ادھر آ کر شکار افگن ہمارا

مشبک کر گیا ہے تن ہمارا

گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے

ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا

گئے جوں شمع اس مجلس میں جتنے

سبھوں پر حال ہے روشن ہمارا

بلا جس چشم کو کہتے ہیں مردم

وہ ہے عین بلا مسکن ہمارا

ہوا رونے سے راز دوستی فاش

ہمارا گریہ تھا دشمن ہمارا

بہت چاہا تھا ابر تر نے لیکن

نہ منت کش ہوا گلشن ہمارا

چمن میں ہم بھی زنجیری رہے ہیں

سنا ہوگا کبھو شیون ہمارا

کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا

سو ٹھہرا ہے یہی اب فن ہمارا

نہ بہکے میکدے میں میرؔ کیوں کر

گرو سو جا ہے پیراہن ہمارا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]