اسطرح قید ہوں ذات کے خول میں

گولیاں ہوتی ہیں جیسے پستول میں

اِک کنواں کھودنے کی فقط دیر تھی

پیاس رکھی ملی مجھ کو ہر ڈول میں

منتظر ہیں کسی آخری ہچکی کے

ہم انأوں کے زندانِ پُر ہول میں

کہہ رہی ہیں مناظر کی خاموشیاں

کس قدر تابکاری ہے ماحول میں

ہو گیا شل بدن اپنے ہی بوجھ سے

کاٹ ایسی تھی اُس لہجے میں ، بول میں

رات بھر دندناتے پھرے مرتضیٰ

یاد کے بھیڑیے سوچ کے غول میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]