اشکِ کم ظرف مرا ضبط ڈبو کر نکلا

میں جسے قطرہ سمجھتا تھا سمندر نکلا

جذبۂ شوقِ نظارہ بھی مری آنکھ میں تھا

حسنِ نظارہ بھی اس آنکھ کے اندر نکلا

بارہا دستِ مسیحا سے بھی کھائے ہیں فریب

ہم نے نشتر جسے سمجھا وہی خنجر نکلا

ہم سمجھتے تھے کہ سادہ ہے محبت کی کتاب

حاشیہ اس میں مگر متن سے بڑھ کر نکلا

مرحلہ جب کوئی ایثار کا آیا سرِ بزم

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

ایسا آسیب ہے گلیوں میں سنا ہے کہ ظہیرؔ

گھر پلٹ کر نہیں آتا کہ جو باہر نکلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]