واقفِ آدابِ محفل بس ہمیں مانے گئے

ان کی محفل میں ہمیں شائستہ گردانے گئے

مٹتے مٹتے مٹ گئے راہِ وفا میں لوگ جو

بعد والوں میں نشانِ راہ وہ مانے گئے

کچھ نقوشِ عہدِ رفتہ خیر سے اب بھی تو ہیں

لاکھ بگڑی میری صورت پھر بھی پہچانے گئے

دودھ کے مجنوں تو مل جائیں گے اب بھی ہر جگہ

خون دیں لیلیٰ کو اپنا ایسے دیوانے گئے

سوزِ الفت کا اثر تھا دیدنی مطلوب میں

شمع بھی گھلتی گئی مرتے جو پروانے گئے

کچھ درخشندہ حقائق مجھ سے جو منسوب تھے

کم نصیبی سے مری بنتے وہ افسانے گئے

عقل الجھی ہی رہی چون و چرا میں اے نظرؔ

عشق میں دل کے کیے سب فیصلے مانے گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]