اُن کو بھی خوفِ حشر ہے کیونکر لگا ہوا

حامی ہے جن کا شافعِ محشر لگا ہوا

طائر وہی خیال کا، پہنچا ہے اُن کے در

جس کو ہے اسمِ نور کا شہپر لگا ہوا

آتے ہیں ان کے در پہ زمانے کے بادشہ

جن کا تری گلی میں ہے بستر لگا ہوا

مہکے ہیں ایسے حلقے درودوں کے بے شبہ

گویا کہ بام و در پہ ہے عنبر لگا ہوا

منصب کسی کا اُس کے مقابل ہو کیا بھلا

جو سارے انبیا کا ہے افسر لگا ہوا

اُس سر زمیں کا دہر میں ثانی کہاں بھلا

ہے جس زمیں پہ گنبدِ اخضر لگا ہوا

غم اُن کو جا سنائیں گے ہم بھی جلیل جی

طیبہ میں ہے حضور کا دفتر لگا ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]