اشکوں میں بپا شورشِ غم ہے بھی نہیں بھی

اب دل تہہِ گردابِ الم ہے بھی نہیں بھی

بے ربطیِ احساسِ کرم ہے بھی نہیں بھی

اب ان کی محبت کا بھرم ہے بھی نہیں بھی

وہ ترکِ محبت پہ کئی دن سے مُصر تھے

اب ان سے بچھڑنے کا الم ہے بھی نہیں بھی

آتے ہیں تو پلکوں پہ ٹھہرتے نہیں آنسو

اب دامنِ مژگاں مرا نم ہے بھی نہیں بھی

گم کردہ مُسافر ہوں پسِ گرد چلا ہوں

منزل کی طرف میرا قدم ہے بھی نہیں بھی

خود ہی سرِ پردہ ہے تو خود ہی پسِ پردہ

وہ زینتِ محرابِ حرم ہے بھی نہیں بھی

وہ باندھ کے پیمانِ محبت ہیں مذبّب

اب ان کو سحرؔ پاسِ قسم ہے بھی نہیں بھی ​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]