اس کارزارِ زیست میں تنگ آ گئے ہیں ہم
لے کر اجل کی تیغ و خدنگ آ گئے ہیں ہم
یاروں سے کی وفا تو جفا کا ، ملا فریب
سکرات میں بہ عرصہ بنگ آ گئے ہیں ہم
جو آئینہ غبار و کدورت سے پاک تھا
اس پر بھی اب جو لگ گیا زنگ آ گئے ہیں ہم
نقش بر آب تھے تو ترا خوف تھا اجل
اب آ کہ بن کے کتبہ سنگ آ گئے ہیں ہم
آمد حریف کی ہو کہ آمد اجل کی ہو
لے کر رباب و بربط و چنگ آ گئے ہیں ہم
خون دل شکستہ کے گہرے کفن پہ داغ
پہنے ہوئے لباسِ دو رنگ آ گئے ہیں ہم
پھیلا کے دام دوست نے ہم کو طلب کیا
بے وقفہ و دریغ و درنگ آ گئے ہیں ہم