ان سے مل کر بچھڑی نظریں بن کے مقدر پھوٹ گیا
اُن کے ہاتھوں کھیل میں آخر دل کا کھلونا ٹوٹ گیا
افسانہ ہے جلوۂ ساقی ، ہائے کہاں اب بادۂ ساقی
کش مکشِ اندوہِ وفا میں ہاتھ سے ساغر چھوٹ گیا
غنچے چٹکے دیکھ نہ پائے ، پھول کھلے سب نے دیکھے
گلشن گلشن عام ہے شہرت کلیوں کا دل ٹوٹ گیا
دورِ بہاراں آئے نہ آئے ، روئے نگار نہ جلوہ دکھائے
رنگِ محفل ! اب وہ کہاں پیمانۂ دل ہی ٹوٹ گیا
تم سے شکایت کس کو؟ مجھ کو ؟ رہنے دو کچھ بات بھی ہو
میں نے باندھا عہدِ محبت ، تم نے توڑا ٹوٹ گیا
جان پہ ہم نے کھیل کے عشرتؔ بازیٔ عشق کو جیت لیا
اب کیا پروا ، اب کیا غم ، گر سارا عالم چھوٹ گیا