا
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہوگی
غریبِ شہرِ ستم ہوں’ مرا پتا رکھنا
بس ایک شام ہمیں چاہیے’ نہ پوچھنا کیوں
یہ بات اور کسی شام پر اٹھا رکھنا
نئے سفر پر روانہ ہوا ہوں از سرِ نو
جب آؤں گا تو مرا نام بھی نیا رکھنا
فصیلِ شوق اٹھانا’ ظفر ضرور مگر
کسی طرف نکلنے کا راستا رکھنا
——
جتنا بھی سروکار تھا‘ چھوڑا نہیں میں نے
کمزور سا یہ تار بھی توڑا نہیں میں نے
جیسا تھا اسی طرح سے پہنچا دیا دل کو
تیرا وہ بیاں توڑا مروڑا نہیں میں نے
کپڑے بھی کبھی پھاڑ کے نکلا نہیں گھر سے
سر بھی کسی دیوار سے پھوڑا نہیں میں نے
یہ جوئے قناعت کہ رواں ہے اسی صورت
رخ اس کا کسی سمت بھی موڑا نہیں میں نے
پھر سوکھ ہی جانا تھا محبت کا یہ پودا
اس پر جو لہو دل کا نچوڑا نہیں میں نے
جاگی تو کبھی آپ ہی جاگے گی بہرحال
سوئی ہوئی قسمت کو جھنجھوڑا نہیں میں نے
شاید کبھی پڑ جائے ظفر اس کی ضرورت
خاشاکِ بدن کو ابھی اوڑھا نہیں میں نے
——
دور رہ کر نہ اسے پاس ، بلانے سے کیا
میں نےاندازہ محبت کا ، بہانے سے کیا
اس کے اپنے ہی خیالات پریشاں تھے بہت
جس نے آغاز مجھے خواب دکھانے سے کیا
کچھ تسلی مجھے اندازِ تغافل سے ہوئی
کچھ یقین میں نے مزید اس کے نہ آنے سے کیا
شرکتِ کار کا اک فیصلہ ہم دونوں نے
درمیاں میں‌کوئی دیوار اُٹھانے سے کیا
کام کرنا تھا جو ہم نے کبھی خاموشی سے
اس قدر وہ بھی یہاں شور مچانے سے کیا
کارِ دنیا میں بھُلا بھی نہ سکے ہم تجھ کو
آخر اتنا بھی تیرے یاد دلانے سے کیا
شاعری تھی یہ کسی اور زمانے لے لیئے
میں نے مربوط اسے اپنے زمانے سے کیا
ساز گار آب و ہوا ہی نہ ہوئی جس کو ظفر
تجربہ ہم نے وہی فصل اُگانے سے کیا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ