اس مصیبت کا حل تو بین میں ہے
سانپ اک اور آستین میں ہے
ہے لہو میں تمہارے کم ظرفی
بے وفائی تمہارے جین میں ہے
جس پہ لاکھوں کا عشق وارا تھا
اب وہ تیرہ میں ہے نہ تین میں ہے
میں نکل تو رہی ہوں سوئے فلک
میری منزل اسی زمین میں ہے
پردہ گرنے تلک نہ اٹھنا تم
راز سارا ڈراپ سین میں ہے
دکھ کا موسم بدلنے والا ہے
بے یقینی سی اس یقین میں ہے
اب کوئی اور عشق ؟ ناممکن
شرک ممنوع میرے دین میں ہے