شہرِ امکان میں وہ ساعتِ حیرت آئے
لفظ سوچوں تو لبوں پر تری مدحت آئے
پورے احساس میں کھِل اُٹھیں بہاریں جیسے
دل دریچے سے تری یاد کی نکہت آئے
ساتھ رکھتا ہوں ترے خواب میں آنے کا یقیں
قریۂ جان میں تنہائی سے وحشت آئے
جادۂ شوق پہ رنگوں کی دھنک آرائی
بہرِ ترحیب سلامی لئے طلعت آئے
سارے امکان کریں چاکری تیرے در کی
دل کی دُنیا میں اگر تیری حکومت آئے
تیرے آثار کو تکنے مری خواہش دوڑے
تیری دہلیز کو چھونے مری چاہت آئے
کاش رہ جاؤں مدینے کا مقامی ہو کر
کاش تقدیر میں ایسی کوئی ہجرت آئے
اُن کی مقصودؔ ہے محشر میں زیارت مجھ کو
چشمِ بیتاب کی منت ہے قیامت آئے