اُن کے تیور وہی ہیں اتنی دل آزاری کے بعد

آج تو میں رو دیا احساسِ ناچاری کے بعد

آبرو کے مدعی تھے جان کے دشمن نہ تھے

دشمنوں کی قدر جانی آپ کی یاری کے بعد

رو چکا اے دل جواں مرگی پہ اپنی صبر کر

صبر ہی کرنا پڑے گا نالہ و زاری کے بعد

عشق کی توہین ہے درمانِ الفت کی تلاش

کہہ گئے چپکے سے یہ بھی میری غم خواری کے بعد

پیچھے پیچھے حشرؔ ہے آگے فریبِ آرزو

پھر چلا اُس کی گلی میں اس قدر خواری کے بعد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]