ابھی کلیوں میں چٹک ، گُل میں مہک باقی ہے

دل میں رونق ، ابھی آنکھوں میں چمک باقی ہے

اے ستم گر ترا بازو نہ ٹھہرنے پائے

جب تلک جسم میں جاں ، جاں میں کسک باقی ہے

اور ہر شے جو دمکتی تھی مٹا دی تو نے

دل سے اٹھتے ہوئے شعلوں کی لپک باقی ہے

اور کچھ دیر ترے دور کا چرچا ہو گا

اے فسوں گر ، کوئی ایذا ، کوئی زک باقی ہے

ظلم گھنگھور سہی ، وہ بڑے شہہ زور سہی

ابھی دیوانوں میں مستانہ لپک باقی ہے

پھر رہے ہیں سرِ بازار تماشا بن کر

بدگمانی تری ظالم ابھی تک باقی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]