آرزوئے دید میں آخر اثر اتنا تو ہو

وادیٔ بطحا میں جا پہنچے بشر ، اتنا تو ہو

سرنِگوں ہوں اُن کے آگے کج کلاہانِ جہاں

شاہ دیں کے خادموں کا کرّوفر اتنا تو ہو

ذکرِ آقا میں خیال آئے جُونہی اعمال کا

آستیں اشکِ ندامت سے ہو تر ، اتنا تو ہو

نزع کی حالت میں میرے لب پہ ہو نامِ حضور

مجھ سے خاطی کی دُعا میں بھی اثر اتنا تو ہو

زندگی رستے میں گر گزرے تو گزرے شوق سے

روضۂ اطہر ہو مقصُودِ سفر ، اتنا تو ہو

ہے یہی میری تمنّا، ہے یہی دل کی مُراد

سرورِ کونین کا مِل جائے در ، اتنا تو ہو

آپ کے در پر پہنچنے کی سعادت ہو نصیب

ہم کو ہونا پڑ نہ جائے دربدر ، اتنا تو ہو

اور تو فردِ عمل کی بات کیا ، جو ہے سو ہے

دیکھ لیں گے سرورِ کونین ، ڈر اتنا تو ہو

کیجیے اُن کے غلاموں کی غلامی اختیار

اور تو محمود کیا کرنا ہے، پر اتنا تو ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]