اسی لئے تو فروزاں ہے یہ حیات کی ضو

کہ ضو نواز ہے ہر سُو تمھاری نعت کی ضو

تمھارا نُور تو چمکا ہے نورِ حق سے، مگر

تمھارے نُور سے پھُوٹی ہے ممکنات کی ضو

بھٹک ہی جائے نہ صبحِ جمالِ عصرِ رواں

سو اُس کو تھامے ہُوئے ہے تمھاری رات کی ضو

تمھارے اِسم سے قائم ہے نظمِ کون و مکاں

تمھاری یاد سے روشن ہے کائنات کی ضو

عجیب کربِ تغیر میں تھا ہر اِک منظر

تمھارے آنے سے ممکن ہُوئی ثبات کی ضو

سو اس کے بعد ہی آئی کوئی نویدِ کرم

بدن نے اوڑھ لی جب آپ کی صفات کی ضو

طلسمِ عجز کے محور میں تھا سخن گرداں

کہ حرف و صوت میں چمکی تمھاری بات کی ضو

دمِ مسیحا نے پایا تمھارے قُرب کا لمس

یدِ کلیم نے تھامی تمھارے ہات کی ضو

بُلاوا آیا ہے شہرِ کرم سے پھر مقصود

مرے نصیب میں چمکی ہے التفات کی ضو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]