آگ

گلوں میں لالۂ و سرو سمن میں آگ لگی

لگائی کس نے کہ سارے چمن میں آگ لگی

مجیب بد نظر و بد سرشت و ابن الوقت

اسی خبیث کے ہاتھوں وطن میں آگ لگی

سلگ رہی تھی جو دل میں حسد کی چنگاری

لہک اٹھی تو ہر اک موئے تن میں آگ لگی

خلافِ قوم و وطن کی ہزار تقریریں

جو دل میں آگ لگی تھی سکن میں آگ لگی

حسد کی آگ میں بنگالیوں کو جھونک دیا

وہاں ہر ایک دلِ مرد و زن میں آگ لگی

دلوں میں بیج جو نفرت کے بو دیے اس نے

ہر ایک طور طریقہ چلن میں آگ لگی

بچا بچا کے رکھا ہم نے جن کو طوفاں سے

انہیں چراغوں سے اف انجمن میں آگ لگی

بجھا رہے تھے محبِ وطن جو شعلوں کو

دل اندرا کا جلا تن بدن میں آگ لگی

سپاہِ کفر نے بھڑکائی آگ کی بھٹی

گھروں میں کھیت میں ہر باغ و بَن میں آگ لگی

وہ شعلہ بازی توپ و تفنگ تھی ہر سو

فضا میں بحر میں دشت و دمن میں آگ لگی

بچا نہ کوئی بھی امن و اماں کا گہوارا

مراکزِ ہنر و علم و فن میں آگ لگی

فضا میں آگ کے گولوں کی وہ ہوئی کثرت

کہ آفتاب کی اک اک کرن میں آگ لگی

لگی تھی آگ تو بڑھ کر وہ چارسو پھیلی

شمال و مشرق و مغرب دکن میں آگ لگی

جلایا جامہٴ انسانیت معاذ اللہ

جو ستر پوش تھا اس پیرہن میں آگ لگی

جو بلبلوں کو اجاڑا تو خود بھی بچ نہ سکے

ہر آشیانۂ زاغ و زغن میں آگ لگی

زمیں سے اٹھے تو شعلے گئے ثریا تک

لگا یہ جیسے کہ چرخِ کُہن میں آگ لگی

نہ تھی زمین کے اوپر ہی شعلہ سامانی

زمیں کے نیچے بھی تارِ کفن میں آگ لگی

مرے دیار کا چہرہ جھلس گیا آدھا

دیارِ پاک کے اف بانکپن میں آگ لگی

مرا ہی قول نہیں سب نظرؔ یہ کہتے ہیں

کہ بنگلہ دیش کے دیوانہ پن میں آگ لگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]