اسیرِ گردشِ دوراں رہی ہے زندگی برسوں

ہمارے پاس ہو کر بھی نہیں گزری خوشی برسوں

خرد مندوں نے کی اہلِ جنوں کی رہبری برسوں

کہ فرزانے رہے منت کشِ دیوانگی برسوں

ہمیشہ عشق کی بدقسمتی پر ہم رہے گریاں

ہمارے حال پر گریاں رہی بدقسمتی برسوں

تعجب ہے کہ برسوں گلستاں کی یاد میں تڑپے

تعجب ہے نہ آئی گلستاں کی یاد بھی برسوں

نہ ہم بھولے نہ ان سے رشتۂ عہدِ وفا ٹوٹا

دلوں میں یوں تو کہنے کے لیے رنجش رہی برسوں

تبسم تک نہ آیا لب پہ ایسا وقت بھی گزرا

رہی طاری ہجومِ درد میں سنجیدگی برسوں

سکھائے لاکھ ساقی نے سحرؔ آدابِ مے نوشی

مگر آیا نہ رندوں کو شعورِ مے کشی برسوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]