آپ آتے تو نیا کھیل دکھایا جاتا

دل کے شیشے کو بلندی سے گرایا جاتا

ہم تو راضی بہ رضا لوگ تھے فانی جو ہوئے

وقت کب تھا کہ کسی ضد پہ لٹایا جاتا

ہم کہ بے خوف بیابانِ جہاں سے گزرے

تو میسر کبھی ہوتا تو گنوایا جاتا

دل کی تزئین کو باقی ہے فقط رنگ ترا

اور یہ رنگ کہیں بھی نہیں پایا جاتا

لوٹ سکتی کسی ترکیب سے کوری مٹی

چاک کے پاٹ کو اُلٹا بھی گھمایا جاتا

مل گیا شہر کو کچھ اور تماشہ ورنہ

آبلہ پاء کو ابھی اور نچایا جاتا

ہم ٹھہرتے تو ترے حسن کا سورج کھوتے

اور بڑھتے تو تری زلف کا سایہ جاتا

تم نے کشکولِ خموشی میں صدائیں ڈالیں

ہم فقیروں سے کہاں تم کو بلایا جاتا

دل پہ طاری تھی زمانوں کی کہولت ورنہ

قافیہ اور بھی ندرت سے نبھایا جاتا

اضطراری یہی سوجھی ہے نہیں تو ناصر

زخم شعلہ تھا کہ پھونکوں سے بجھایا جاتا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]