ان سے مل کر بچھڑی نظریں بن کے مقدر پھوٹ گیا

اُن کے ہاتھوں کھیل میں آخر دل کا کھلونا ٹوٹ گیا

افسانہ ہے جلوۂ ساقی ، ہائے کہاں اب بادۂ ساقی

کش مکشِ اندوہِ وفا میں ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا

غنچے چٹکے دیکھ نہ پائے ، پھول کھلے سب نے دیکھے

گلشن گلشن عام ہے شہرت کلیوں کا دل ٹوٹ گیا

دورِ بہاراں آئے نہ آئے ، روئے نگار نہ جلوہ دکھائے

رنگِ محفل ! اب وہ کہاں پیمانۂ دل ہی ٹوٹ گیا

تم سے شکایت کس کو؟ مجھ کو ؟ رہنے دو کچھ بات بھی ہو

میں نے باندھا عہدِ محبت ، تم نے توڑا ٹوٹ گیا

جان پہ ہم نے کھیل کے عشرتؔ بازیٔ عشق کو جیت لیا

اب کیا پروا ، اب کیا غم ، گر سارا عالم چھوٹ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]