آنکھ پتھرائی ہُوئی ہے اب کہیں اندر اُتر

شیشۂ دل میں اے عکسِ گنبدِ اخضر اتر

جذب کے امکان میں لا اب کوئی موجِ طرب

خواب کے احساس میں اے منظرِ دلبر اُتر

اُن کو آنا ہے نئے لمحوں کی آرائش کے ساتھ

میرے آنگن میں سحَر اب صورتِ دیگر اُتر

سوچ بے خود، سَر نہفتہ، حرفِ مدحت منفعل

نقشِ نعلینِ کرم تُو جادۂ دل پر اُتر

قاسمِ جنت کے ہاتھوں میں ہے بخشش کا بھرم

دیر ہے کس بات کی اے تلخئ محشر اُتر

یہ تعطل خیز لمحے درپئے آزار ہیں

نامہ بر کف موجۂ بادِ صبا ! اکثر اُتر

وہ تو ہر اوجِ سخن کی وسعتوں سے ہیں پرے

اے مرے جذبِ دروں ! اب شعر سے باہر اُتر

فاصلے سے ٹُوٹ جاتا ہے تسلسل کا خمار

منظرِ دیدِ مسلسل آنکھ میں آ کر اُتر

مَیں اُسے پھر جوڑ لوں گا نعت کی تدبیر میں

آ کوئی حرفِ طلب ! جبریل کے پَر پر اُتر

اِس زمینِ شعر میں مشکل ہے مدحت کی نمو

حرف کی پاپوش پر اے دیدۂ اختر اُتر

صبح میں باندھوں گا تجھ کو مقطعِ نعتِ نبی

روشنی کے مطلعِ اظہار پر شب بھر اُتر

حاصلِ نظمِ دو عالم، جلوۂ مقصودِ کُن

بہرِ تکمیلِ سخن ادراک کے اوپر اُتر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]