اللہ، غنی کیسی وہ پر کیف گھڑی تھی

جب سامنے نظروں کے مدینے کی گلی تھی

نظروں سے لیے بوسے کبھی ہونٹوں سے چوما

اس شہر کی ہر چیز مجھے خوب لگی تھی

لج پالوں کے لج پال کی چوکھٹ پہ کھڑا تھا

قسمت میری اس در پہ کھڑی جھوم رہی تھی

اس نعت مقدس پہ ہر اک نغمہ تصدق

حسان نے جو نعت مدینے میں پڑھی تھی

کیفیت دل کیسے بتاوں تمہیں لوگو،

جب پہلی نظر گنبد خضری پڑی تھی

مجرم تھا کھڑا سر کو جھکائے ہوئے در پر

آنسو تھے رواں ایسے کہ ساون کی جھڑی تھی

اس شہر کے ذرے تھے چمکتے ہوئے تارے

ہر چیز وہاں نور کے سانچے میں ڈھلی تھی

لے ڈوبتے اعمال مرے مجھ کو نیازی

جا پہنچا مدینے مری تقدیر بھلی تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]