اسی کو ترک وفا کا گماں ستانے لگے

اُسی کو ترکِ وفا کا ، گُماں ستانے لگے

جسے بھلاؤں تو ، کچھ اور یاد آنے لگے

اِسے سنبھال کے رکھو , خزاں میں لَو دے گی

یہ خاکِ لالہ و گُل ھے , کہیں ٹھکانے لگے

تجھے میں اپنی مُحبت سے , ھٹ کے دیکھ سکوں

یہاں تک آنے میں مجھ کو , کئی زمانے لگے

یہ اُس کا جِسم ھے ، یا ھے طلسمِ خواب کوئی

ادھر نگاہ اُٹھاؤں تو ، نیند آنے لگے۔

کسی بہار سے تسکین آرزو نہ ھُوئی

جو پُھول صُبح کِھلے ، شام کو پرانے لگے

نوید دورئ منزل ثبات دے مجھے

کہ قرب سے تو قدم اور ڈگمگانے لگے۔

وفا بھی حل ھو تو ایسا نہ ھو سلیم ، کہ پھر

دل خراب نئے مسئلے اُٹھانے لگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]