میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں

پھر بات یہ کیا ہے اے ہمدم! کیوں مطلعِ دل پر نور نہیں

تحصیلِ جناں مطلوب نہیں، مقصودِ عبادت حور نہیں

جز تیری رضا، جز تیری خوشی، کچھ اور مجھے منظور نہیں

آزادی انساں کا مبحث دو رُخ سے سمجھنا ہے یعنی

مختار ہے اور مختار نہیں، مجبور ہے اور مجبور نہیں

اک بار ذرا سے ہنسنے کا انجام کلی نے دیکھ لیا

تقریبِ مسرت کا یعنی دنیا میں کوئی دستور نہیں

اللہ رے پاسِ ناراضی، اللہ رے پاسِ دلداری

جو بات انہیں منظور نہیں، وہ بات مجھے منظور نہیں

اے مردِ مسلماں ہمت رکھ، اے مردِ مجاہد کوشاں رہ

اسلام کا پرچم لہرائے ہر بام پہ وہ دن دور نہیں

اف شانِ وجودی کیا کہنے، اف شانِ حجابی اس کی نظرؔ

موجود ہے اور موجود نہیں، مستور ہے اور مستور نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]