آ عالم حالت دیکھ مری

آ عالم حالت دیکھ مری
مجھے گنجل گنجل کرڈالا
اس عشق کے ظالم سائے نے
آسیب نے سب ویران کیا
یہ خون رگوں میں ٹھہرا ہے
اب دھڑکن رک رک جاتی ہے
اب سانسیں تھک کر چور ہوئیں
یہ آنکھیں اب بے نور ہوئیں
تسبیح کے دانے رولے ہیں
سو بار مصلے کھولے ہیں
ہر بار دعائیں لوٹی ہیں
اس باب قبول سے لاحاصل
اک سایہ مجھ پہ حاوی ہے
سو ورد وظیفے کر ڈالے
کچھ چلے کاٹ کے دیکھ لئے
نہ چین سکون قرار ملا
نہ اس بے فیض کا پیار ملا
یہ ٹونے سارے جھوٹ ہوئے
ہر کوشش یوں بے کار گئی
اس بخت کے کھیل میں سائیاں وے
تو جیت گیا
میں ہار گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]