امکان جس قدر مرے صبح و مسا میں ہیں

شکرِ خدا کہ سارے حریمِ ثنا میں ہیں

خود رفتگی کی صورتِ حیرت ہے چار سُو

منظر نظر نواز ترے نقشِ پا میں ہیں

شاید کہ تھام لائی ہے خاکِ کرم کا لمس

احساس ہُوبہُو وہی بادِ صبا میں ہیں

اِک رتجگے کے روگ میں ڈھلتی رہی حیات

تسکیں کے سلسلے ترے خوابِ لقا میں ہیں

حرفِ نیاز و عجز پہ ُکچھ ناز ہے مجھے

اِذنِ کرم میں ہیں، ترے دستِ عطا میں ہیں

حسنِ کرشمہ ساز کے اظہار دم بہ دم

صحنِ بقا میں ہیں، کبھی دشتِ فنا میں ہیں

مقصودؔ آؤ اُس درِ رحمت پہ جا رہیں

سب چشمہ ہائے خیر ہی جس کی رضا میں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]