آج کل نیند بھی اذیت ہے

آج کل نیند بھی اذیت ہے
وقت بے وقت آنکھ کھلتی ہے
پھر یونہی رات کے گذرنے کا
اک تماشہ سا دیکھتی ہوں میں
وقت تصویر کر گیا ہے مجھے
اب نہ آواز ہے نہ بینائی
کتنی خاموش بے بسی ہوں میں
ٹوٹ کر چاہنے کی خواہش میں
ٹوٹ کر چور ہو گئی ہوں میں
اب کسی سے بھی بات کرنے کی
نہ تو خواہش ہے نہ ضرورت ہے
لگ رہا ہے کہ یہ دھڑکتا دل
تین سو دو( 302) کا کوئی قیدی ہے
جس کی قسمت میں دار لکھا ہے
موت کا منتظر جیے جائے
ہجر کی ساعت _ اذیت میں
اتنا کہرام کررہی یادیں
جیسے طوفان ہو سمندر کا اور کشتی کسی مسافر کی
راستہ بھول کر ادھر آئے
پھر کبھی واپسی نہ ہو اس کی
ضبط کی ہر طناب ٹوٹی ہے
کاش یہ آنسوؤں کی چیخیں اور
ہجر کی وحشتیں کہیں رکتیں
پر مرے کم نصیب دل ایسے
جس قدر منہ کو بھینچ لو اپنے
کم نہیں ہوتا شور آہوں کا
ہاتھ سے سسکیاں نہیں رکتیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]