آئیں اب شاعری کی لے کر آڑ

اس غزل میں اگائیں ڑ کے پہاڑ

سیر دشت سخن کی ایسے کریں

کلک خامہ پہ ڈال جائے دراڑ

کام کرتا نہیں ہے کوئی یہاں

دفتروں میں ہے بس اکھاڑ پچھاڑ

اپنی نظروں سے دیکھ باس ہے گر

بند ہر گز نہ کان کے ہوں کواڑ

اس کا لاہور سے تعلق ہے

ہے تکلم میں اس کے ڑ کی پھواڑ

سیدھے رستے پہ کوئی چلتا نہیں

کرتی رہتی ہے سای قوم جگاڑ

تاڑ کے مت یہاں اگاؤ درخت

بیٹھ جائیں گے پیر کاکی تاڑ

اتنا پہلو بدلنا ٹھیک نہے

چارپائی کی ٹوٹتی ہے نواڑ

کیا کریں ان کا ہم جو فیشن میں

خود ہی لیتے ہیں اپنے منہ کو بگاڑ

نوحہ اپنی زباں کا کیوں نہ کروں

جب نظر بازی بن گئی ہو تاڑ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]