اس مصیبت کا حل تو بین میں ہے

سانپ اک اور آستین میں ہے

ہے لہو میں تمہارے کم ظرفی

بے وفائی تمہارے جین میں ہے

جس پہ لاکھوں کا عشق وارا تھا

اب وہ تیرہ میں ہے نہ تین میں ہے

میں نکل تو رہی ہوں سوئے فلک

میری منزل اسی زمین میں ہے

پردہ گرنے تلک نہ اٹھنا تم

راز سارا ڈراپ سین میں ہے

دکھ کا موسم بدلنے والا ہے

بے یقینی سی اس یقین میں ہے

اب کوئی اور عشق ؟ ناممکن

شرک ممنوع میرے دین میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]