آنکھوں پہ گرد راہ ہے اور راہ گمشدہ

چہرے پہ کچھ ملال ہے اور دل اسیر رنج

اپنے پروں کا کس قدر مجھ کو غرور تھا

میری اڑان آسماں کی وسعتوں میں تھی

چاروں طرف بساط سے بڑھ کر تھی سرخوشی

لیکن کسی کو راس کب آتی ہے زندگی

جتنی طلب ہو ، پاس کب آتی ہے زندگی

پوروں پہ جتنے درد ہیں تیرے عطا کئے

وہ درد میرے آنسوؤں کا بخت ہوگئے

اب تو سماعتیں نہیں آہٹ کی منتظر

اب آس ہے نہ خوشبوؤں کی خواہشیں رہیں

بس بے دلی ہے اور بہت بیزار کیفیت

بس منقطع ہے رابطہ قرب و جوار سے

جو دل کے در پہ دستکیں دیتی تھیں أئے روز

ان آہٹوں سے چاپ سے بھی ان دنوں نہیں

اور ان دنوں کسی سے بھی مطلب نہیں مجھے

مطلب کہ اپنے آپ سے بھی ان دنوں نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]